”ہمارے بیٹے کی ایک ہی خواہش ہے کہ وہ اس سے شادی کرے گا جو شریعت اسلامی کی پابند ہوگی“ سر پر چار مون کا ہاتھ کی کڑھائی کا دو پٹہ اوڑھے لڑکے کی ماں بولی۔ دوپٹے کے پلو کے ساتھ موتی جڑے کروشیے کی لیس تلے کے ساتھ جوڑی گئی تھی۔ کندھوں پر پڑی پشم کی دوشالہ شال بار بار پھسل کربازووں پر گر رہی تھی۔ وہ ا س کو اٹھا کر ٹھیک کرتی تو کلائیوں میں موجود سونے کی چوڑیاں جھنجھنا نے لگتیں۔ وہ مسلسل باتیں کرتے جارہی تھی۔
”بہن! میرا بیٹا تو کالج میں اسلامیات کا پرو فیسر ہے۔ اس کا اوڑھنا بچھونا اسلام کے اصولوں کے عین مطابق ہے۔ “
مشاطہ نے آنکھیں پھیر کر لڑکی کی طرف دیکھا اور کہنے لگی ”ہماری بیٹی پڑھے لکھے مذہبی خاندان کی پروردہ ہے۔ ماشأاللہ! پابند صوم و صلوٰۃ ہے۔ “
”ہاں، ہاں، ہمیں بھی ایسی ہی بہو چاہیے۔ اسی لئے تو یہ مجھے پسند ہے۔ ہمارے گھر میں تو ہر فرد پانچوں وقت کا نمازی ہے اور شدید گرمی کے موسم میں بھی بلا عذر شرعی کوئی روزہ نہیں چھوڑتا۔ “
طوبیٰ گردن جھکائے پاس ہی بیٹھی تھی۔ ان کی باتیں اس کی سمجھ سے بالا تھیں۔ ابھی وہ سکول سے فارغ ہی ہوئی تھی کہ ماں نے اس کا رشتہ ڈھونڈھنا شروع کردیا تھا۔ بہن بھائیوں میں وہ سب سے بڑی تھی۔ اس کی ماں جو کم کم ہی بول رہی تھی۔ کہنے لگی، ”ہمیں آپ سب بہت اچھے لگتے ہیں۔ بس ایک ہی بات ہے کہ ابھی میری بیٹی بہت چھوٹی ہے اور اسے دنیا داری کا زیادہ سلیقہ نہیں۔ “
”کوئی بات نہیں، جب وہ میرے گھر آئے گی تو میں اسے سب کچھ سکھلا دوں گی۔ “ لڑکے کی ماں بولی۔
”ہماری پہلی بیٹی کی شادی ہے۔ ہمارے بھی ارمان ہیں۔ جہیز کپڑا لتا سب تیار کرنا ہے۔ زیورات بنوانے ہیں، ہمیں پانچ چھ مہینے تو دیں۔ “
بہن آپ کی بیٹی اب ہماری بھی بیٹی ہے۔ وہ تو تراشا ہوا ہیرا ہے، اس کی آب و تاب کو بناوٹی پن کی کوئی ضرورت نہیں۔ ویسے بھی ہمارے پاس خدا کا دیا سب کچھ ہے اور بیٹے کو تو زیورات پسند ہی نہیں۔ ”
دیکھیں بہن! میں نے اسے دین کی بنیادی تعلیمات تو دی ہیں لیکن ابھی اس کو عائلی معاملات کا اتنا علم نہیں ہے۔ اگر آپ شادی کچھ مہینے دیر سے کر لیں تو میں اسے کسی درس میں بھیج دوں تاکہ وہ ان کے بارے میں بھی کچھ سیکھ سکے۔ ”طوبیٰ کی ماں نے کہا۔
لڑکے کی ماں تو جیسے آج ہی شادی کی ساری باتیں طے کر نا چاہتی تھی، بولی
” بہن آپ شادی کی تاریخ بتائیں اور باقی باتیں بھول جائیں۔ میں سمجھتی ہوں آپ کیا کہنا چاہتی ہیں۔ ازدواجی معاملات کسی درس گاہ میں جا کر سیکھنے کی کیا ضرورت ہے، کچھ آپ بتا دینا اور باقی میں سمجھا دوں گی۔ جب ان کی شادی ہو جائے گی تو۔ “
اس نے اپنا منہ طوبیٰ کی ماں کے قریب کر لیا اور مسکراتے ہوئے آہستہ سے گویا ہوئی،
لڑکا ماشأاللہ خود بہت اچھا عالم ہے۔ سب۔ ”
” بس آپ جلدی سے ہاں کردیں۔ ہم میلاد شریف کے با برکت مہینے میں شادی کرنا چاہتے ہیں۔ “
