بلوچستان میں کرپشن نہیں، شور مچانا جرم ہے

جب آپ کا قلم کاغذ کا سامنا کرنے سے شرماتا ہو اور لکھنے سے شرمسار ہو لیکن کرپٹ نظام جس کے متعلق آپ بار باراپنے قلم کو لکھنے پر مجبور کررہے ہوں لیکن کرپٹ مافیاز کو اس کا احساس تک نہ ہو تب بات شرمندگی اور بے حیائی کی سی کیفیت اختیار کر لیتی ہے اور لمحے بھرخوف سے بھرا گماں گزرتا ہے کہ کرپشن کرنے والوں کی یہ بے خوفی دراصل اس بات کی غمازی ہے کہ یہ ریاستی ملازم نہیں بلکہ ریاستی ملازمین کی آڑ میں بہروپئے اور چور نظام کے اندر گھس آئے ہیں اور ان کے اپنے مشترک مفادات ہیں اور ایک دوسرے کے تحفظ کو اپنی مجبوری سمجھتے ہیں۔ یہ مافیا نہ ہی ریاستی قوانین سے کوئی شرمندگی کا احساس کرتے ہیں اور نہ ہی ان کی دلوں میں قانون کا خوف ہے ہاں البتہ اگر خوف ہے بھی تومعاشرے میں موجود ان لوگوں کے دلوں میں جو ایسے لوگوں کے کرتوں کو بے نقاب کر رہے ہیں۔
کیونکہ کیا معلوم رات گئے کون سی حکومتی مسلح گاڑیاں آپ کے گھر کو حصار میں لیں آپ کو خاموش کرانے کے لیے۔ ریاست کے عوام کے دفاع اور پرسکون زندگی کے لیے خریدے گئے آلات اور وسائل جن کا مقصد چوروں ڈاکوؤں سماج دشمن عناصر کی سرکوبی کرنا ہے آپ کے خلاف چوروں کے تحفظ کے بہتر مفاد میں استعمال ہو کیونکہ یہاں کرپشن جرم نہیں بلکہ کرپشن کے خلاف نعرہ بہ آواز بلند لگانا جرم ہے۔ یہاں چور کے بجائے چوری کی صدایں لگانے اورلاقونیت کی اس ماحول میں قانون کی عملداری کو یقینی بنانے کا مطالبہ کرنے والے محلہ داروں کو خاموش کرنے کے لئے استعمال کیے جارہے ہیں۔
لاک ڈاون کی وجہ سے زیادہ تر وقت گھر پر گزر رہا ہے۔ کوئٹہ شہر میں لاک ڈاون ہے۔ ڈاکٹرز کی نصیحت پر عمل کرتے ہوئے آنے جانے سے تقریبا پرہیز کر رہا ہوں جس کی وجہ سے سوچنے اور لکھنے کا ٹائم بھی کچھ زیادہ ہی ہے۔ حکمرانوں کے اقدامات اور اعلانات اور پھر ان پر عملدرآمد کو بھی ٹی وی، اخبارات میں دیکھ اور پرکھ رہا ہوں۔ جمعہ کے روز حکومت بلوچستان نے ایک نوٹفیکشن کرکے چودہ اضلاع کے ڈپٹی کمشنرز کو ایسے وقت میں تبدیل کردیا ہے جب پورے صوبے میں لاک ڈاون ہے اور یہ تمام ڈپٹی کمشنرز اپنے اضلاع میں کوررونا وائرس کے بعد کی صورتحال دیکھنے کی ذمہ داریاں ادا کررہے تھے کہ ایک دم سے اہم ترین پوسٹوں سے افسران کے نامعلوم قسم کے تبادلے نامعلوم طرز پر کر دیے ہیں۔
