یہ کم دورانیے کے ویڈیوز شیئر کرنے والی چینی کمپنی ہے اور اگر آپ کی عمر 30 سال سے زیادہ ہے تو شاید آپ نے اِس کے بارے میں نہ سنا ہو۔
ہم نے جائزہ لیا ہے کہ ٹِک ٹاک کیسے فیس بک کے لیے سب سے بڑا خطرہ بن سکتا ہے۔
اِس ہفتے ہمیں ٹِک ٹاک کے بارے میں دو اہم باتیں معلوم ہوئیں۔ پہلی یہ کہ یہ حیران کن مقدار میں پیسے کما رہا ہے اور دوسری بات یہ کہ فیس بک کے سربراہ مارک زوکر برگ اِسے ایک بڑے حریف کے طور پر دیکھتے ہیں۔
خبر رساں ادارے رائٹرز کے اعداد و شمار کے مطابق ٹِک ٹاک کی مالک کمپنی بائٹ ڈانس نے اس سال کے پہلے چھ مہینوں میں سات سے ساڑھے آٹھ ارب ڈالر منافع کمایا ہے۔ کمپنی کو امید ہے کہ سال کے دوسرے حصے میں بھی وہ منافعے میں رہے گی۔
ایک ایسے وقت میں جب ‘وی ورک’ ‘اوبر’ اور ‘لفٹ’ جیسی کمپنیاں بھی منافع کمانے کے بارے میں غیریقینی کا شکار ہیں اور کہہ رہی ہیں کہ منافع ابھی دور کی بات ہے، ایک ایسی ٹیکنالوجی کمپنی کی یہ کارکردگی متاثر کن ہے جس میدان میں اترے ابھی چند سال ہوئے ہیں۔
مارک زوکر برگ بھی اس سے متفق نظر آتے ہیں۔ فیس بک کے ایک اجلاس کی افشاء ہونے والی ویڈیو میں زوکربرگ اپنی ٹیم سے کہہ رہے ہیں کہ ٹِک ٹاک کس تیزی سے ترقی کر رہی ہے۔
زوکر برگ کہتے ہیں ’چین کی بڑی ٹیکنالوجی کمپنی کی یہ پہلی کنزیومر انٹرنیٹ پراڈکٹ ہے جو دنیا بھر میں اچھی کارکردگی دکھا رہی ہے۔ یہ امریکہ میں بھی کامیاب ہونا شروع ہو گئی ہے، خاص طور پر نوجوانوں میں۔ یہ انڈیا میں بہت تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ میرے خیال میں اپنے حجم کے لحاظ سے انڈیا میں اِس نے انسٹاگرام کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ تو یہ ایک بہت دلچسپ معاملہ ہے۔‘
پھر انھوں نے بقول ان کے ‘دلچسپ معاملے’ کا مقابلہ کرنے کے لیے منصوبے پر بات کرتے ہوئے ٹِک ٹاک جیسا اپنا ایپ میکسیکو میں شروع کرنے کے بارے میں بتایا۔ میکسیکو میں ٹِک ٹاک ابھی تک زیادہ جگہ نہیں بنا پایا ہے۔
ٹِک ٹاک نوجوانوں میں کتنا مقبول ہے؟
موبائل ایپلیکیشنز کے ڈاؤن لوڈز کا حساب رکھنے والی تحقیقاتی کمپنی ‘ایپ اینی’ کی تحقیق بھی ٹِک ٹاک کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کی تصدیق کرتی ہے۔ کمپنی کے یورپ کے تحقیق کار پال بارنس کا کہنا ہے کہ اینڈروائڈ استعمال کرنے والے صارفین نے صرف اگست کے مہینے میں ٹِک ٹاک پر ایک عشاریہ ایک ارب گھنٹے صرف کیے۔ اِن میں چین کے صارفین شامل نہیں ہیں۔ گزشتہ سال کے مقابلے میں یہ 400 فیصد اضافہ ہے۔
پال بارنس کا کہنا ہے کہ سماجی رابطوں کی دوسری کمپنیوں کے لیے تشویش کا باعث یہ بات ہے کہ اگر آپ انسٹاگرام پر تصویر لگانے والے یا فیس بک پر کچھ پوسٹ کرنے والوں سے مقابلہ کریں تو ٹِک ٹاک کے صارفین بہت وفادار ہیں۔
‘ ٹِک ٹاک پر ایک ویڈیو لگانے کے لیے آپ کو کافی وقت درکار ہوتا ہے۔ تو جب ایک حریف ٹِک ٹاک کے صارفین کو اپنا ذاتی مواد نشر کرنے کے لیے اتنا وقت لگاتے اور اُن کا اتنا عزم دیکھے گا تو اسے حسد ہوگی۔’
لیکن اِس تیز رفتار ترقی کے ساتھ اِس پلیٹ فارم کے استعمال سے متعلق کچھ تشویش کا بھی اظہار کیا گیا ہے۔ اِس سال کے شروع میں بی بی سی کی ایک تحقیق میں یہ بات سامنے آئی کہ ٹِک ٹاک اپنے ایسے بالغ صارفین کے اکاونٹس کو بند کرنے میں ناکام رہا جنھوں نے بچوں کو جنسی پیغامات بھیجے۔
تاہم ٹِک ٹاک کا کہنا ہے کہ صارفین کے لیے محفوظ اور مثبت ماحول فراہم کرنا اس کی سب سے بڑی ترجیح ہے۔
دوسری جانب یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ چینی کمپنی ہونے کی وجہ سے ٹِک ٹاک ایسے موضوعات کو سینسر کرتا ہے جو چین کے لیے حساس ہیں۔ برطانوی اخبار گارڈین نے حال ہی میں افشاء ہونے والی کچھ انٹرنیٹ دستاویزات شائع کیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ مواد کی نگرانی کرنے والے اہلکاروں کو تیانمن سکوائر یا ہانگ کانگ سے متعلق مواد سینسر کرنے کی ہدایات دی جاتی ہیں جو چین کے لیے حساس موضوعات ہیں۔
لیکن یہ کہنا مشکل ہے کہ یورپ اور امریکہ میں ٹِک ٹاک کے لاکھوں نوجوان صارفین کو یہ معلوم ہے یا انھیں اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کہ ٹِک ٹاک ایک چینی کمپنی ہے۔