اور پھر ربیع الاول مبارک کی بارہ تاریخ کو شادی طے پا گئی۔
مبارک دن کاچاند طلوع ہو رہا تھا جب اس کو لا کر چمیلی، گیندے اور گلاب کے پھولوں سی لدی سیج پر بٹھا دیا گیا، کمرا ان کی خوشبو اور عطریات کی مہک سے معطر تھا۔ وہ بہت حسین تو نہ تھی لیکن دیدہ زیب تھی۔ فصیح الدین اسے دیکھتے ہی بولا ”شکر خدا کا! اس نے مجھے تمہارے جیسی پیاری بیوی دی۔ تمہارے بھرے بھرے ہونٹ کسی مصنوعی رنگت کے محتاج نہیں۔ میک اپ تمہاری معصومیت کو خراب کر رہا ہے۔ “ اس نے شرما کر سر جھکا لیا۔
فجر کی نماز سے پہلے ہی وہ بستر سے اٹھ گئی۔ جب نہا کر کمرے میں واپس آئی تو اس کی درخشاں، ہموار پیشانی اور رخساروں میں جھلکتی قدرتی خون کی سرخی دیکھ کر فصیح کی دیوانگی میں مزید اضافہ ہو گیا۔
دونوں ہاتھ اس کی گردن میں حمائل کر کے کہنے لگا
”تمہاری جلد کی تازگی اور قدرتی چمک بتا رہی ہے کہ اس مصفا گردن کو مرصع ہار کی ضرورت ہے اور نہ طلائی چمپا کلی کی۔ یہ سڈول دست و بازو آرسی کنگن اور بازو بند کی آرائشوں سے بے نیاز ہیں۔ “
پہلی رات کی دلہن شرما کر گٹھری بن گئی۔
” تمہیں کسی خوشبو کی ضرورت نہیں تمہاری زلفوں کی سیاہ آبدار چادر سے قطرہ قطرہ ٹپکتا پانی اس بستر کو معنبر کررہا ہے۔ “
وہ بہت خوش تھی کہ اسے پیار کرنے والا خاوند ملا ہے۔ اگر اس کو زیورات اور میک اپ پسند نہیں تو وہ بھی اپنے خاوند کی خواہش کے مطابق خود کو ڈھال لے گئی۔
سسرال کا خاندان کافی بڑا تھا۔ وہ سب سے چھوٹی بہو تھی چار نندیں بھی بیاہی ہوئی تھیں۔ اس کی جٹھانیاں اور نندیں زیورات اور میک اپ کی شوقین تھیں۔ ساس کی باہیں بھی سونے میں ڈوبی رہتی تھیں۔ طوبیٰ نے جڑاؤ ہار اور کنگن اتار دیے تو ساس نے بولنا شروع کر دیا،
”تم نے یہ کیا حلیہ بنا لیا ہے، جمعہ جمعہ آٹھ دن ہوئے ہیں تمہاری شادی کو اور تم خالی باہیں لئے بیٹھی ہو۔ لوگ ہمیں کیا کہیں گے؟ “
”امی جی، یہ سب انہیں پسند نہیں۔ “
”لو جی آتے ہی شروع ہو گیا، انہیں پسند نہیں۔ “ باتوں چیتوں میں بڑی کرتب، بڑی جٹھانی نے مسکراتے ہوئے طنز کیا۔
” ادھر آؤ جی۔ سب دیکھو، لو سٹوری کا آغاز۔ “ طوبیٰ شرمندگی سے سر جھکائے بیٹھی رہی، بچوں نے اس کے گرد گھیراڈال لیا۔
ساس کہنے لگی، ”جاؤ اور لپ سٹک لگا کر آؤ۔ ساتھ چوڑیاں بھی پہن لینا۔ “
نئی نویلی کم سن دلہن عجیب مخمصے میں الجھ گئی۔ ابھی تو اس کے ہنسنے کھیلنے کے دن تھے۔ اسے کسی بات کا پتا نہیں تھا۔ وہ تو صرف خاوند کی خوشی میں اپنی خو شیاں ڈھونڈ رہی تھی۔ وہ جو اسے سکھا رہا تھا اسی پر عمل کر رہی تھی۔ وہ ایک ایسا کھلونا تھی جس کی چابی خاوند کے ہاتھ میں تھی۔ وہ تو اسی طرح چل رہی تھی جیسے وہ چلا رہا تھا۔ عمر کی تفاوت کی وجہ سے اس سے ہمسری نبھانا پہلے ہی دشوار ہو رہا تھا۔ فصیح الدین پختہ عادات و اطوار کا مالک روایتی مرد تھا۔
