عاتکہ سلمان
“اماں جانے دو ناں علی بھی تو جاتا ہے اس کو تو نہیں روکتی” انعم نے منہ بسورا۔ “اس کی بات اور ہے” نجمہ نے بے رخی سے کہا “وہ لڑکا ہے”۔
“ہاں بس اسی کی اماں ہو میری تو ایک نہیں مانتی” انعم نے منہ پھلا لیا۔
علی جو اس سے سال بھر ہی بڑا تھا تھا اسے اداس نہیں دیکھ سکا بہت چاہتا تھا اسے اور کیوں نہ چاہتا ایک ہی تو بہن تھی اس کی پیاری سی منی۔ “تیرے باپ کو خبر ہوئی ناں تو تیرے ساتھ ساتھ میری بھی ٹانگیں توڑ ڈالے گا” اس نے صغیر کا کہہ کے دھمکایا مگر بچوں کی ضد کے آگے ہار مان گئی اور جلدی واپس آنے کی تاکید کرتے ہوئے اجازت دے دی۔
“ہاں بس اسی کی اماں ہو میری تو ایک نہیں مانتی” انعم نے منہ پھلا لیا۔
علی جو اس سے سال بھر ہی بڑا تھا تھا اسے اداس نہیں دیکھ سکا بہت چاہتا تھا اسے اور کیوں نہ چاہتا ایک ہی تو بہن تھی اس کی پیاری سی منی۔ “تیرے باپ کو خبر ہوئی ناں تو تیرے ساتھ ساتھ میری بھی ٹانگیں توڑ ڈالے گا” اس نے صغیر کا کہہ کے دھمکایا مگر بچوں کی ضد کے آگے ہار مان گئی اور جلدی واپس آنے کی تاکید کرتے ہوئے اجازت دے دی۔
ابھی کل تک تو انعم پہ کوئی پابندی نہ تھی وہ جب جی چاہے جتنی دیر چاہے کہیں بھی اڑتی پھرتی تھی، بارہ تیرہ برس عمر ہوتی ہی کیا ہے پھر پتہ نہیں اچانک اماں کو کیا ہوا یہ بڑا سا دوپٹہ اوڑھا کے گھر بٹھا لیا کہیں آنا جانا، کھیلنا کودنا سب ختم ہو گیا۔ لیکن آج علی اپنی منی کو پارک لے ہی آیا۔ کتنا اچھا لگ رہا تھا جھولے جھولنا۔ علی سے ضد کر کے دو دو قلفیاں بھی کھائیں۔ کتنا اچھا بھائی ہے وہ سچ مچ بہت خوش تھی۔
گھر واپسی پہ اسے پیاس لگ رہی تھی ایک چھپر ہوٹل کے سامنے پانی پینے رک گئے، رش زیادہ ہونے کی وجہ سے علی نے اسے اندر ساتھ لے جانا مناسب نہ سمجھا۔ اسے وہیں کھڑا کر کے پانی لینے اندر چلا گیا۔ پانی لے کے لوٹا تو انعم غائب تھی، پانی کا گلاس اس کے ہاتھ سے چھوٹ گیا وہ پاگلوں کی طرح انعم کو ڈھونڈنے لگا مگر اسے نہ ملنا تھا سو نہ ملی۔
روتے روتے گھر پہنچا باپ کو پتہ چلا تو اس نے علی کو ہی پیٹ ڈالا۔ “پولیس کو خبر کرو” انعم کی ماں صدمے سے بے حال تھی۔ “ہوش کر” وہ گرجا “اپنی عزت اپنے ہاتھوں گنوا آوں؟ یہیں کہیں ہو گی مل جائے گی میں دیکھتا ہوں”۔ وہ خاموشی سے اس کی تلاش میں نکل گیا۔ “اماں منی کہاں چلی گئی؟” علی روئے جا رہا تھا۔ نجمہ کا رنگ ہلدی ہو رہا تھا دل میں سو وسوسے اٹھ رہے تھے اس نے علی کو اپنے ساتھ چمٹا لیا۔
رات کے سائے گہرے ہوگئے صغیر اب تک گھر نہیں آیا تھا اور جب آیا تو آدھی رات ہو چکی تھی۔ اس کے ساتھ انعم بھی تھی۔ بکھرے ہوئے بال، پھٹا ہوا لباس اور جسم پہ جابجا گہرے نشان۔ اس کی یہ حالت دیکھ کے نجمہ حواس باختہ ہو کر چلانے لگی صغیر نے فورا اس کے منہ پہ ہاتھ رکھ دیا “کسی نے سن لیا تو کیا عزت رہ جائے گی خاموش رہو”۔
نجمہ نے انعم کو اپنے ساتھ لپٹا لیا اور بے آواز رونے لگی۔ کاش وہ اسے نہ جانے دیتی، کاش ان ظالموں کو اس معصوم پہ رحم آ گیا ہوتا، اس کا دل مسلا جا رہا تھا رات کب ڈھلی اسے پتہ بھی نہ چلا۔
علی جو روتے روتے سو گیا تھا صبح اٹھا اور انعم کو دیکھ کے سرشار ہو گیا۔ “منی تو آ گئی ، تو کہاں چلی گئی تھی؟ پتہ ہے میں تیرے لئے کتنا رویا اور ابا نے مجھے اتنا مارا” وہ ایک سانس میں بولتا چلا گیا۔ انعم بت بنی بیٹھی رہی وہ حیران ہوا, “اماں منی بولتی کیوں نہیں؟” نجمہ کا دل جیسے پھٹ ہی گیا ہو اس نے انعم کو مضبوطی سے بازوؤں میں سمیٹ لیا۔
اگلے کئی دن انعم گم صم رہی ایک طرف نظر جمائے بیٹھی رہتی اماں سے بھی بات نہ کرتی آہستہ آہستہ اس کے بدن کے گھاؤ بھر گئے مگر روح تار تار تھی۔ پھر وہ بیمار رہنے لگی، ہر وقت سر چکراتا، سینے کی جلن اور کھایا پیا سب الٹ دیتی۔ معائنہ کرنے پہ پتہ چلا کہ وہ حاملہ ہے، نجمہ پہ تو جیسے قیامت ٹوٹ پڑی۔ صغیر نے سنا تو ساکت ہو گیا اور فرش پہ نظر جمائے ایسے سر ہلانے لگا جیسے کوئی فیصلہ کر لیا ہو۔
وہ رات انعم کی زندگی کی آخری رات تھی صغیر نے اس کا گلا گھونٹ کے اسے مار ڈالا تھا۔ نجمہ کی منت سماجت اور واسطے کسی کام نہ آ سکے صغیر اپنے ارادے کا پکا نکلا۔ “کسی کو پتہ چل گیا تو اچھا نہیں ہو گا” اس نے کہا تھا “آخر میری عزت کا سوال ہے”۔