حب رسولﷺ کے جملہ حقوق محفوظ نہیں ہو سکتے


اسلام آباد میں مولانا فضل الرحمان کی سرکردگی میں اپوزیشن کے دھرنے کا دوسرا ہفتہ مکمل ہونے کو ہے لیکن سیاسی ماحول میں آسودگی کے آثار دکھائی نہیں دے رہے۔ گزشتہ روز کرتار پور راہداری میں وسیع المشربی ، دوستی، محبت اور سرحدیں کشادہ کرنے کا پیغام دینے کے بعد آج وزیر اعظم نے دارالحکومت میں جشن میلاد النبیﷺ کے حوالے سے  بین الاقوامی رحمت اللعالمین  کانفرنس سے خطاب میں ’مدینہ ریاست‘ کو سیاسی نعرہ بناتے ہوئے ایک بار پھر سیاسی حریفوں کے ساتھ حساب برابر کرنے کی کوشش کی۔
اس حوالے سے دو باتیں گوش گزار کرنا بے حد ضروری ہوگا۔ ایک تو رسول پاک حضرت محمد ﷺ جیسی بابرکت ہستی کے نام نامی سے موسوم کانفرنس میں سیاسی ایجنڈے کو موضوع گفتگو بنانا مناسب طریقہ نہیں ہوسکتا۔ وزیر اعظم کو یہ سمجھنا چاہئے کہ وہ اکیلے رسول پاک ﷺ سے محبت نہیں کرتے۔ اس ملک کے علاوہ پوری دنیا میں آباد مسلمان پیغمبر اسلام سے محبت و عقید ت کے لازوال رشتے میں جڑے ہوئے ہیں۔ انسان اور انسانیت سے محبت کرنے والا ہر شخص رسول پاکؐ کی انسان دوستی اور ہم نفسوں کے لئے باعث رحمت ہونے کی تصدیق کرتا ہے اور اس حوالے سے ان کا احترام خود پر واجب سمجھتا ہے۔ کسی ایک شخص کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ رسول پاکؐ سے اپنی محبت و عقیدت کا اظہار کرتے ہوئے اپنے طرز تکلم سے رسولؐ سے دوسروں کی محبت و عقیدت کے بارے میں شبہات پیدا کرے۔ پیغمبر اسلام سے محبت کے جملہ حقوق محفوظ کروانا ممکن نہیں ہے۔
وزیر اعظم کو یہ بھی سمجھنا چاہئے تھا کہ رحمت اللعالمین کانفرنس میں حکومت کے سربراہ کے طور پر شریک ہوتے ہوئے انہیں اس مزاج اور رویہ کا عشر عشیر کی ہی سہی لیکن اس کا مظاہرہ کرنا چاہئے تھا جو ساری زندگی رسول پاکؐ کا خاصہ رہا۔ نرم خوئی، شیریں بیانی، شفقت اور انکسار رسول پاکؐ کی انگنت خوبیوں میں سے چند تھیں۔ البتہ رحمت اللعالمین کی ذات مبارک کا ذکر کرتے ہوئے وزیر اعظم کی زبان اور چہرے پر خدا ترسی، انکساری، خوف اور رحم دلی کا تاثر موجود نہیں تھا۔ بلکہ سیاسی مخالفین کے لئے غصہ اور انتقام کا لہجہ مستحکم تھا۔ یہ رویہ نہ صرف اس موقع کی مناسبت سے مناسب نہیں تھا بلکہ یہ اس اعلیٰ اخلاقی معیار کا نمونہ بھی نہیں تھا، وزیر اعظم جس کا حوالہ دیتے نہیں تھکتے۔
عمران خان نے اس مبارک موقع کو بھی سیاسی مقصد کے لئے استعمال کرکے نہ صرف اپنی کم فہمی کا مظاہرہ کیا ہے بلکہ سیاسی عدم پختگی کے سبب اس تاثر کو قوی کرنے کا سبب بنے ہیں کہ ان کا واحد مقصد سیاسی اقتدار سے چمٹے رہنا ہے اور اس کے لئے وہ کسی بھی اصول کی قربانی دینے کے لئے تیار ہیں۔ اس طرح ان کے بارے میں ’دروغ گو ‘ اور سیاسی مفاد کے لئے قلابازی کھانے کی قیاس آرائیوں کو تقویت ملے گی۔ کسی حکومت کے سربراہ کے لئے یہ اچھی شہرت نہیں ہے۔
