کیا ہم جنسی مریضوں کا معاشرہ بن چکے ہیں؟

چند سال قبل بالی ووڈ انڈسٹری نے ”ماتر بھومی“ کے نام سے ایک فلم بنائی تھی۔ فلم کی کہانی کافی دلچسپ اور المیہ ہے۔ ایک گاؤں میں کوئی بھی بیٹی پیدا نہیں کرنا چاہتا ہے، جب بھی کسی گھر میں بیٹی ہوتی ہے تو اسے دودھ میں ڈبو کر مار دیا جاتا ہے اور بھگوان سے التجا کی جاتی ہے اگلے جنم میں اسے بیٹا بنا کر بھیجے۔
لیکن جب لڑکوں کی ایک نسل جوان ہوتی ہے تو پتہ چلتا ہے کہ گاؤں میں انہیں بیاہنے کے لیے کوئی لڑکی ہی نہیں ہے، فلم کی کہانی آگے چل کر نوجوانوں کی جنسی بے چینی کو ظاہر کرتی ہے۔ جبکہ کسی دور گاؤں میں ایک لڑکی نظر آتی ہے، جس سے پانچ کنوارے بھائی شادی رچاتے ہیں۔ اور اس طرح اس فلم میں وہ لڑکی محض ہم بستری کرنے کا ہی آئٹم بن جاتی ہے۔
یہ فلم مجھے اس لیے بھی یاد آ رہی ہے کیوں کہ ہم عورت یا لڑکی کو محض بستر گرم کرنے کا سامان سمجھتے ہیں۔ معاشرے میں بڑھتی ہوئی بے چینی کی وجہ سے آئے دن جنسی زبردستی کے واقعات بڑھتے ہی جا رہے ہیں۔ قصور کی زینب کا غم اور اسے ملنے والی اذیت کو کون بُھلا سکتا ہے۔ لیکن ایک زینب ہی تو کم سن بچی نہیں تھی جس کے جسم کو روند کر اس سے جنسی زبردستی کی گئی تھی۔ آج بھی ایسی کم سن بچیاں ہمارے ہاں جنسی ہوس کا شکار ہو کر اپنی جان گنوا رہی ہیں۔
چند روز قبل ہی ٹھٹہ کے شہر ور میں بھی دعا ولاسیو نامی ایک سات سالہ بچی کو کیلے کے باغ میں جنسی ہوس کا شکار کرکے قتل کیا گیا، جب معاملے کی تحقیقات ہوئی تو اس جرم میں اس کا چچا اور ایک ساتھی ملوث پائے گئے۔ جنسی مریضوں سے بھرے اس معاشرے میں نہ تو کوئی کم سن بچی محفوظ ہے اور نہ ہی کوئی عورت۔ پاکدامنی کے دعویدار اور مغربی معاشروں کو ہر برائی کا ذمے دار سمجھنے والے دعا جیسی بچیوں پر گدہ کی طرح جھپٹنے سے بھی باز نہیں آتے۔ مغربی تو کیا ہر معاشرے کی بنیادی اخلاقیات ایک جیسی ہی ہے۔ کوئی بھی ننھی بچی آنے والے کل میں عورت اور ماں ہوتی ہے۔ وہ اسی گوشت اور خون کی بنی ہوئی ہے جس سے کوئی مرد بنتا ہے۔ اس لگنے والی چوٹ کا اثر بھی ایسا ہی ہوتا جیسا کسی مرد کو ہوتا ہے۔
کیا عورت کا وجود ہمارے معاشرے میں محض جنسی ہوس پوری کرنے کا آلہ بنتا جا رہا ہے۔ میں اس بات پہ حیرت زدہ ہوتا ہوں کہ کس طرح کسی بھی ایک بالغ مرد خود کو اس عمل کے لیے کسی ننھی بچی کے لیے تیار کر لیتا ہے جس کا جسم اسے کوئی بھی جنسی تسکین نہیں دے سکتا، کیوں کہ اس کی جسمانی ساخت ہی اس قابل نہیں ہوتی ہے۔ مگر ہمارے ہاں ایسے جنسی مریض جا بجا موجود ہیں اور وہ کسی بھی روپ میں ہو سکتے ہیں۔ کسی بھی رشتے کا مکھوٹا چڑھا کر ننھے وجود کو جنسی ہوس کا نشانہ بنانے سے نہیں چوکتے ہیں۔ لیکن کسی کی بھی بیٹی جنسی آگ بجھانے کے لیے نہیں پیدا ہوتی بلکہ اسے جینے اور اس معاشرے میں اپنا کردار ادا کرنے کا اتنا ہی حق حاصل ہے جتنا کہ کسی مرد کو ہے۔
یہ دعا کا قصور تو نہیں تھا کہ اس کی جنس عورت تھی، بلکہ شاید قصور اسے کے چچا کا ہی ہے کہ اس کی جنس مرد ہے۔ ہم ایک ایسے سماج کا حصہ ہیں جہاں پل پل بچوں کو بچانے کی کوشش کی جاتی ہے اور والدین کی زندگی ایسی فکر میں گزرتی جاتی ہے کہ کہیں اس کی بچی کسی کی ہوس کا شکار نہ ہوجائے۔ لیکن معاشرہ تب ہی آزاد سمجھا جاسکتا ہے جب کسی کو اس بات کی فکر نہ ہو کہ کوئی اسکول میں پڑھنے والی بچی ان ہاتھوں سے محفوظ رہے گی جنہیں بس کپڑے اتارنے کا شوق ہوتا ہے۔
گوکہ دعا ولاسیو کا ریپ کرنے والے گرفتار بھی ہوگئے مگر دعا اب نہیں لوٹ سکتی ہے اور نہ ہی اس کے چچا پر لگا یہ داغ دھل سکتا ہے۔ اگر کسی بھی ملک میں اگر سات سال کی بچی بھی محفوظ نہیں تو ان لڑکیوں کا کیا جو اپنی جوانی کی دہلیز پہ پاؤں رکھ رہی ہیں؟
گھٹن کے شکار اور سماجی بندشوں میں قید معاشروں میں ایسے واقعات ہونا اس لیے بھی انہونی کی بات نہیں ہے کیوں کہ ہمارے اردگرد ایسا ماحول ہے کہ سات پردوں میں ڈھکی ہوئی عورت بھی ہمیں برہنہ دکھائی دیتی ہے۔ اگر وہ ایسی دکھائی نہیں بھی دیتی ہے تو کم از کم ہمارا دل یہی چاہتا ہے کہ وہ برہنہ ہو جائے۔ معصوم بچیوں کے ساتھ جنسی زبردستی کرنا اور انہیں قتل کرنا یہ انسانیت کی تذلیل کی ایک آخری حد نہیں ہے تو اور کیا ہے۔
لیکن اس گھٹن زدہ ماحول کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے، ہمیں اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ لڑکیاں محض جنسی ہوس پوری کرنے کے لیے پیدا نہیں کی جاتی ہیں بلکہ وہ بھی اس معاشرے میں مساوات چاہتی ہیں۔ دعا جیسی بچیاں آج بھی ہر شہر ہر گاؤں میں موجود ہیں مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ ان درندوں سے محفوظ ہیں، جنہیں نہ عمر کا لحاظ ہے اور نہ کسی رشتے کا۔ لیکن اگر ہمارے شہروں کی دیواریں ہی مردانہ طاقت کے اشہاروں سے بھری ہوں تو وہاں جنسی ہوس پرست ہی پیدا ہوسکتے ہیں، دانا پیدا ہونے سے تو رہے۔