میرے سب دوست ’ہمسائے اور رشتہ دار مجھے دنیا کی خوش قسمت ترین عورت سمجھتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ
میرا ایک محبت کرنے والا شوہر ہے
ہمارے تین خوبصورت بچے ہیں
بڑا سا گھر ہے
قیمتی کار ہے
اور گھر میں دو ملازمائیں بھی ہیں
تو میں بہت خوش ہوں گی۔
میری دل فریب مسکراہٹ بھی ظاہر کرتی تھی کہ زندگی سے بہت مطمئن ہوں۔
لیکن وہ میرے دل کا حال نہیں جانتے تھے۔ بھلا کوئی کسی کے دل کا حال کیسے جان سکتا ہے۔
ایک رات میرے شوہر نے محبت کرنے کے بعد میرے چہرے کو اپنے دونوں ہاتوں میں لے کر میرے ہونٹ چومے اور میری آنکھوں میں جھانکا تو کہنے لگا
’کیا تم اندر سے دکھی ہو؟ ‘
اور میرے ہونٹوں سے بے اختیار نکلا ’تمہیں کیسے پتہ چلا؟ ‘
’تمہاری آنکھوں میں اداسی ہے‘
اور میں خاموش ہو گئی
نجانے کتنے دن خاموش رہی۔
میرے شوہر نے بھی مجھ سے کچھ اور نہ پوچھا۔ اسے یوں لگا جیسے وہ غلطی سے کسی ایسے کمرے میں داخل ہو گیا ہو جہاں اسے داخل نہیں ہونا چاہیے تھا۔
میں کئی دن تک سوچتی رہی اور اپنے آپ سے پوچھتی رہی
’کیا میں جنید کو اپنا سچ بتا دوں؟ ‘
’پورا سچ یا ادھورا سچ؟ ‘
’کیا وہ میرے سچ کو برداشت کر لے گا؟ ‘
میرا دل کہتا ’پورا سچ بتا دیا تو اس کا دل ٹوٹ جائے گا‘ ۔
میں بخوبی جانتی تھی جنید مجھے بچپن سے چاہتا تھا۔ ٹوٹ کر محبت کرتا تھا۔ میں اس کی ڈریم گرل تھی۔
جنید میرا کزن تھا خالہ کا بیٹا۔ میری ماں کا چہیتا بھانجا۔
جب جنید اور میں میڈیکل کالج میں تھے تو وہ کتابیں لے کر میرے پاس آ جاتا تھا اور ہم مل کر پڑھتے تھے۔ مجھے ان دنوں بھی اس کی آنکھوں میں محبت کی لو نظر آتی تھی۔
جب ہم دونوں ڈاکٹر بن گئے اور دو مختلف ہسپتالوں میں کام کرنے لگے تو جنید کی ماں نے ایک سہہ پہر میری ماں سے میرا رشتہ مانگا اور میری ماں نے بخوشی قبول کر لیا۔
جب میری ماں نے مجھے بتایا کہ تمہاری جنید سے شادی کی بات پکی ہو گئی ہے تو میری آنکھوں میں پہلی بار اداسی اتر آئی تھی لیکن میں خاموش رہی تھی۔
اس رات بھی میں نے اپنے آپ سے وہی سوال پوچھے تھے
’کیا میں اپنی ماں کو اپنا سچ بتا دوں؟ ‘
’پورا سچ یا ادھورا سچ؟ ‘
اور مجھے لگا میری ماں میرے پورے سچ کو برداشت نہ کر پائے گی۔ اس کا دل ٹوٹ جائے گا۔ اور میں نے اپنی ماں کی خوشی کی خاطر جنید سے شادی کر لی تھی اور دلہن بن کر سسرال چلی آئی تھی۔
میں نے خاموشی سے روایت کی صلیب اٹھا لی تھی اور میرا خیال تھا کہ میں ساری عمر خاموشی سے وہ صلیب اٹھائے پھرتی رہوں گی۔