جس کا ماضی کے حکومتی دفتری معاملات کے تبادلوں کی طرح کوئی پرپوزل بھی نہیں تھا اور نہ ہی کوئی توقع کی جارہی تھی کہ اس طرح کی ہنگامی صورتحال میں یہ تبادلے کر دیے جائیں گے لیکن یہ کر دیے گئے ہیں یہی نہیں دو سکریٹریز کو بھی تبدیل گیا اورتقریبا گریڈ 20 کے 25 آفسیران کی بحشیت افسر بکار سرکارخاص ہونے کے باجود سکریٹری لائیواسٹاک جس کے پاس اپنے محکمے کا چارج ہونے کے ساتھ ساتھ وزیراعلی بلوچستان کے خاص حکم پر کورونا کی صورتحال چیک کرنے کے لئے نصیر آباد ڈویژن کے دورے پر بھی ہے کو سکریڑی فوڈ کا اضافی چارج دیا گیا ہے میں اس دوران سیلیکٹڈ حکومتی ٹیم کو بھی ڈھونڈنے کی کوشش کر رہا ہوں۔
مختلف ایریاز کے چند لوگوں سے حکومتی منسٹرز، مشیران کرام، سپیشل اسسٹنٹس کے متعلق پوچھا۔ جنہیں اشرافی طبقہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا۔ جسے اٹھارویں ترمیم سے بچنے کے لیے عہدوں کے مختلف نام رکھ کر تشکیل دیا گیا تھا کہ اس مصیبت کی گھڑی میں ان کی اپنے علاقے میں کیا ایکٹیوٹی ہے۔ وہ معاشی طور پر کمزور طبقات کی کس طرح مدد کر رہے ہیں۔ لوگوں میں اس مصیبت سے آگاہی کے لیے کیا پروگرام ترتیب دیے ہیں۔ یقین جانیے بارکھان سے چمن، جعفرآباد سے ژوب اور بیلہ سے تربت تک باوجود کوشش کے سب گمشدہ نکلے۔
ہاں البتہ وزیراعلی صاحب کی آنیاں جانیاں دکھائی دیں اب وہ موثر تھیں یا غیر موثر، یہ آنے والے دن ہی بتائیں گے۔ مگر بقیہ حکومتی بریگیڈ لاپتہ نکلی۔ پنجاب، سندھ اور کے پی کے میں بہت سے لوگ غریبوں کی امداد کے لیے نکلے ہیں اور اپنی حتی المقدور کوشش کر رہے ہیں لیکن یہاں جنہیں فرنٹ پر ہونا چاہیے تھا وہ تو کہیں اپنے گھروں میں خودساختہ آئسولیشن میں چلے گئے ہیں۔ عام لوگوں کا کہنا تھا کہ جب حکومتی امداد کی تقسیم کا وقت آئے گا تو پھر چودھری بننے کے لیے یہ سب اپنے اپنے محلوں سے اچانک نمودار ہو جائیں گے اور امداد کا کچھ حصہ خیرات کے طور پر تقسیم ہو گا۔ چند غریبوں پر احسان کیا جائے گا ان کی انا اور خود داری کا سودا ہو گا۔ جبکہ امداد کا زیادہ تر حصہ مال غنیمت تصور ہو گا۔
حکومت کا چال چلن جاننے والے تو یہ تک کہہ رہے تھے کہ پورے صوبے میں لاک ڈاون ہے۔ نقل و حرکت محدود ہے لیکن مجال ہے جو سرکاری ڈیزل، پٹرول کی کھپت میں کوئی کمی ہو۔ کہنے والوں کی زبان اور سوچ کو تو کوئی نہیں روک سکتا۔ اس حکومت کے جس قدر اخراجات ہیں وہ اس کا ادھا بھی بظاہر تو ڈیلور ہوتا ہوا نظر نہیں آرہا ہے اب ضرورت ہے کہ یہاں ہر چوراہے پر بورڈز آویزان کیے جائیں کہ رکئے، آپ بلوچستان میں داخل ہو چکے ہیں یہاں کرپشن نہیں، شور مچانا جرم ہے۔