ابھی ابھی فیس بک پر ایک پوسٹ نظر سے گزری ہے جس میں طلباء کے یکجہتی مارچ کی ایک تصویر جس میں ایک خاتون واضح طور پر دکھائی گئی تھی اور تصویر کے ساتھ لکھا تھا ”لال لال تو جب لہرائے گا لہرائے گا، ابھی تو تیرے ابھار نے میرے جذبات میں ہلچل مچا دی ہے“۔
یہ ایک فقرہ نہیں، ہماری قوم کے مردوں کی اجتماعی سوچ کی نشاندہی کرتا ایک مکمل پیکج ہے۔ عورت اس معا شرے کے لئے ہمیشہ جنسی آسودگی کی ”شے“ رہی ہے۔ وہ معاشرہ جہاں جنسی گھٹن اور فرسٹریشن کا راج ہو وہاں یکجہتی مارچ میں شامل خواتین ہوں یا اپنے حقوق کے لئے آواز بلند کرتی ”اورنج کمپین“ کا حصہ ہوں، اس طرح کے بیہودہ اور لغو فقروں کا نشانہ بنتی ہیں۔
معلوم نہیں ساری غیرت، سارے جذبات اور مردانگی صرف پاکستان کے مردوں کی میراث کیوں ہیں؟ کیا باقی ترقی یافتہ ممالک میں رہنے والے سبھی ”مرد“ نامرد ہیں؟ یا ان کے جذبات اس قدر برفیلے ہو گئے ہیں کہ ”سکرٹ“ اور منی فراکوں میں ملبوس مکمل حسیناؤں کو دیکھ کر بھی نہیں مچلتے؟ شارٹس پہنے آزادی سے گھومتی، چلتی پھرتی قیامتیں بھی ان کے جذبات میں ”قیامت“ برپا نہیں کرتیں؟ برسوں سے جمی ”برف“ کو پگھلانے میں ناکام رہتی ہیں؟
اس طرح کے فقرے لکھنے والے ”گٹر مائنڈ“ شاید کنویں کے مینڈک کی طرح ہیں جن کی دنیا موبائل، یو ٹیوب اور فیس بک تک محدود ہے۔ جن کی نظریں جب اٹھتی ہیں تو خواتین کے جسم کے آر پار ہوئی جاتی ہیں چاہے وہ خواتین حجاب میں ہی کیوں نا ہوں، خود میں سمٹنے پہ مجبور ہو جاتی ہیں۔ ان کا بس نہیں چلتا کہ آنکھوں سے خواتین کا اندر تک ”ایکسرے“ کر لیں۔
یہ وہی ہیں جو عورت کے ”ریپ“ ہونے پہ اسی کو ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔ جن کے جذبات اس قدر بے لگام اور منہ زور ہیں کہ آٹھ نو سال کی بچی کو دیکھ کر بھی ”بے قابو“ ہو جاتے ہیں۔ جن کی ہوس کی آگ اس قدر بھڑکتی ہے کہ اپنے ”ہم جنسوں“ کو بھی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔ جن کی مردانگی کی قیمت کبھی خواجہ سرا چکاتے ہیں تو کبھی معصوم بچے۔
کہنا فقط یہ تھا کہ جب جب آپ کے ”جذبات“ کا منہ زور گھوڑا بے لگام ہونے لگے تو ”اپنے“ گھر کے اندر بیٹھی ان خواتین کو یاد کر لیجیے گا، جو اگر آپ کی ماں کے روپ میں ہیں تو قابل احترام، بہن کے روپ میں ہیں تو قابل عزت، بیٹی کے روپ میں ہیں قابل محبت اور بیوی کے روپ میں ہیں تو ”احترام، عزت، محبت“ سب کی حقدار۔ امید واثق ہے کہ جذبات میں لگی ”آگ“ پہ برف کے ٹھنڈے چھینٹے پڑیں گے اور دل میں ہوئی ”ہلچل“ بھی کنٹرول میں آ جائے گی۔ پھر اپنے حق کے لئے لڑتی کسی بھی خاتون کی تصویر دیکھ کے ”کچھ“ نہیں ہو گا بلکہ وہی ”سمجھ“ آئے گا جس کے لئے وہ خاتون اپنے جیسی کئی خواتین کی آواز بنی بینر اٹھائے ”سڑک“ پہ آکھڑی ہے۔ پھر لال لال بھی لہرائے گا اور سرفروشی کی تمنا بھی ”انگڑائی“ لے کر بیدار ہو جائے گی۔