جب میرے ہاں پہلا بچہ ہوا تو میں ہسپتال کا کام چھوڑ کر فل ٹائم بیوی اور ماں بن گئی۔
لیکن جب میرے شوہر نے کہا تھا۔ ’تمہاری آنکھوں میں اداسی ہے‘ ۔ تو میں ٹھٹھک کر رہ گئی تھی۔
اگر میں نے اپنے شوہر کو پورا سچ بتا دیا تو کیا ہوگا؟
میرے بچوں کا کیا ہوگا؟
دونوں خاندانوں کا کیا ہوگا؟
میری جنید سے جدائی کسی کی بھی سمجھ نہ آئے گی۔ اگر وہ شرابی ’جواری‘ ظالم اور جابر شوہر ہوتا تو لوگ قبول کر لیتے لیکن وہ تو محبت کرنے والا مثالی شوہر تھا۔
ایک رات مجھے نیند نہ آئی۔ جنید گہری نیند سو رہا تھا اور میں کروٹیں بدل رہی تھی۔ آخر رات کے دو بجے میں نے جنید کو جگا دیا۔ وہ ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا۔ اس نے گھبرا کر پوچھا
’خیریت تو ہے؟ ‘
’نہیں خیریت نہیں ہے؟ ‘
’تو کیا بات ہے؟ ‘
’میں تم سے محبت نہیں کرتی۔ میں تمہارے ساتھ نہیں سو سکتی۔ ‘
اور میں اٹھ کر دوسری خواب گاہ میں چلی گئی تھی۔
جنید میری خواب گاہ میں آیا تھا۔ وہ بات چیت کرنا چاہتا تھا۔ میں نے کہا
’ میں اس موضوع پر مزید بات نہیں کر سکتی؟
’ نہیں کر سکتی یا نہیں کرنا چاہتی؟ ‘
میں خاموش رہی۔
وہ کچھ دیر انتظار کرتا رہا اور پھر واپس چلا گیا۔
میں کبھی واپس اس کی خواب گاہ میں نہیں گئی۔
ایک دن میں نے ایک ادبی رسالے میں دو مصرعوں کی ایک چھوٹی سی نظم پڑھی۔ یوں لگا جیسے شاعر نے وہ نظم میرے لیے ہی لکھی ہو
خواب گاہیں اور خواب
ہماری خواب گاہیں مشترک ہیں تو
ہمارے خواب اتنے مختلف کیوں ہیں؟
ایک دن میں نے بچوں سے کہا کہ میں تمہارے والد سے محبت نہیں کرتی اور علیحدہ ہونا چاہتی ہوں۔
انہوں نے کئی سوال پوچھنے کی کوشش کی لیکن میں نے کہا میں اس موضوع پر بات نہیں کرنا چاہتی۔ وہ پہلے حیران تھے پھر پریشان ہو گئے۔ لیکن میں خاموش رہی۔
میں نے ایک اور ہسپتال میں دوبارہ کام کرنا شروع کر دیا۔
میں نے ایک گھر بھی کرایے پر لے لیا اور وہاں منتقل ہو گئی۔
بچوں سے کہا کہ اب وہ بڑے ہو گئے ہیں جب چاہیں جتنے عرصے کے لیے چاہیں میرے پاس رہ سکتے ہیں۔
کسی کو کچھ پتہ نہ تھا کہ میں نے جنید کو کیوں چھوڑا ہے؟ میں نے دوبارہ کام کرنا اور علیحدہ رہنا کیوں شروع کیا ہے؟
میں اپنی صلیب اکیلے اٹھائے پھرتی رہی۔ مجھے اپنا پورا یا ادھورا سچ کسی کو بھی بتانے کی کوئی جلدی نہ تھی۔
میں نجانے کب تک خاموش رہی۔
