اکتوبر کا آخری عشرہ آن پہنچا، گلابی اکتوبر!
گرمی کی شدت کم ہو چکی، جاڑا کی آمد آمد ہے، رت بدل رہی ہے اور برس 2019 کی شام ہونے کو ہے!
زندگی بھی یونہی گزر جاتی ہے اور شام اتنے دبے پاؤں آتی ہے کہ معلوم ہی نہیں ہو پاتا کہ کب اور کیسے سفر تمام ہو نے کو ہے۔
اس سفر میں، زندگی کے الجھاؤ میں بہت سی ان چاہی باتیں بھی شریک سفر ٹھہرتی ہے۔ مقدر سے مفر نہیں لیکن زندگی جو امانت ہے، اس کا حق ایسے ہی ادا کرنا ہے کہ ہر ان ہونی سے دوبدو ہوا جائے۔ ایسی ہی ایک صورت حال کینسر یا سرطان سے مقابلہ کرنے کی ہے۔
اکتوبر کو دنیا بھر میں چھاتی کے کینسر کے بارے میں معلومات پھیلانے کا مہینہ سمجھا جاتا ہے اور گلابی ربن کی علامت بریسٹ کینسر کی آگہی کے لئے استعمال کی جاتی ہے۔
چھاتی کے سرطان کی شرح عورتوں میں پائے جانے والے تمام سرطانوں میں سب سے بلند ہے اور اس کا تناسب پچیس فیصد تک پایا گیا ہے۔ یہاں ایک اور بات سمجھ لیجیے کہ چھاتی کا سرطان مردوں میں بھی پایا جا سکتا ہے اگر چہ اس کی شرح تناسب عورتوں کے مقابلے میں بہت کم ہے۔
سرطان آخر ہے کیا؟
سادہ زبان میں اگر جسم کا کوئی بھی حصہ اپنی بڑھوتری میں کنٹرول میں نہ رہے اور وہاں کے سیلز اپنی مرضی سے ایک خاص حد سے آگے نشوونما شروع کر دیں تو وہ آزاد باغی سیلز سرطان کا روپ دھار کے پورے جسم کو تباہ کرنے نکل کھڑے ہوتے ہیں۔
عورتوں کی چھاتی ایک ایسا عضو ہے جو ساری عمر بہت سی تبدیلیوں کا شکار رہتا ہے۔ بچپن سے جوانی اور چھاتی کا بڑھاؤ، حمل، بچوں کو دودھ پلانا، درمیانی عمر کی ہارمونل تبدیلیاں، ایک تغیر ہے جو اس عضو میں اتھل پتھل کیے رکھتا ہے۔ پھر کسی بھی مقام پہ سیلز اپنا کنٹرول کھو بیٹھتے ہیں اور عورت سرطان کا شکار بن جاتی ہے
چھاتی کا سرطان اگر ابتدائی مرحلوں میں تشخیص ہو جائے تو قابل علاج ٹھہرتا ہے لیکن اگر تیسری یا چوتھی سٹیج تک پہنچ جائے تو موت دستک دینے لگتی ہے۔
ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق پاکستان میں ہر سال سترہ ہزار عورتیں اس کینسر کا شکار ہوتی ہیں لیکن کچھ NGO کے مطابق یہ شرح چالیس ہزار تک ہے۔ ان میں سے بے تحاشا عورتیں بروقت تشخیص نہ ہونے پہ موت کو گلے لگا لیتی ہیں۔ اکیسویں صدی کے معاشرے میں آخر ایسا کیوں ؟
ہمارے معاشرے میں اس بیماری کو ابتدائی مرحلوں پہ تشخیص کرنے میں سب سے بڑی رکاوٹ وہ سماجی گھٹن ہے جس کا شکار عورت بچپن سے ٹھہرتی ہے۔ ہمارا معاشرے مجموعی طور پر ممنوعہ مزاج رکھتا ہے لیکن عورت کے بارے میں تو یہ امتناعات پاگل پن کو چھوتے ہیں۔ عورت کو شرم و حیا کی پتلی بنا کے ایک ایسے پیڈسٹل پہ کھڑا کر دیا جاتا ہے جہاں جذبات ، احساسات اور خواہشات کی کہانی تو ناممکنات میں سے ہے، اس کی بیماری اور جسمانی تکالیف بھی کسی زمرے میں نہیں آتیں۔
