ماں بچوں سے جھوٹ یا آدھا سچ نہیں بولتی


اقوامِ متحدہ کے چارٹر کا آرٹیکل انیس آزادیِ اظہار کی تعریف اور اس کے تحفظ کے بارے میں جو بھی کہتا ہے یا آئینِ پاکستان میں ’’ شرائط و ضوابط لاگو ہیں‘‘ کی بنیاد پر اس آزادی کے دائرے اور استعمال کے بارے میں جو کچھ بھی لکھا ہے ، اس پر کتنا عمل ہوتا ہے یا نہیں ہوتا۔ بھارت سمیت دیگر جمہوری ، نیم جمہوری یا سول و فوجی آمریتوں میں آزادیِ اظہار کے ساتھ کیا برتاؤ ہوا ، ہو رہا ہے یا ہوگا۔میں نہ تو اس جھنجھٹ میں پڑنا چاہتا ہوں نہ مجھ میں اس بابت  ضروری قابلیت ہے۔

میرے نزدیک آزادیِ اظہار اتنی ہی خالص ، فطری اور حقیقی ہے جتنی کسی بچے کی دنیا میں آمد۔کوئی بھی بچہ پیدا ہوتے ہی ایک چیخ کے ساتھ اپنے وجود کا اعلان کرتا ہے اور یہ چیخ آزادیِ اظہار کی پہلی بنیادی اینٹ ہے اور پھر اسی بنیاد پر زبان اور ذہن کی عمارت اٹھتی چلی جاتی ہے۔

یہ عمارت کتنی پائیدار بلند اور مضبوط ہو گی۔اس کا دارومدار اس بچے کے اردگرد کے ماحول ، پرورش اور مشاہدے کے معیار پر ہے۔پہلی قدغن اس بچے پر تب لگتی ہے جب وہ چلنا سیکھتا ہے، یہاں نہیں جانا ، بس وہاں تک جانا ہے، یہ خطرناک ہے، وہ اچھا ہے، یہ برا ہے، ایسے بیٹھنا ہے، ایسے چلنا ہے، ایسے لیٹنا ہے، ایسے کھاناہے۔یہ بدتمیزی ہے، وہ تمیز ہے۔ یہ لفظ برا ہے، وہ اچھا ہے، یہ گالی ہے، یہ گالی نہیں ہے۔وہ شخص اچھا ہے وہ برا ہے۔اس کے ساتھ بیٹھنا ہے، اس کے ساتھ نہیں بیٹھنا ، وہ ہمارے برابر کا ہے ، وہ ہم سے اعلیٰ ہے ، یہ ہم سے ادنیٰ ہے۔یہ سچ ہے ، یہ جھوٹ ہے۔

ان میں سے بہت سی پابندیوں اور مناہی و اجازت  کا نفاذ اس لیے ضروری ہوتا ہے کیونکہ بچہ ایک مہمان ہوتا ہے جسے نئی جگہ کے ماحول ، رواج ، اقدار اور بنیادی آفاقی اچھائیوں اور برائیوں سے متعارف کرانا ابتدائی تربیت کا لازمی جزو سمجھا جاتا ہے۔اس کے بعد بچہ اسکول و کالج و یونیورسٹی سے متعارف ہوتا ہے۔

جو بچے اتنے خوش قسمت نہیں ہوتے وہ پھر پریکٹیکل کالج آف انفارمل ایجوکیشن میں دھکیل دیے جاتے ہیں۔ مگر ہر جگہ ان سے توقع کی جاتی ہے کہ جو بڑے کہہ رہے ہیں اس پر من و عن عمل کرنا ہے ، سوال کا گلا گھونٹ دینا ہے، بیچ میں بات نہیں کاٹنی ، بات اچھی نہ لگے تو بحث نہیں کرنی صرف خاموشی اختیار کرنی ہے اور اچھا بچہ یا سعادت مند لڑکا اور لڑکی کہلوانا ہے تو پھر تابع فرمانی کو شعار بنانا ہے۔

عمر کا ایک مرحلہ ایسا آتا ہے جب اس بچے یا بچی کو اپنی مدد آپ ، اچھے برے کی تمیز اور فیصلہ سازی کے محدود  اختیار  کے استعمال کی غیر اعلانیہ اجازت خاندان ، سماج کی جانب سے اور کاغذی سند تعلیمی نظام کی طرف سے عطا کر دی جاتی ہے۔جسے ہم عرفِ عام میں ذہنی و جسمانی بلوغت کا ڈپلوما سمجھتے ہیں۔اور پھر اس بچے یا بچی سے توقع کی جاتی ہے کہ اب وہ جو بھی قدم اٹھائے باہوش و حواس اور اپنی ذمے داری پر اٹھائے۔

مگر وہ جو منیر نیازی کہہ گئے کہ ’’ اک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو۔میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا‘‘۔ جیسے ہی بچہ اور بچی اپنے افعال و عمال کی آزادی کی سند کے ساتھ بااعتماد طریقے سے پہلا قدم گھر سے نکالتے ہیں۔ان کے سامنے ایک نوری نت آ کے کھڑا ہو جاتا ہے جسے ہم عرفِ عام میں ریاست کہتے ہیں۔یہ نوری نت کہتا ہے کہ اب تم پر صرف میری چلے گی۔بھول جاؤ کہ باپ نے کیا بتایا یا استاد نے کیا سکھایا۔اب میں تمہیں بتاؤں گا کہ میری حدود میں رہنے کے آداب کیا ہوتے ہیں۔اس جگہ گر رہنا ہے تو جئے نوری نت کہنا ہے۔

