تنقید سے تضحیک تک


مسلمان آئینہ کی مانند ہے ’جو خامی دیکھتا ہے‘ اس کی اصلاح کی کوشش کرتا ہے ’وہی بہترین دوست‘ خیر خواہ ہے جو اصلاح کرے ’لیکن ہم نے اصلاح کے نام سے عزتیں اچھالنا معمول بنا لیا۔ درحقیقت ہم اخلاقی پستی کی اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ بڑے، چھوٹوں، اساتذہ ٗ عدلیہ ٗ صحافت ٗ اداروں سب کا احترام ختم ہو گیا ہے۔ بداخلاقی ہمارے معاشرے میں بُری طرح سرایت کر چکی ہے۔ ہمارا معاشرہ ناکامیوں کی اتھاہ گہرائیوں میں گرتا چلا جارہا ہے۔

اس میں ذ را بھی بہتری نہیں ہو رہی بلکہ صورتحال مزید ابتر ہو رہی ہے۔ پڑھے لکھے عوام سے لے کر گلی کے نکڑ پر کھڑے سب ہی ایک صف میں شامل ہو رہے ہیں۔ رہی سہی کسر سوشیل میڈیا نے نکال دی ٗ جس میں اپنے اداروں ٗ شخصیت پر تعمیری تنقید کے بجائے ٗ تضحیک ہو رہی ہے۔ پھر سب سے بڑی خرابی انتشار و خلفشارپروان چڑھ رہا ہے۔ جو بحیثیت قوم ناقابل تلافی نقصان کا موجب ہے۔

ترقی کے راز میں سب سے پہلا قرینہ ٗاقوام نے اتحاد قائم کیا، تفرقہ بازی ’افراتفری کو جڑوں سے اکھاڑ پھینکا، نظم و ضبط قائم کیا، بھائی چارگی کا پیغام دیا۔ منافقت، جھوٹ، وعدہ خلافی، خیانت، بددیانتی، بے ادبی، ظلم و ستم کا سلوک کرنے جیسی برائیوں کو اپنی قوم سے مکمل طور پر ختم کیا۔ اس کے برعکس آج ہمارامعاشرہ بالکل مختلف ہے۔ ہر شخص دوسرے کی تذلیل کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتا۔ تنقید برائے اصلاح ختم جبکہ تنقید برائے تنقید کا رواج عام ہے۔

تنقید برائے اصلاح ٗ حدادب کے دائرہ میں ہو تو یہ معاشرہ کی تعمیر کے لیے ضروری ہے۔ کیونکہ تنقید کا آغاز الفاظ کہ وجود میں آنے سے پہلے ہی ہوگیا تھا یا یہ کہیے کے زمین پر انسانی زندگی سے بھی قدیم تنقید کی حیات ہے، تنقید کا اصل موضوع کانٹ جھانٹ یا تلاشِ خوب ہے، بگ بینگ سے لے کر آج تک کائناتی ارتقاء تنقید یا خوبب سے خوب تر کی تلاش پر ہی محمول ہے۔ جب ایک چھوٹا سا ذرہ وجود میں آیا اور اُس نے دوسرے ذرات کو جنم دیا، پھر اِن ذرات سے سادہ عناصر وجود میں آئے اور ان سادہ عناصر کہ ملاپ سے پیچیدہ عناصر وجود میں آنے لگے حتیٰ کہ انسانی زندگی کا بتدریج زمین پر جنم ہوا۔ پھر انسان نے رہائش اور فکرِ خوراک میں بہتر سے بہتر کی کوشش کی۔

غاروں اور سرنگوں میں رہنا شروع کیا، جسم کو ڈھاپنے کے لیے مختلف انتظامات شروع کیے، کاشت کاری کا آغاز ہوا اور خوراک کی پیداوار کے لیے نت نئے آلات وجود میں آئے، رہائش کے لیے مختلف طرح کہ مکانات نات کی تعمیر شروع ہوگئی، شہر آباد ہونے لگے، رفتہ رفتہ ترقی کا سفر جاری رہا اور آج کے جدید دور تک، پتھر کے دور سے لے کر جدید ٹیکنالوجی کے دور تک یہ تمام کارنامہ ایک ہی انسانی فطرت، ایک ہی سوچ، ایک ہی لگن کا تو تھا اور وہ تھی خوب سے خوب تر کی تلاش جس کو دوسرے الفاظ میں تنقید بھی کہا جاسکتا ہے کیونکہ جب تک پرانے نظریات پر سوالات یا نقائص کا شبہ نہ ظاہر کیا جائے، نئے تفکرات کا وجود میں آنا ایک ناممکن امر ہے۔ انسان کی تہذیبی ترقی کا دور جب شروع ہوا جب انسان نے الفاظ کہ ذریعے اپنے ساتھیوں سے اظہارِ فکر کیا۔ اس خیال کو مشہور ماہر نفسیات سگمڈ فرائیڈ نے بھی جنبشِ قلم کی نظر ان الفاظ میں کیا ہے کہ ”تہذیب کا آغاز اس وقت ہوا جب کسی نے غصّے میں آکر پتھر کی بجائے لفظ سے وار کیا“

تنقید لازمی ارتقاء کا حصہ رہی ہے۔ چاہے وہ ارتقاء فطری ہو یا ارتقاء فکری، تنقید کا جاری رہنا ہی بقائے حیات کے لیے ضروری ہے، فکر کے جوڑنے سے نظریات تخلیق ہونے لگے۔ ان نظریات کی رہنمائی تعقل نے کی اور ان نظریات کی تجسیم الفاظ کے ذریعے منظرِ عام پر آئی۔