چھاتی کو ایک ایسا عضو سمجھا جاتاہے جس کا ذکر انتہائی مخرب اخلاق سمجھا جاتاہے۔ بچی جونہی جوانی کی حد پہ پہنچتی ہے اور جسم میں تبدیلیوں کا آغاز ہوتا ہے، گھر میں موجود سب بڑی بوڑھیوں کی طرف سدے ایک تہذیب نسواں کا درس شروع ہو جاتا ہے۔ بچی کو اس کے اپنے ہی جسم سے شرم دلوائی جاتی ہے، ڈھیلے کپڑے پہنوائے جاتے ہیں، ایک بڑا سا دوپٹہ اوڑھنے کی ہدایت کی جاتی ہے جو اگر کبھی چھاتی سے سرک جائے تو بے محابا سرزنش کی جاتی ہے۔ باپ بھائی ہر وقت حیا کا درس الاپتے ہیں غرضکہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بچی کی چھاتی میں نارمل تبدیلیوں کے ساتھ ہر آنکھ کا زاویہ ایب نارمل ہو چکا ہے۔
جسم خالق کائنات کی تخلیق، چھاتی مخلوق انسانی کی غذا کا منبع، ماہواری نسل انسانی کو آگے بڑھانے کا ایک طریقہ! پھر سوال یہ ہے کہ ان اعضا کو عورت کے لئے کسی جرم جیسی شرم کا باعث کیوں سمجھا گیا؟ ان اعضا کو مرد کے جنسی جذبات ابھارنے کا مرکز سمجھنے پہ اصرار کیوں؟
وہ عضو جو بچے کی خوراک کےلیے مالک کائنات نے تخلیق کیا ہے، اسے دیکھ کے اگر مرد کی آنکھ کج روی کا شکار اور دماغی رو بہکتی ہے تو اس کی ذمہ داری عورت پہ کیوں؟
اگر مرد جذبات ، احساسات اور خواہش میں اتنا ہی طور پہ کمزور اور بے لگام ہے کہ نہ آنکھ پہ قابو ہے اور نہ نفس پہ، تو اس کی ذمہ داری اس کو خود اٹھانا ہے۔ آنکھ جو بہکتی ہے اور ڈھکے ہوئے جسموں کو بھی ٹٹولتی ہے اس پہ پہرا بٹھانے کی ذمہ داری آنکھ والے کی ہے ، سامنے والے کی نہیں۔
نتیجہ کیا نکلتا ہے ؟
وہ عضو جو عورت نے خود نہیں بنایا ، پروردگار کی عطا ہے اور جانور تک کو ایک مقصد کے تحت عطا کیا گیا ہے۔ عورت کی اپنی شرم، جھجک اور نفرت کا شکار ہو جاتا ہے۔ اپنا ہی عضو جسم ایک نو گو ایریا ٹھہرتا ہے۔ اب اس عضو میں بھلے کچھ بھی تکلیف ٹھہرے، عورت کی بچپن سے کی جانے والی تربیت اس کا ذکر کرنے میں آڑے آتی ہے۔ کبھی یہ سوچ کہ ابا کیا کہیں گے اور کبھی یہ کہ سسر کو پتہ نہ چلے کہ چھاتی میں تکلیف ہے اور پھر جب خاندان میں خبر پھیلے گی تو کیا بے شرمی کی بات ہے کہ چھاتی کا ذکر ہو گا۔
ہمارا ایسی بہت سی خواتین سے پالا پڑا جنہیں اپنی چھاتی میں تکلیف کا احساس ہو چکا تھا لیکن اسی شرم و حیا کے مصنوعی ماڈل کے تحت وہ شوہر تک کو بتانے سے گھبراتی تھیں۔ طبی مدد کے لئے تب پہنچیں جب شوہر نے ازخود جان لیا کہ کچھ غلط ہے اور تب تک بہت دیر ہو چکی تھی۔
