مجھ پر کئی سالوں بلکہ کئی دہائیوں کے تجربے ، مشاہدے، مطالعے اور تجزیے کے بعد زندگی کا یہ راز منکشف ہوا کہ دنیا کا ہر کلچر ایک عینک ہے اور ہر زبان بھی ایک عینک۔ ہر مذہب ایک عینک ہے اور ہر روایت بھی ایک عینک۔ انسانی شعور کے ارتقا کے سفر میں ہر عہد اور ہر دور ،ہر ملک اور ہر معاشرے کے انسان زندگی کو دیکھنے، سمجھنے اور برتنے کے لیے یہ عینکیں بناتے آئے ہیں۔
جب کوئی بچہ کسی خاندان میں پیدا ہوتا ہے اور کسی معاشرے میں تربیت پاتا ہے تو اس کے والدین اور اساتذہ اسے ایک عینک پہنا دیتے ہیں اور وہ بچہ لاشعوری طور پر زندگی کو اس عینک سے دیکھنے لگتا ہے۔ آہستہ آہستہ وہ بچہ اپنے نقطہِ نطر کو سچ بلکہ اکثر اوقات حتمی سچ سمجھنے لگتا ہے۔ نفسیات کی زبان میں ہم اس عمل کو conditioning کہتے ہیں۔
جب بچہ جوان ہوتا ہے اور اس کا تنقیدی شعور بیدار ہوتا ہے تو اسے احساس ہوتا ہے کہ زندگی عینکوں کی ایک بہت بڑی دکان ہے جہاں مختلف رنگوں اور نظریوں کی عینکیں دستیاب ہیں۔ اسے یہ بھی عرفان حاصل ہوتا ہے کہ وہ اپنی پیدائشی عینک اتار کر ایک اور عینک بھی پہن سکتا ہے۔ بدقسمتی سے دنیا کی اکثریت اپنی بچپن کی عینک کبھی نہیں اتارتی اور بڑھاپے میں بھی وہی عینک استعمال کرتی ہے جو وہ بچپن میں استعمال کر رہی ہوتی ہے۔
اکثر اوقات بہت سے لوگ بچپن کی عینک پہنے فوت بھی ہو جاتے ہیں۔ اسی لیے ساری عمر عیسائیوں کے بچے عیسائی ،یہودیوں کے بچے یہودی، مسلمانوں کے بچے مسلمان اور ہندوؤں کے بچے ہندو ہی رہتے ہیں۔ دنیا کے نجانے کتنے لوگ ایک سے زیادہ زبانیں نہیں سیکھتے اور اگر سیکھتے بھی ہیں تو زبان کے اندر چھپی عینک پر غور و خوض نہیں کرتے۔
میں نے جب اردو سیکھی تو مجھے اندازہ ہوا کہ اردو زبان نے پدرسری روایت کی عینک لگا رکھی ہے اس لیے اگر کوئی عورت بہادری کا کام کرتی ہے تو اردو زبان اسے کہتی ہے کہ تم نے زندگی کا مردانہ وار مقابلہ کیا۔
میں نے جب انگریزی زبان کی نفسیات پر غور کیا تو مجھے اندازہ ہوا کہ انگریزی زبان کالوں کے بارے میں تعصب کی عینک پہنے ہوئے ہے اسی لیے ہر بری چیز کو کالا بنا دیتی ہے جیسے
black list، black sheep and black market۔
میں نے جب مختلف قوموں کی تاریخ اور کلچر پر غور کیا تو مجھے اندازہ ہوا کہ ہر کلچر میں جو لوگ اکثریت میں تھے اور صاحبِ اختیار تھے انہوں نے ایسی عینک بنائی جس سے اکثریت کو اقلیئت سے بہتر سوچا اور سمجھا گیا۔ اس طرح اکثریت کے لوگوں میں احساسِ برتری اور اقلیت کے لوگوں میں احساسِ کمتری پیدا ہونا شروع ہو گیا اور اس احساس کا اظہار ان کی زبان ،مذہب اور کلچر کی عینک میں ہوا۔
دلچسپی کی بات یہ ہے کہ مختلف ریاستوں اور ثقافتوں کے لوگ خدا کو بھی اپنی مخصوص عینک سے دیکھتے رہے۔ اسی لیے کسی کلچر میں خدا عورت ہے کسی میں مرد۔ کہیں بہت سے دیوتا ہیں اور کہیں بہت سی دیویاں۔ جہاں کلچر مادر سری تھا وہاں مادری زبان اور دھرتی ماں کا ذکر آیا اور جہاں کلچر پدرسری تھا وہاں خدا ایک heavenly father بن گیا۔
