خدمت خلق کی دیوار چین

ڈاکٹر رتھ فاو / منیرفراز



     اس کی آنکھیں نیلی تھیں اور ان نیلی آنکھوں نے
 سیب اور چیری کے باغات کے علاوہ پندرہ برس کی عمر میں دو خون آشام ہجرتیں دیکھی تھیں ۔ پہلی، جب ہٹلر نے پولینڈ پر حملہ کیا اور دوسری جنگ عظیم کا آغاز ہوا، اسے اپنے والدین کے ہمراہ اپنا شہر چھوڑ کر محفوظ مقام پر منتقل ہونا پڑا ۔ اور دوسری ہجرت، جب یہ جنگ ختم ہوئی تو اسے اپنے والدین ہی کے ہمراہ مشرقی جرمنی سے مغربی جرمنی آنا پڑا ۔ تیسری ہجرت اس نے خود کی جب وہ ڈاکٹر بن چکی تھی اور اس کی عمر اکتیس برس تھی۔
     پاولو کوئلہو کا شہرہ آفاق ناول " الکیمسٹ " کس کو یاد ہے؟ وہی ، سانتیاگو کا ایک چرواہا جو ایک خواب کئی روز سے مسلسل دیکھتا ہے جس کے مطابق اہرام مصر کے قریب لق و دق صحرا میں زیر زمین ایک بڑا خزانہ دفن ہے ۔ چرواہا اس خزانے کو  تلاش کرنے کا فیصلہ کرتا یے اور سانتیاگو ، یعنی دنیا کے آخری کونے کے ایک شہر کے ایک شکستہ کلیسا سے ستاروں بھری رات میں اس سفر کا آغاز کرتا ہے جہاں اس رات اس نے یہ خواب پھر دیکھا تھا ۔ وہ اس سفر میں کن کن مشکلات سے گزرا، راستے میں کتنی جنگوں اور قبائلی جھگڑوں کا سامنا کیا ، عرب کے کیمیا گروں ، صحراوں ، صحراؤں کی ہواوں اور سوداگروں سے کیا کچھ سیکھا ، اسے پاولو کوئلہو کے جادوئی قلم نے یادگار بنا دیا ہے۔ ایک طویل سفر کے بعد جب چرواہا اہرام مصر کے صحراؤں میں پہنچتا ہے تو اسے ایک قبائلی سردار سے تلوار بازی کے مقابلہ کے دوران ایک مکالمہ سے پتہ چلتا یے جب وہ سردار، چرواہے کے خواب اور اس کے حصول کے لئے اتنے طویل اور کٹھن سفر پر قہقہ لگاتے ہوئے اسے کہتا ہے کہ سانتیاگو کے ایک شکستہ کلیسا کے عین وسط میں ایک بڑا خزانہ دفن یے اور میں یہ خواب کئی روز سے مسلسل دیکھ رہا ہوں لیکن میں تمہاری طرح بیوقوف نہیں کہ مسلسل نظر آنے والے محض ایک خواب کی بنیاد پر سانتیاگو کا سفر کروں۔ 
   بس ، چرواہا واپس اسی کلیسا کو لوٹتا ہے جہاں سے اس نے سفر کا آغاز کیا تھا۔ سردار نے اسے بتا دیا تھا ، خزانہ یہیں دفن تھا ۔
   نیلی آنکھوں اور ان آنکھوں سے پندرہ برس کی عمر میں دو ہجرتیں دیکھنے والی اس چرواہی کا نام رتھ فاو تھا ، رتھ کیتھرین مارتھا فاو۔ اسے بھی حکم ہوا تھا ، یا شاید خواب آیا ہو ، شاید اس کے دل میں خیال ابھرا ہو، تمہیں اپنا آبائی وطن جرمنی چھوڑنا ہوگا ، تمہیں پاکستان جانا ہے اور وہاں سے بارڈر پار افغانستان کے دور دراز اور ایک انتہائی پسماندہ گاوں پہنچنا ہے، وہاں اس لڑکی کو تلاش کرنا ہے جس کی کوڑھ کی بیماری نے اس کی ناک گلا دی ہے اس کے چہرے اور جسم کے زخموں میں کیڑے پڑ گئے ہیں اور اس کے جسم کا گوشت پیپ کے آمیزے سے جھڑ جھڑ کر چوہوں کی خوراک بننے کے لئے اس کے آس پاس گرتا رہتا یے، اس کی آنکھیں اس کے رخساروں تک لٹک گئی ہیں ، تعفن کی وجہ سے چھ میٹر ریڈیئس میں کوئی اس کے قریب بھی نہیں جاتا اور جس کے ماں باپ نے اسے مردہ قرار دیکر ایک بغیر چھت اور شکستہ دیوارں کے کمرے میں پھینک دیا ہے۔ اسے شاید حکم ہوا یا شاید خواب آیا کہ اس کے جسم کے کیڑے اور پیپ تم نے اپنے ہاتھوں سے صاف کرنے ہیں اسے دوا دینی ہے اور اسے اٹھا کر کوڑھ کے مرکز تک لانا ہے۔