ایسا مرد جس کے لئے بیوی کی شناخت محض ایک ذاتی وجود کے حوالے سے تھی۔ سارا دن گھر سے غائب رہتا۔ ماں باپ، بہن بھائیوں اور بچوں سے بھرے گھر میں وہ بالی عمر کی لڑکی ڈری سہمی زیادہ تر اپنے کمرے میں دبکی بیٹھی رہتی۔ شوہر سے بھی صرف ایک تکلیف دہ جسمانی تعلق کے علاوہ کوئی اور ناتا نہیں بنا تھا۔ ۔ وہ حق شوہریت کو بھی صرف اپنی بہرہ یابی کے لئے استعمال کرتا تھا۔ ۔ وہ ایک بہت سمجھوتہ ساز لڑکی تھی۔ اس نے سب بخوشی قبول کرلیا۔
سارادن ساس سسر کی خدمت کرتی اور رات کوخاوند کی خواہشات کے سامنے ڈھیر ہو جاتی۔ اگر کبھی اس کی طبیعت خراب ہو تی تو پھر بھی خاوند کی خدمت میں حاضر رہتی۔ کچھ دنوں سے اسے پیشاب کا مسئلہ بن رہا تھا۔ رات اس کا پیشاب بند ہو گیا تو ساس کو بتایا۔ اس نے کچھ دوائیاں لا کر دیں اور پرہیز کرنے کا کہا لیکن یہ کیسے ممکن تھا؟ فصیح الدین کہنے لگا ”یہ کون سی ایسی خطرناک بیماری ہے۔ میں نے اپنے دوست ڈاکٹر سے آج پو چھا تھا اس نے کہا ہے کہ اکثر دلہنوں کو شادی کے کچھ دن بعدیہ شکائیت ہو جاتی ہے۔ پانی زیادہ پلاؤ۔ سب ٹھیک ہو جائے گا۔ “
اس نے پھر بھی تکلیف کا بیان کیا تو بولا ”جو عورت خاوند کی بات تسلیم نہیں کرتی وہ کبیرہ کی مرتکب ہوتی ہے اور صبح ہونے تک فرشتے اس پر لعنت کرتے رہتے ہیں۔ “
وہ تو بھلا ہوا کہ کہ اگلے دن ماں اسے لینے آ گئی۔ ساس نے ماں کی بہت آؤ بھگت کی،
” اچھا ہوا بہن تم آ گئی ہو۔ میں تو خود اسے کچھ دنوں کے لئے تمہارے پاس بھیجنا چاہتی تھی۔ یہ بیمار ہے اور میرے سمجھانے کے باوجود دونوں پرہیز نہیں کرتے۔ میکے جائے گی تو میرے بیٹے کو بھی کچھ دن آ رام کرنے کا موقع مل جائے گا۔ “
میکے میں ایک ہفتہ رہنے کے بعد واپس آ گئی۔ ان دنوں میں اس نے محسوس کیا کہ اب فصیح کے اندر اس کے لئے کشش پھربڑھ گئی ہے۔ وہ سمجھتی تھی کہ سارا دن دنیاوی اور دینی کاموں کی مشقت کے بعد اسے ایک اچھے ساتھی کے سہارے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس نے اپنے آپ کو اس کے مطابق ہی ڈھال لیا۔
تین چار ماہ ہی گزرے تھے کہ وہ حاملہ ہو گئی۔ ساس نے اسے کہا ”اب پر ہیزکرنا۔ تم ماں بننے والی ہو اور خاوند کے پاس جانے سے بچے کو نقصان بھی پہنچ سکتا ہے۔ “ سولہ سترہ سال عمر کی لڑکی پر جب ماں بننے کا حسن نچھاور ہوا تو اس کی چال ہی بدل گئی۔ بانکپن میں وہ دلفریبی اور مستی آ گئی جو اللہ نے صرف بار دار سہاگن کی قسمت میں ہی لکھی ہے۔ فصیح اس کا اور بھی دیوانا ہو گیا۔ اس کے مطلبی پن میں اب چاہت زیادہ ابھر آئی تھی۔ وہ جلدی گھر آجاتا۔ کہتا ”اب دوری بہت مشکل لگتی ہے۔ “
اس کا بھی اب دل چاہتا تھا کہ وہ اپنے میاں کے قریب ہی رہے۔
جب زچگی کے دن قریب آئے تو فصیح کی ماں نے اسے ’سوری‘ میں منتقل کردیا اور خود بھی اس کے ساتھ ہی رہنے لگ گئی۔ وہ بار بار کہتی تھی، ”خبردار! اگر اب تم خاوند کے پاس گئیں۔ “