اور پھر میری ملاقات اپنے ہی ہسپتال کی ایک اور لیڈی ڈاکٹر سے ہوئی۔ اس نے مجھے ان نگاہوں سے دیکھا جیسے اس سے پہلے مرد مجھے دیکھا کرتے تھے۔
میرا دل زور زور سے دھڑکنے لگا۔
میرا دل کبھی کسی مرد کے لیے حتٰی کہ اپنے شوہر کے لیے بھی ایسے نہ دھڑکا تھا۔
وہ لیڈی ڈاکٹر میرے ہسپتال کے کسی اور وارڈ میں کام کرتی تھی۔
وہ جب بھی کیفی ٹیریا میں لنچ کے وقت آتی تو مجھے غور سے دیکھتی اور مسکراتی اور میرا سراپا پسینے میں شرابور ہو جاتا۔
ایک دوپہر وہ اپنا ٹرے لے کر میری میز پر آ گئی۔
اپنا تعارف کرواتے ہوئے کہنے لگی ’میرا نام سلمیٰ ہے‘
میں نے کہا ’مجھے صابرہ کہتے ہیں‘
کھانے کے دوران ہسپتال کی باتیں ہوئیں۔ پھر پوچھنے لگی
’ آج شام آپ کیا کر رہی ہیں؟ ‘
’کچھ خاص نہیں‘
’میرے گھر ڈنر پر آسکتی ہیں؟ ‘
’کیوں نہیں؟ ‘
اس نے مجھے اپنا پتہ دیا۔
’کتنے بجے؟ ‘ میں نے پوچھا
’ کیا چھ بجے مناسب رہے گا؟ ‘
’بہت مناسب۔ ‘
اور میں چھ بجے پھول لے کر اس کے گھر پہنچ گئی۔
ہم دونوں نے ڈنر کھایا اور موسیقی سے محظوظ ہوئیں۔
پھر ہم کئی ماہ تک متواتر ملتی رہیں۔
میں نے اسے اپنے شوہر اور بچوں کے بارے میں بتایا۔
اس نے کہا کہ اس کے والدین اس کی روایتی شادی کرنا چاہتے تھے لیکن اس نے انکار کر دیا اور اب چھ مہینوں سے علیحدہ رہ رہی ہے۔ کہنے لگی
’صابرہ! خوش رہنا ہر انسان کا حق ہے وہ گھر والوں کی خیرات نہیں ہے اور ہم عورتیں بھی انسان ہیں۔ ہمیں بھی خوش رہنے کا اور محبت کرنے کا حق ہے‘
اور میں اس کی خود اعتمادی کے سحر میں کھو گئی۔
ایک شام وہ میرے پیچھے سے آئی اور اس نے مجھے گلے لگا کر میرے رخسار پر بوسہ دیا پھر میرے ہونٹوں کو چوما۔ میں نے بھی اسے گلے لگا لیا۔
کہنے لگی ’کل ویکنڈ ہے آج رات یہیں رہ جاؤ‘ اور میں بھی مان گئی۔
اس رات مجھے زندگی کی بہترین نیند آئی۔
۔ ۔
ایک دن میرا شوہر میرے ہسپتال بچوں کے کسی مسئلے پر تبادلہِ خیال کرنے آیا۔ میں سلمیٰ کے ساتھ لنچ کر رہی تھی۔ میں نے دونوں کا تعارف کروایا۔
سلمیٰ چلی گئی تو کہنے لگا
’یہ کون ہے؟ ‘
’میری رفیقِ کار اور دوست ہے۔ ‘
’تم دونوں بہت چہک رہی تھیں۔ ‘
’ہاں ہم دونوں پکی سہیلیاں بن گئی ہیں۔ ‘
۔ ۔
پھر ایک دن میں اپنے شوہر سے ملنے گئی۔ کہنے لگا
’ تمہاری آنکھوں کی اداسی ختم ہو گئی ہے‘
میں مسکرائی۔ میں نے کہا
’ایک FAVOUR مانگنے آئی ہوں؟ ‘
وہ کیا؟ ’
’میں طلاق لینے آئی ہوں‘
’وہ کیوں؟ ‘
’ میں سلمیٰ سے شادی کرنا چاہتی ہوں‘ ۔