   وہ خدمت خلق کے اسی خزانے کی تلاش میں جرمنی سے نکل کھڑی ہوئی تھی۔ شاید کسی شکستہ کلیسا سے اس نے بھی سفر کا آغاز کیا ہو۔ یہ اس کی تیسری ہجرت تھی اس نے  پاکستان کے شہر کراچی میں پڑاو کیا اور اپنے مشن پر نکل کھڑی ہوئی۔ راستے میں کتنی ہی معاشی اور سماجی جنگیں لڑیں، قبائلیوں کے وحشیانہ رویے دیکھے اپنوں سے دوری کے عذاب سہے۔ پاک افغان جنگ کے خاتمے کے بعد اسے اطلاع ملی کہ سرحدی علاقوں کے قریب کوڑھ کے سینکڑوں مریض آبسے ہیں۔ حکومت پاکستان سے اجازت لے کر وہ ان کی تلاش میں افغانستان کے ایک پسماندہ گاوں کی ایک تاریک کوٹھڑی میں پڑی کوڑھ کی ایسی مریضہ ، کہ جسے اس کے ماں باپ نے مردہ قرار دیکر شکستہ دیواروں کےجانوروں کے باڑہ نما کمرے میں پھینک دیا تھا ، تک پہنچی اور اسے کوڑھ کے مرکز میں اٹھا لائی۔اس کے زخموں کی پیپ اور رستا لہو صاف کیا اس کی آنکھیں اس کے چہرے کے سانچے میں اپنے مقام پر بٹھائیں ۔ 
   رتھ فاو کا سفر کوئی خوابناک یا افسانوی نہیں تھا وہ جرمن کی ایک عام شہری تھی اسکول پڑھتی تھی ، بہن بھائیوں سے کھیلتی تھی اور عام لڑکیوں کی طرح گھر کے کام کاج کرتی تھی۔ بس اس نے ڈاکٹر کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد پیرس میں ایک فلاحی تنظیم کی رکنیت اختیار کر لی تھی اور اس تنظیم نے اس کے جذبے کو دیکھتے ہوئے اسے بھارت بھیجنے کا انتظام کیا تھا ۔ رتھ فاو کو اس سفر میں  سفری دستاویز کے لئے کراچی رکنا پڑ گیا تھا جہاں اسے کوڑھ کے مریضوں کے لئے تیار کی گئی ایک الگ بستی میں جانے کا اتفاق ہوا اس نے کٹے پھٹے جسموں والی مخلوق کی جہنم نما یہ بستی دیکھی اور کوڑھ کے ان مریضوں کے ساتھ ہی زندگی گزارنے کا فیصلہ کرلیا جنہیں کوئی اپنا بھی اپنے ساتھ رکھنے کو تیار نہیں تھا ۔ کراچی کے میکلوڈ روڈ پر پرانی چادروں اور گتے کے خالی ڈبوں سے تعمیر ایک کلینک اسے دیا گیا تھا جہاں ایسے مریض لائے جاتے جنہیں دیکھتے ہی روح کانپ اٹھتی ۔جرمنی میں وہ ایک کلیسا کی نن رہی تھی مذہبی رجحان اس کی طبیعت میں شامل تھا اس نے یقینا دعائیہ لائنیں پڑھ کر ہی اس کام کا آغاز کیا ہو گا جیسے میں اور  آپ کوئی کام کرنے سے پہلے بسم اللہ پڑھتے ہیں ۔ جب اس کی مسیحائی کے قصے جرمن تک پہنچے تو وہاں کی ایک سماجی فلاحی تنظیم نے اسے خط لکھا ، یہ کیسے ممکن ہے کہ جرمن کی ایک ڈاکٹر ملک سے باہر فلاحی کاموں میں مصروف ہے اور ہماری تنظیم کو اس کی خبر تک نہیں؟ ڈاکٹر فاو نے جوابی خط لکھا، یہ کیسے ممکن ہوا کہ جرمن کی ایک ڈاکٹر کراچی میں ایک بے یار و مددگار کلینک میں کام کر رہی ہے اور اسے اس فلاحی تنظیم کا علم ہی نہیں ؟۔اس نے پرانی چادروں اور خالی ڈبوں والے اس کلینک کی چند تصاویر اس تنظیم کو بھیجیں جس کے جواب میں وہاں سے اسے معاشی اور میڈیکل اسٹاف کی کمک بھیجی گئی یوں کراچی سے کوڑھ کے مریضوں کے کلینک کا یہ سلسلہ ایک سے شروع ہو کر پاکستان کے مختلف شہروں کے ایک سو ستر مراکز تک جا پہنچا۔ ان مراکز نے پاکستان بھر میں خدمت کی ایسی مثال قائم کی کہ 1996میں عالمی ادارہ صحت نے پاکستان کو کوڑھ کے مرض پر قابو پانے والا ایشیا کا پہلا ملک قرار دے دیا۔ رتھ فاو نے اس مرض سے متعلق پانچ کتابیں لکھیں وہ لوگوں کو بتاتی رہی کہ یہ لا علاج مرض نہیں ہے ۔ کسی کو علم نہیں کہ دن رات کی مشقت کے ساتھ ساتھ مختلف اداروں اور بین الاقوامی تنظیموں سے ملنے والے کئی گولڈ میڈل ڈاکٹر رتھ فاو کے جذبوں کی بھٹی میں پگھل کر کوڑھ کے مریضوں کی دواوں میں ڈھلتے رہے۔



   پائلو کوئلہو کے چرواہے نے اپنے خواب کی تکمیل کے لئے سانتیاگو سے اہرام مصر تک کا سفر کیا تھا ۔یہ اس کا خواب تھا اور اس نے پا لیا ۔ رتھ فاو نے جرمنی سے پاکستان کا سفر کیا یہ اس کا خواب تھا لیکن دونوں میں فرق یہ تھا کہ چرواہا اہرام مصر سے واپس سانتیاگو لوٹ آیا تھا لیکن ڈاکٹر رتھ فاو واپس جرمنی نہیں لوٹی وہ اپنے خواب نگر میں کوڑھ کے مریضوں سے محبت اور ان کی خدمت کرتے کرتے بوڑھی ہو گئی پانچ روز انتہائی نگہداشت وارڈ میں رہی اسی خواب نگر میں وفات پائی اور وہیں دفن ہوئی ۔ ہم نے ایک روز انیس توپوں کی سلامی دیکر خدمت خلق کی اس دیوار چین کو سرخ چادر میں لپیٹ کر کراچی کے ایک قبرستان میں دفن کر دیا کہ یہی اس کی وصیت تھی۔اس نے شادی نہیں کی تھی شاید وہ پاکستان میں رہ کر سرخ جوڑے کی علامت سے واقف تھی۔شاید یہ سرخ چادر سرخ خون کی علامت تھی جسے وہ ساری عمر مریضوں کے جسموں سے بہتا دیکھتی رہی ۔ میں نہیں سمجھتا کہ دنیا کا کوئی مفکر خدمت خلق کی اس منزل کو کوئی نام دے سکے ۔ 
   الکیمسٹ کا چرواہا ایک داستان کا فرضی کردار تھا اور رتھ فاؤ حقیقی زندگی کا جیتا جاگتا افسانوی کردار ۔ وہ پچپن سال تک رنگ ونسل ، مذہب و ملت سے بے نیاز ہو کر کوڑھ کے مریضوں کے متعفن اور پیپ بہتے زخموں کو اپنے ہاتھوں سے صاف کرتی رہی ، زخم میں پڑے کیڑوں کو زخم سے الگ کرتی، زخم کا خون خشک کرتی ، مریض کے گلے سڑے ہونٹ اور ناک کی مرہم پٹی کرتی اور رخساروں تک لٹکتی آنکھوں کو چہرے کے سانچے میں درست جگہ پر بٹھاتی رہی ۔ ویسے اس کی اپنی آنکھیں نیلی تھیں اور ان نیلی آنکھوں نے سیب اور چیری کے باغات کے علاوہ پندرہ برس کی عمر میں دو خون آشام ہجرتیں دیکھی تھیں۔