اگر فصیح کے ہوتے کسی کام سے اپنے کمرے میں چلی جاتی تو اس خوف سے جلد از جلد واپس آنے کی کوشش کرتی کہ مبادا ڈانٹ ڈپٹ نہ سننی پڑ جائے۔ لیکن وہ اسے اس حالت میں بھی پکڑ کر اپنے پاس بٹھا لیتا اور وہی ہوتا جس سے ڈرتی تھی۔
پھر ایک رات زچگی کی دردیں شروع ہو گئیں۔ اُس گھر میں ہسپتال جانے کا رواج ہی نہیں تھا۔ دو دن تک دائی اس کے پاس بیٹھی رہی جب اسے ہسپتال لے کر گئے تو ڈاکٹر نے بہت سرزنش کی۔ چھوٹے اپریشن سے بچہ پیدا ہوا اوروہ نومولود کے ساتھ واپس سوری میں منتقل ہو گئی۔
وہ بچے کی پیدائش پر نازاں تھی اور فصیح بھی بہت خوش۔ رات زیادہ تر اس کے پاس ہی بیٹھا رہتا۔ دن کافی مشکل تھے اور راتیں اس سے بھی زیادہ۔ بچے کے رونے سے ساس کی نیند بھی خراب ہوتی اس لئے اکثر اسے جھڑکیاں بھی سننی پڑتیں۔ اپریشن بھی ابھی تنگ کر رہا تھا۔ بیس دن گزر چکے تھے۔ ایک رات بچہ دودھ پی کر ابھی سویا ہی تھا کہ اسے اپنے کمرے میں جانا پڑ گیا۔ فصیح جاگ رہا تھا اس نے اسے اپنے پاس بٹھا لیا۔ بچے کے بعد وہ پہلی بار اکیلے ملے تھے۔ جی بھر اس نے اسے پیار کیا۔ وہ خوف زدہ تھی۔ کہنے لگی
”اب مجھے جانے دیں، ماں جاگ جائے گی۔ “
لیکن وہ تو بھوکا تھا۔ اس کے پیٹ کے نچلے حصے میں اینٹھن اٹھ رہی تھی۔ کمر پر کن کھجورے رینگ رہے تھے۔ وہ پیاسا تھا اور فطری تقاضوں کا دریا کناروں کو خاطر میں نہیں لا رہا تھا۔ وہ جل رہا تھا، جذبات کی حدت سے۔ شعلے لپک کر اسے بھی اپنی لپیٹ میں لینے کی کوشش کر رہے تھے۔
طوبیٰ نے خود کو اس سے علیحدہ کرنے کی کوشش کی۔ ”سنبھلیں! ابھی یہ ممکن نہیں۔ “
”کیوں؟ “ وہ غصے سے چلایا۔
ابھی تو سارے زخم نہیں بھرے۔ میرے جسم پر لگے کچھ ٹانکے ابھی بھی موجود ہیں۔ مجھے تو بیٹھنے سے بھی تکلیف ہوتی ہے۔ ”
”میں کسی اور کے پاس چلا جاؤں؟ مجھے کیوں مجبور کر رہی ہو؟ میں روز تمہیں اشاروں سے بلاتا ہوں اور اگر آج تم آ ہی گئی ہو تو مجھے منع کر رہی ہو۔ “
”لیکن یہ شرعی طور پر بھی جائز نہیں ہے۔ “
”تو کیا؟
اب تم مجھے شریعت سکھاؤ گی۔ ”
اس نے اسے دھکا دے کر بیڈ پر گرا دیا۔
”بڑی آئی ہے شریعت پر عمل کرنے والی۔ خبر دار اگر اب کوئی بات کی تو۔ “
وہ درد برداشت کر رہی تھی لیکن یوں لگ رہا تھا کہ اس کے نازک بدن کو تیز دھار آلے سے چیرا جا رہا ہے۔ اور پھر خون۔ چادر پر ہر طرف خون ہی خون تھا۔
وہ درد سے کراہ رہی تھی۔ کہ بچے کے رونے کی آواز نے اسے ہلا کر رکھ دیا۔ ساتھ ہی ماں کے چلانے کی آواز بھی آ رہی تھی۔ بڑی مشکل سے اس نے خود کو سنبھالا۔ فصیح نے بھی اسے ڈانٹنا شروع کر دیا۔ ”جلدی کرو۔ جاؤ، جا کر بچے کو پکڑو۔ “ وہ گرتی پڑتی سوری میں پہنچی۔ خون سے سرخ شلوا ردیکھ کر ساس غصے سے چلا اٹھی،
”حرام زادی، چھنال! بیمار کرے گی، میرے بیٹے کو؟
ان دنوں میں اس کے ساتھ چمٹی پڑی ہے۔ ابھی کل بچے کو جنم دیا ہے، آج پھر تیری آگ بھڑک اٹھی ہے۔ ”