وزیر اعظم کی اس بات سے اختلاف ممکن نہیں کہ ان کے بقول ’ریاست مدینہ ‘ ہو یا فلاحی معاشرے کا کوئی دوسرا ماڈل یا کسی سماج کو انحطاط و زوال سے ترقی و کامیابی کے راستے پر گامزن کرنے کا سفر ہو، یہ کام ایک دن یا تھوڑی سی مدت میں مکمل نہیں ہوسکتا۔ کسی بھی منصوبہ پر عمل کرنے کے لئے بنیادی اصولوں کے تعین سے لے کر عملی جدوجہد اور اس دوران ضروری وسائل کی فراہمی کا کام کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ عمران خان مدینہ ریاست کو سیاسی نعرہ کے طور پر استعمال کرتے ہوئے دراصل عوام کی فلاح کے بنیادی تصور کو مذہبی جذبات میں لپیٹ کر پیش کرتے ہیں۔ اس طرح وہ بطور حکمران اپنی ذمہ داریوں کو نظر انداز کرنے کا سبب بن رہے ہیں۔
وہ بخوبی جانتے ہیں کہ کثیر آبادی اور محدود وسائل میں وہ آنے والے دس بیس تو کیا پچاس سو برس میں بھی پاکستان کو ایسی فلاحی ریاست بنانے کی صلاحیت نہیں رکھتے جس میں حکومت عوام کی بنیادی ضروریات کی ضامن بن جائے۔ اس مقصد کے لئے عوامی سطح پر شعور پیدا کرنے اور معاشی وسائل میں کئی گنا اضافہ کرنے کی ضرورت ہے۔ حکومت کی کسی پالیسی سے یہ نظر نہیں آتا کہ اس نے ان دونوں پہلوؤں میں سے کسی ایک پر بھی کام شروع کیا ہے۔ سماجی ہم آہنگی اور معاشی ترقی کے لئے معاشرے میں امن قائم کرنے، اختلاف ختم کرنے اور مل جل کر قومی بہبود کے منصوبے شروع کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ کام کوئی ایسا لیڈر ہی کرسکتا ہے جو اپنی ذات کا اسیر نہ ہو اور مخالفین کی حب الوطنی پر سوال نہ اٹھاتا ہو۔ عمران خان مدینہ ریاست کی اصطلاح استعمال کرکے سیاسی مخالفین کی آواز بند کرنا چاہتے ہیں۔ ورنہ رحمت اللعالمین کانفرنس میں ان کے لب و لہجہ میں شگفتگی اور رویہ میں درگزر اور عفو کا پہلو نمایاں ہوتا۔
عمران خان نے سیرت النبیﷺ کانفرنس میں اصرار کے ساتھ کہا ہے کہ بدعنوانی کا خاتمہ ہی دراصل مدینہ ریاست قائم کرنے کا راستہ ہے۔ وہ یہ بات ایک ایسے وقت کہہ رہے ہیں جب ان کے سب سے بڑے سیاسی دشمن اور بقول ان کے ملک کا خزانہ لوٹنے کے سب سے بڑے ذمہ دار نواز شریف کے بیرون ملک روانگی کے حتمی انتظامات کئے جا رہے ہیں۔ حکومت کے ترجمان نواز شریف کو علاج کے لئے ملک سے باہر جانے کی اجازت دینے کا اعلان کر چکے ہیں۔ البتہ وزیر اعظم ایک بار پھر اصرار کررہے ہیں کہ انسانی ہمدردی غریبوں اور معاشرے کے محتاج لوگوں کے لئے ہوتی ہے۔ جن لوگوں نے لوٹ مار کی ہے انہیں این آر او یعنی معافی نہیں دی جا سکتی۔
 رسول پاک ؐ کی شان میں منعقد ہونے والی تقریب میں کسی ٹھوس شہادت کے بغیر سیاسی مخالفین پر بدعنوانی اور لوٹ مار کا الزام لگانے کا طرز عمل ، اس اعلیٰ انسانی خوبی کی ضد ہے جس کا مظاہرہ رسول اللہ ﷺ نے ساری زندگی کیا تھا۔ نواز شریف ہوں یا آصف زرادری یا دوسرے سیاسی لیڈر، ان کے خلاف ملک کا ایک خود مختار ادارہ الزامات عائد کرکے مروج عدالتی نظام سے انہیں سزائیں دلوانے کا اہتمام کررہا ہے۔ جب تک ان سب لوگوں پر الزام ثابت نہیں ہوجاتے اور وہ ملک کے عدالتی نظام میں اپیل کرنے اور اعلیٰ ترین عدالتی فورم پر اپنا مقدمہ پیش کرنے کا حق استعمال نہیں کر لیتے، وزیر اعظم سمیت کسی بھی شخص کو انہیں چور و لٹیرا کہنے کا حق حاصل نہیں ہے۔ وزیر اعظم نے درست کہا کہ مدینہ ریاست میں غریبیوں مسکینوں کی سرپرستی ہوتی تھی لیکن اس میں الزام کی بنیاد پر کسی صاحب ثروت کو بے توقیر بھی نہیں کیا جاتا تھا۔ اگر مدینہ ریاست کی بنیاد لوٹ مار پر نہیں رکھی جا سکتی تو یہ ریاست جھوٹ اور سیاسی مفاد کے لئے مذہب کو استعمال کرنے کے طریقہ پر بھی استوار نہیں ہوسکتی۔