ایک اور ردعمل جو عورت کو خوفزدہ کرتے ہوئے اسے مجبور بنا دیتا ہے کہ وہ اپنی تکلیف کا اظہار سرعام نہ کرے، جب اس کی بیماری یا تکلیف کا سرا، اس کے کردہ ناکردہ گناہوں سے جوڑا جائے،
“ثریا نے ضرور کوئی گناہ کیا ہو گا جبھی اللہ نے یہ آزمائش ڈالی ہے”
“اجی غرور بہت تھا اپنے آپ پہ، دیکھا اللہ نے کیسا پٹخا”
“یہیں سزا مل گئی اس کو تو، روز قیامت تک کا تو انتظار ہی نہیں کرنا پڑا”
یہ زبان کے تیر ہیں جو دوسرے کے ان دیکھے گناہوں پہ یقین کی بنا پہ اچھالے جاتے ہیں جو بیمار بدقسمت کو زخمی تو کرتے ہی ہیں بہت سوں کو اپنی بیماری چھپانے اور خاموشی سے موت کو گلے لگانے پہ مجبور کر دیتے ہیں۔
ہمارے معاشرے کی سب سے بڑی مشکل یہ ہے کہ لوگوں کو اپنی حد تعین کرنا نہیں آتا۔ کس کی کیا باؤنڈری ہے؟ کہاں سے شروع ہوتی ہے اور کہاں ختم، نہ ہی کوئی جانتا ہے اور نہ کوئی سیکھنا چاہتا ہے۔ ہر کوئی ایک چوپال میں بیٹھا ہے اور ہر کسی کے بارے میں بلا تکلف رائے کا اظہار ، ذاتی معاملات میں تجسس اور پھر اپنی ٹانگ اڑانا اپنا فرض اولین سمجھتا ہے۔ عورت کی بیماری اور اس بارے میں مفت مشورے بھی ہر کسی کا پسندیدہ مشغلہ ہے۔
ہم خواتین کو اس مہینے کی مناسبت سمجھانا چاہتے ہیں کہ چھاتی کا معائنہ اپنے ہاتھوں سے باقاعدہ کیا کریں۔ اگر کبھی بھی کوئی گلٹی محسوس ہو، چھاتی کی جلد لال پڑ جائے، نپل سے پانی نکلتا محسوس ہو تو فوراً ڈاکٹر کو دکھائیے۔ چالیس سال کے بعد اپنی چھاتی کا میموگرام سالانہ کروائیے۔ ہم اپنے ملنے والوں میں دو ایسے لوگوں کو جانتے ہیں جنہوں نے ہمارے کہنے پہ میموگرام کروایا اور کینسر کی پہلی سٹیج پکڑی گئی۔
وہ خواتین جن کے خاندان میں پہلے سے کسی کو چھاتی کا کینسر ہے انہیں زیادہ محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ کچھ خاندانوں میں جینیاتی طور پہ چھاتی کے کینسر والی جینز BRACA پائی جاتی ہیں۔ ایسے خاندان کی ہر عورت کو اپنا جینیاتی تجزیہ کروانا چاہیے۔ ہمارے قریبی عزیزوں میں ایک ایسا خاندان موجود ہے جہاں ماں ، خالہ اور دو بیٹیوں کو اس موذی مرض نے آن دبوچا ہے۔
معاشرے کے تمام مردوں سے ہماری درخواست ہے کہ اپنے گھر کی عورت کو آگہی دیجیے، عزت و اعتماد دیجیے اور کینسر کے بچاؤ کے طریقوں کی تعلیم دیجیے۔ چاہے وہ آپ کی ماں ہو، آپ کے بچوں کی ماں ہو یا آپ کی آغوش کا پھول۔
آئیے مل کے اس موذی مرض کے خلاف جنگ کریں!