پاکستان میں ماورائے عدالت قتل کے موضوع پر فن پاروں کی ایک نمائش کو ’سادہ کپڑوں میں ملبوس‘ کچھ افراد نے یہ کہہ کر بند کروانے کی کوشش کی ہے کہ ’انھیں یہ کام پسند نہیں آیا۔‘
اتوار کو ’کلنگ فیلڈز آف کراچی‘ کے نام سے ان فن پاروں کی نمائش کراچی کے فریئر ہال میں ’کراچی بینالے‘ کے تحت منعقد ہونے والی تقریب میں ہوئی تھی۔
یہاں عدیلہ سیلمان کی جانب سے نقیب اللہ محسود کے والد پر منبی ویڈیو انسٹالیشن اور 444 قبروں کے پلر بنائے گئے ہیں جن پر لوہے کے مرجھائے ہوئے پھول رکھے گئے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے
اس ’کلنگ فیلڈ‘ یا قبروں کے ذریعے آرٹسٹ عدیلہ کے مطابق انھوں نےکراچی میں 444 افراد کے مبینہ مقابلوں میں ہلاک ہونے کے دعوے کو دکھایا ہے۔
ہال کے اندر ایک فلم کے علاوہ باہر علامتی قبریں موجود ہیں جن میں ایک پر محمد علی جناح کی تصویر بھی موجود ہے۔ عدیلہ کے مطابق جس فارم میں نقیب کو ہلاک کیا گیا اس میں یہ تصویر موجود تھی اور انھوں نے اس کی عکاسی کی ہے۔
جب بی بی سی نے ڈی آئی جی پولیس شرجیل کھرل سے رابطہ کیا تو انھوں نے اس واقعے کے حوالے سے لاعلمی کا اظہار کیا۔ دوسری طرف آرٹسٹ عدیلہ کا کہنا ہے کہ فی الحال انھوں نے اس کے ردعمل میں پولیس سے رابطہ نہیں کیا۔
عدیلہ سلیمان کے مطابق ویڈیو انسٹالیشن میں انھوں نے ایسے جذبات کو اجاگر کیا ہے جس میں دکھایا گیا ہے کہ نقیب اللہ محسود کے والد سمندر کی طرف دیکھ رہے ہیں اور خاموش ہیں۔ ’میں نے وہ فارم ہاؤس دکھایا ہے جس میں نقیب اللہ کو ہلاک کیا گیا تھا اور دوسری جانب شہر کی عام زندگی دکھائی ہے۔‘
آرٹسٹ عدیلہ کہتی ہیں کہ اس فن پارے سے متعلق ان کی ساری تحقیق صحافیوں کر رپورٹس پر مبنی ہے۔
’نمائش بند کریں‘
عدیلہ سلیمان نے بی بی سی کو بتایا کہ اتوار کی صبح دس بجے جیسے ہی نمائش کا آغاز ہوا تو سادہ لباس میں ملبوس کچھ لوگ آئے اور کہنے لگے کہ ’ہم انٹیلیجنس ادارے سے ہیں۔‘
انھوں نے بتایا کہ ’ان لوگوں نے ادارے کا نام نہیں بتایا اور کہا کہ یہ نمائش بند کریں۔‘
جب عدیلہ نے ان سے پوچھا کہ نمائش کو ’کیوں بند کریں؟‘ تو جواب میں ’انھوں نے فون پر ایک نمبر ملایا اور کہا کہ ہمارے صاحب سے بات کریں۔ لیکن ان ’صاحب‘ نے بات نہیں کی، جس کے بعد ہال انتظامیہ پر دباؤ ڈال کر ہال بند کروا دیا گیا۔‘
وہ کہتی ہیں کہ ’اب باہر موجود علامتی قبروں کے فن پاروں کو بھی ہٹانے کے لیے کہا جا رہا ہے۔‘
تقریب کے ایڈمنسٹریٹر محمد سلیم کا کہنا ہے کہ وہ تاخیر سے آئے اور ان کے ماتحت نے انھیں بتایا کہ ’کچھ لوگ آئے تھے۔ انھیں یہ کام پسند نہیں آیا تھا۔ انھوں نے بند کروا دیا جبکہ باقی نمائش جاری ہے۔‘
عدیلہ کے مطابق قبروں کے فن پاروں کو بند کرنے کا کہا گیا تھا۔ فی الحال ہال کے اندر اس کمرے کو بند کردیا گیا ہے جہاں فن پاروں کی نمائش ہو رہی تھی تاہم باہر کا حصہ اپنی اصل حالت میں موجود ہے۔
فن پاروں کی خالق نے بتایا کہ ان کا موضوع معاشرے میں موجود ’پرتشدد رجحان ہے۔ جب تک معاشرہ اس سے نجات حاصل نہیں کرے گا ہم آگے نہیں بڑھ سکتے۔‘
وہ کہتی ہیں کہ یہ آرٹ نقیب اللہ کی زندگی پر مبنی ہے اور اس میں ایسا کچھ نہیں تھا جو عام لوگوں کو نہ معلوم ہو۔
کراچی میں سب سے پہلے 2017 سے بینالے کے نام سے اس تقریب کا آغاز کیا گیا تھا۔ رواں سال یہ دوسرا بینالے ہے، جس میں منتظمین کے مطابق 16 ممالک کے آرٹسٹ اپنے فن پاروں کی نمائش کر رہے ہیں۔
کراچی زولاجیکل گارڈن اور فریئر ہال سمیت سات مقامات پر ان آرٹسٹوں کے فن پاروں کی نمائش کی جاری ہے۔
یاد رہے کہ جنوری 2018 میںنقیب اللہ محسود کو سابق ایس ایس پی راؤ انوار نے ایک پولیس مقابلے میں ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا تھا اور ان کا تعلق شدت پسند تنظیم سے ظاہر کیا تھا۔
لواحقین نے ان کے اس دعوے کو مسترد کرتے ہوئے یہ موقف اختیار کیا تھا کہ وہ ایک ماڈل اور عام نوجوان تھے۔ اس موقف نے فروغ حاصل کیا اور کراچی میں احتجاج کا سلسلہ شروع ہوا جس کے بعد پولیس کی اعلیٰ سطح کی کمیٹی نے تحقیقات میں راؤ انوار کے موقف کو مسترد کیا تھا اور ان کی گرفتاری کی سفارش کی تھی۔
پشتون تحفظ موومنٹ سمیت متعدد جماعتوں نے اس ہلاکت کے خلاف آواز اٹھائی تھی۔