کسی دوسرے شخص نے اس میں کچھ کمیوں یا خامیوں کا ادراک کیا تو کسی نے اس فکر کی کانٹ جھانٹ کی اور اس میں موجود غلطیوں کو دور کرنے کی کوشش کی، کسی نظریے کے موافق گروہ وجود میں آیا تو کسی نظریے کے مخالف، دلائل کی بوچھاڑ ہوئی اور کبھی تیسرا گروہ وجود میں آگیا جن سے نت نئے خیالات کو جنم دیا۔ انسان نے اس قدر تنقید کی کہ تنقید پر بھی تنقید ہوئی حتیٰ کے ’تنقید کیوں کی جاتی ہے‘ اس پر بھی تنقید ہوتی رہی۔ جہاں اس روش وش نے انسانیت کو فائدہ پہنچایا وہیں نقصان بھی ہوا اور سب سے زیادہ نقصان جب ہوا جب اختلاف کا بدل مخالفت سے ہوا، دلیل کے بجائے ذاتی انانیت کو فروغ دیا گیا، تنقید کا تیر نظریات پر لگنے کے بجائے شخصیات پر لگنا شروع ہوا۔

انسان کی فکر کی سب سے پستی کی حالت یہ رہی کہ اول ہم نظریات سے متاثر ہونے کے بجائے شخصیات سے متاثر ہوئے جس کے نتیجے میں ہم نے اس شخصیت کے نظریات کو حرفِ آخر کے دائرے میں لا کر کھڑا کردیا۔ اس شخصیت کا ایک بت بنا دیا جس کی اس کے پیرو نے رات دن عبادت کی اور اگر سوال بھی اٹھا تو اس کو دبانے کی اس قدر کوشش کی جانے لگی کہ بات کشت و خون تک جا پہنچی اور دوسری طرف ایک اور انتہا یہ کہ اگر ہمیں کوئی شخصیت آنکھوں کو ٹھنڈک فراہم نہ کرسکی یا اس کے چند نظریات ہمیں خوبرو نہ لگے تو ہم نے اس کو دانشور ماننے سے ہی انکار کردیا۔ دانشور تو کجا انسان کی فہرست سے نکال باہر کیا۔ یہ ایک بنیادی سبب تھا جس سے علم کی ترقی رک گئی خاص طور پر برصغیر میں۔

یورپ کی تہذیبی ترقی کا ایک راز یہ بھی ہے کہ انہوں نے کسی شخصیت یا نظریے کو حرفِ آخر نہیں سمجھا بلکہ اس کی سوچ کی غلطیوں کو دور کیا اور نئی سوچ کو جنم دیا اور سب سے اہم بات یہ کہ نقادوں کا اندا انداز بھی جارحانہ نہیں بلکہ تخلیقی رہا اور جس پر تنقید ہوئی اس نے اگر کوئی غلطی پائی تو اس کی اصلاح کرنے میں کوئی شرمندگی محسوس نہ کی جس سے نظریات کا علمی محاکمہ کرنے کی عادت معاشرے میں پیدا ہوئی اور معاشرے نے ترقی کی راہیں طے کیں، اصل تلخی بھی جب شروع ہوتی ہے جب خیالات کے بجائے شخصیات کی ذاتیات پر بات پہنچ جائے سقراط نے بھی اس کو کچھ یوں بیان کیا، ”اچھے دماغ کے لوگ خیالات پر تنقید کرتے ہیں جبکہ کمزور دماغ کے لوگ، لوگوں پر تنقید کرتے ہیں“

اسکے علاوہ اگر بات صرف نظریات کی حد تک کی جائے تو ایک سب سے بڑی بیماری کسی تعمیری بحث کو مناظرہ بنانے کی ہے۔ مناظرے کا عام اصول تو یہی ہوتا ہے کہ جناب ایڑی چوٹی کا ضرور لگا دیا جائے چاہے انسان جانتا بھی ہو کہ وہ خود غلط ہے لیکن نہیں دوسرے کو شکست دینے کی ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے۔ اگر ہم منطقی اغلاط سے محفوظ ہوکر کسی بحث میں حصہ لیں اور تنقید برائے تنقید کی روش کے بجائے تنقید برائے اصلاح کو فروغ دیں تو بہت سے معاملات سیدھے ہوسکتے ہیں۔ بحث یا تنقید کا مقصد کسی دوسرے کو نیچا دیکھانا نہیں ہونا چاہیے بلکہ تعمیری طور پر علم سیکھنا اور اس کو آگے بڑھانے کی کوشش ہونی چاہیے اور جہاں اختلاف ہو وہاں خندہ پیشانی سے اس کو برداشت کرنا چاہیے بالفاظِ دیگر ’آؤ اختلافِ رائے پر اتفاق کرلیں‘ ۔

ایک اور نقطہ جو انتہائی قابلِ غور ہے کہ انسان لفظی تنقید نا بھی کرے تب بھی فکری تنقید ضرور کرتا ہے۔ انسان مختلف چیزوں کے بارے میں نظریہ قائم کرتا ہے لازم تو نہیں اس بارے میں صرف ایک نظریہ موجود ہو اور اگر ایک نظریہ موجود نہیں تو اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ وہ دوسرے نظریات کی نفی کررہا ہے۔ ہم تنقید کے ذریعے اصلاح ضرور کریں ٗ لیکن اس آڑ میں تضحیک سے گریز کریں۔