تحریک انصاف کی حکومت اور عمران خان خواہ کتنا ہی اصرار کریں کہ نواز شریف کی ملک سے روانگی کا انتظام خالصتاً انسانی بنیادوں پر کیا جارہا ہے لیکن عام تفہیم میں اسے حکومت کی طرف سے این آر او دینا ہی کہا جائے گا۔ شاید اسی لئے وزارت داخلہ اور نیب اس اجازت کی ذمہ داری ایک دوسرے پر ڈال کر وزیر اعظم کو ’ این آر او نہیں دوں گا ‘ کے نعرے کا جواز فراہم کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں ۔ تاکہ عمران خان ، نواز شریف کی ملک سے روانگی کو اصول پرستی اور وسیع القلبی کی مثال بنا کر پیش کرسکیں۔ لیکن وزیر اعظم خود بھی جانتے ہوں گے کہ نواز شریف کا معاملہ بدعنوانی میں ملوث کسی شخص کا مقدمہ نہیں ہے بلکہ عوام میں مقبول ایک سیاسی لیڈر کی زندگی اور موت کا معاملہ ہے۔ حکومت اور ریاستی طاقتیں نواز شریف کو ملک سے روانہ کرکے اس ناانصافی کی ذمہ داری سے بچنا چاہتی ہیں جو گزشتہ چند برس کے دوران ان کے ساتھ روا رکھی گئی ہے۔
مدینہ ریاست کو سیاسی سلوگن بنانے سے منسلک دیگر پہلو بھی حکومت اور وزیر اعظم کے پیش نظر رہنے چاہئیں۔ ایک تو اس نعرہ کے ذریعے عمران خان یہ تاثر دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ پہلے سیاسی لیڈر ہیں جو مذہب کی بنیاد پر پاکستان کو فلاحی مملکت بنانے کا تصور سامنے لائے ہیں۔ یہ دعویٰ غلط بیانی بھی ہے اور پاکستان کی مختصر تاریخ سے ناشناسائی کا آئینہ دار بھی۔ پاکستان میں قرار داد مقاصد سے لے کر آج تک مذہب کے نام پر ہی سیاست کی گئی ہے۔ حتیٰ کہ ذوالفقار علی بھٹو نے جب سوشلزم کے اصولوں پر سیاسی نظام استوار کرنے کی کوشش کی تو انہیں بھی اسے اسلامی سوشلزم کی غیر واضح اور ناقابل عمل اصطلاح کی صورت میں پیش کرنا پڑا۔  ریاستی امور اور مذہب کو گڈ مڈ کرنے کا ہی نتیجہ ہے کہ پاکستان اس وقت فنانشل ایکشن ٹاسک فورس اور دیگر عالمی اداروں و ملکوں کو یہ یقین دلانے کے لئے سفارتی صلاحیتیں صرف کرنے پر مجبور ہے کہ ملک میں مذہبی انتہا پسندی کو جڑ سے اکھاڑا جا چکا ہے۔
عمران خان ضرور عوام کو رسول پاک ؐ اور صحابہ کرام کے ادوار کی طرح بنیادی شہری و فلاحی حقوق فراہم کرنے کے لئے کام کریں لیکن اس کے لئے مدینہ ریاست کو سیاسی نعرہ بنانے سے ایک تو مذہبی شدت پسندی میں اضافہ ہو گا ، دوسرے یوں لگے گا کہ حکومت مذہب پر اجارہ داری قائم کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ یہ طریقہ حکومت کی صحت اور ملک کے مستقبل کے لئے مشکلات کا سبب بنے گا۔
کالم اور بلاگز واٹس ایپ پر حاصل کرنے کے لیےبلاگ کا گروپ جوائن کریں۔