انسانی ارتقا میں جب انسانوں کو کسی کلچر ،مذہب اور زبان کی متعصب عینک کا احساس ہوا تو اس قوم اور کلچر کے شاعروں، ادیبوں اور دانشوروں نے بہتر عینک بنانے کی کوشش کی اور ایک منصفانہ نطام کا نقشہ پیش کیا ایسا نظام جس میں اقلیت کو بھی اکثریت کے برابر حقوق اور مراعات ملیں۔
کارل مارکس اور ماؤ زے تنگ جیسے سیاسی رہنماؤں نے کسانوں اور مزدوروں کے حقوق کے لیے جدوجہد کی، سیمون دی بوثوا اور بیٹی فریڈین جیسی فیمنسٹ دانشوروں نے عورتوں کے حقوق کے لیے کوشش کی اور مارٹن لوتھر کنگ ،ڈیزمنڈ ٹوٹو اور نیلسن منڈیلا نے کالوں کے حقوق کے لیے قربانیاں دیں۔
انسانی ارتقا میں ایک وہ دور بھی آیا جب انسانوں نے انسان دوستی کی عینک تخلیق کی۔ جب ہم زندگی کو اس عینک سے دیکھتے ہیں تو ہم رنگ ،نسل، مذہب اور زبان سے بالاتر ہو کر سب انسانوں کو پہلے انسان سمجھتے ہیں پھر کچھ اور۔ اس عینک سے us and them کا تضاد ختم ہو جاتا ہے اور ہمیں اپنے دشمن بھی دور کے رشتہ دار دکھائی دیتے ہیں اور ہمیں یہ یقین ہو جاتا ہے کہ ہم سب دھرتی ماں کے بچے ہیں۔
انسان دوستی کی اس عینک کو جب اقوامِ متحدہ نے اپنایا تو اس نے نصف صدی پہلے انسانی حقوق کی قرارداد پیش کی تا کہ ساری دنیا کے سیاسی ،مذہبی اور سماجی رہنما اس قرار داد کی روشنی میں نئے قوانین بنائیں اور نئی روایتیں اپنائیں۔ اس قرارداد کے بعد دنیا میں کئی انسانی حقوق کے ادارے ایسے بنے ہیں جو ساری دنیا کے ممالک کے اعمال اور کردار کا تنقیدی اور معروضی جائزہ لیتے ہیں اور ہر سال رپورٹ تیار کرتے ہیں۔
اگر ہم انسانی حقوق کی مختلف بین الاقوامی تنظیموں کی رپورٹیں پڑھیں تو ہمیں اندازہ ہوگا کہ اس فہرست میں جن ممالک کے نام سرِ فہرست ہیں ان میں نیوزی لینڈ ،آسٹریلیا، ناورے ،ڈنمارک، سویڈن اور کینیڈا شامل ہیں۔ بدقسمتی سے بہت سے افریقی اور مشرقِ وسطیٰ کے ممالک بہت نیچے ہیں۔ جب ہم مسلمان ممالک میں انسانی حقوق کی روایت دیکھتے ہیں تو ہمیں احساسِ ندامت گھیر لیتا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ بہت سے مسلمان آج بھی زندگی کو انسان دوستی کی عینک سے دیکھنے کی بجائے رنگ ،نسل، مذہب اور زبان کی عینک سے دیکھتے ہیں۔
اگر مسلمان ممالک نے دنیا میں ترقی کرنی ہے اور ارتقا کے سفر میں مہذب قوموں کے قدم کے ساتھ قدم ملا کر چلنا ہے تو ان کے عوام اور خواص کو اپنی عینک پر نظرِ ثانی کرنی پڑے گی اور یہ سوچنا پڑے گا کہ ہم اپنے کالجوں اور یونیورسٹیوں میں اپنی نئی نسل کو کس عینک سے دیکھنا سکھا رہے ہیں۔ نئی نسل کو انسان دوستی کی عینک سے زندگی دکھانے کے لیے ضروری ہے کہ اس قوم میں ایسے والدیں اور اساتذہ ،دانشور اور سیاسی لیڈر موجود ہوں جو خود بھی زندگی کو انسان دوستی کی عینک سے دیکھتے ہوں اور نئی نسل کے لیے مستند اور معتبر، معزز اور محترم رول ماڈل بھی ہوں۔