وہ جو بیرسٹر اعتزاز احسن اکثر کہتے ہیں کہ ریاست ہو تو ماں کے جیسی۔بیرسٹر صاحب اس مصرعے میں وزن گڑبڑانے کی مجبوری میں غالباً سوتیلی لگانا بھول گئے۔میرے مشاہدے میں تو کوئی ریاست نہیں جو ماں کے جیسی ہو۔بلکہ ایسی ریاست سے ڈرنا چاہیے جو ماں ہونے کا دعویٰ کرے۔ماں سے زیادہ چاہے پھپا کٹنی کہلا ئے۔

واقعی ریاست ماں جیسی ہوتی تو ماں کو یہ یاد دلانے کی ضرورت تھوڑا ہوتی ہے کہ اماں اماں آپ یہ غلط کررہی ہیں۔ آرٹیکل فلاں فلاں کے تحت آپ مجھے باہر نکلنے سے نہیں روک سکتیں یا شق نمبر فلاں کے تحت ناشتہ نہیں دیا تو میں پلے کارڈ اٹھا لوں گا۔ماں تو اپنے بچوں کے حقوق اور فرائص کے بارے میں اتنی سمجھدار ہو تی ہے کہ اپنے سلوک میں ہی مجسم آئین ہوتی ہے۔

کبھی کسی ماں کو دیکھا ہے جس نے اپنے چھوٹے بیٹے کی بڑے بیٹے سے پھینٹی لگوا دی۔یا بات نہ ماننے پر باپ سے کہہ کر بچے کو چھت سے لٹکوا دیا یا ماموں سے کہہ کر منجھلے بچے کو تہہ خانے میں بند کروا دیا۔یا سارا ترکہ کسی ایک بچے کے حوالے کر دیا۔

ماں تو سب سے ماٹھے بچے کو سب سے زیادہ سینے سے لگاتی ہے ، دکھ اور محرومی کی تہہ تک پہنچتی ہے، بس میں جو  ہوتا ہے اس سے مداوا کرنے کی کوشش کرتی ہے ، ڈانٹتی ہے ، روٹھ جاتی ہے ، مان جاتی ہے گولی نہیں مارتی۔

ریاست کے اسی جوہری ڈائن پن سے بچنے کے لیے بہت سے ریاستوں کے بچوں نے لڑ جھگڑ کر اور قربانیاں دے کر انسان و عوام دوست آئین و قانون کی جھونپڑی تیار کی اور پھر اسے کسی اچکے ، چور یا ڈاکو سے بچانے کے لیے اس کی حفاظت کا ذمے بھی اٹھایا۔

کیونکہ تجربے نے  بتایا کہ حقوق کی کھیتی کو کسی ٹھیکے دار کی مستاجری یالکھے ہوئے کاغذ پر نہیں چھوڑا جا سکتا۔لوگوں کو حقوق کے کھیت میں ایک ایک پنیری اپنے ہاتھوں لگانی پڑتی ہے، سینچائی بھی خود کرنا پڑتی ہے اور فصل کی مارکیٹنگ بھی۔

بصورتِ دیگر بہت جلد وہ دن آ جاتا ہے جب کھیت تو قائم رہتا ہے اس میں فصل بھی اگتی ہے۔لیکن جو اصل مالک ہیں وہ مزارع اور جو مستاجر و ٹھیکیدار ہیں وہ مالکوں میں بدل جاتے ہیں اور انصاف کے ہاتھ پاؤں باندھنے کے لیے زمین کی ملکیتی دستاویزات میں رد و بدل بھی کروا دیتے ہیں۔

اس تناظر میں میرے لیے آزادیِ اظہار کو الگ سے دیکھنا مشکل ہے۔زندہ رہنے کا حق ، نقل و حرکت کا حق ، تعلیم و صحت کا حق ، روزگار کا حق ، جیون ساتھی کے انتخاب کا حق، چپ رہنے کا حق ، اپنے نظرئیے کے پرامن پرچار کا حق ایک گلدستے یا گچھے کی طرح ہے۔اسے ایک ایک کلی یا ڈنڈی کی شکل میں تادیر محفوظ نہیں رکھا جا سکتا۔

مجھے ریاست یا کسی بھی حکومت کے کسی بھی ہتھکنڈے یا اقدام پر کوئی اعتراض نہیں۔بس اتنا سا مطالبہ ہے کہ جو بھی اچھا برا کرنا ہے دھڑلے سے کرے اور اس قدم کی سینہ ٹھونک کے ذمے داری لے۔آئیں بائیں شائیں کمزوری کا زیور ہے۔صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں کا رویہ ریاست جیسے طاقتور ادارے کو زیب نہیں دیتا۔

کوئی ماں دیکھی ہے جو اولاد کو مسلسل جھوٹ یا آدھے سچ کی گھٹی پر رکھے ؟ایسے بچوں کی اٹھان کیسی ہو گی ؟ کیا یہ بھی بتانے کی ضرورت ہے؟

بشکریہ روزنامہ ایکسپریس