کیا وہ لڑکی جھوٹی تھی؟

اس دن موسم کچھ سرد تھا۔ ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی۔ آسمان پر گہرا ابر تھا۔ میں ہفت روزہ ”لیل و نہار“ کے چیف ایڈیٹر اسد صاحب کے آفس میں بیٹھا تھا۔ در اصل میں ’لیل ونہار‘ کے ادبی صفحے کا انچارج تھا۔ اسی حوالے سے وہاں میری حاضری ہوتی تھی۔ ابھی مجھے وہاں بیٹھے چند منٹ ہی گزرے ہوں گے کہ ہوا کا ایک جھونکا آیا۔ یہ ٹھنڈی ہوا کا جھونکا نہیں تھا۔ یہ خوشبو سے بھرا ایک جھونکا تھا جب کہ آفس کی کھڑکیاں اور دروازے بند تھے۔ یقیناً آپ سمجھ گئے ہوں گے یہ اس بادِ نسیم کا جھونکا تھا جو کسی حور شمائل کے بدن کو چھو کر آتی ہے۔
وہ اسد صاحب کی اجازت سے اندر آئی تھی لیکن میں ایک فائل میں اس قدر مگن تھا کہ مجھے اس کی آمد کا اس وقت پتا چلا جب کمرا مہک اٹھا۔ میں نے نگاہیں اوپر اٹھائیں تو ایک لحظے کے لیے فضا پر سکوت طاری ہو گیا۔ وہ کچھ بول رہی تھی لیکن مجھے الفاظ سمجھ نہیں آ رہے تھے۔ لگتا تھا دستِ قدرت نے اسے بڑی فرصت سے بنایا ہے۔ ترشا ہوا مرمریں بدن اور انتہائی دل کش چہرہ جس کی طرف دیکھنے کے بعد دنیا کی کسی چیز میں حسن نظر نہ آئے۔
شاید آپ یہ سوچ رہے ہوں گے کہ میں اس کی خوب صورتی بیان کرنے میں مبالغہ آرائی سے کام لے رہا ہوں لیکن آپ کا اندازہ صحیح نہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ میں نے کچھ بیان ہی نہیں کیا۔ میرے پاس تو الفاظ ہی نہیں ہیں جو اس کے حسن کا احاطہ کر سکیں۔ میں کہاں سے وہ نادر تشبیہات اور استعارات لاؤں جو سراپا نگاری کا حق ادا کر سکیں۔
ان دونوں کی گفتگو میں میرا نام آیا تو میں چونک اٹھا۔ میرے کانوں میں اس لڑکی کی آواز گونجی۔
”میں نے آپ سے کہا تھا کہ مجھے وصی صاحب سے ملنا ہے“
”تو میں نے آپ کو جواب دے دیا ہے کہ مل لیجیے، مجھے کیا اعتراض ہو سکتا ہے“۔ اسد صاحب نے بیزاری سے کہا۔
”یہ کیسا جواب ہے۔ مجھے کیا معلوم کہ وہ کہاں ہیں۔ آپ رہنمائی فرما دیں“۔ وہ بولی۔
”تو یوں کہیے ناں، یہ سامنے ہی تو بیٹھے ہیں۔ وصی صاحب آپ بتاتے کیوں نہیں۔ “ اسد صاحب نے میری طرف رخ کیا۔
”جی میں بتانے ہی والا تھا“ میں نے معذرت خواہانہ لہجے میں کہا۔
لڑکی میری طرف متوجہ ہوئی۔ اس کی نگاہیں عقیدت بھری تھیں۔
”آپ ہی وصی ہیں ناں؟ “ اس کا انداز سوالیہ تھا۔
”کوئی شک؟ “ میں نے بھی سوال کیا۔
”جی نہیں“ وہ مسکرا اٹھی۔
”بیٹھیے ناں، کہیے کیسے آنا ہوا؟ “
ہم نے کسی کو دل کا جو مہماں بنا لیا
کچھ اور اپنا حال پریشاں بنا لیا
اس نے بیٹھتے ہی شعر سنا دیا۔
”یہ آپ ہی کا شعر ہے، آپ کی تازہ غزل جو ادبی رسالے میں گزشتہ ہفتے چھپی ہے اس میں شامل تھا“۔ وہ بولی۔
”بہت خوب میرے بارے میں شاید آپ کافی معلومات رکھتی ہیں لیکن میرا چہرہ آپ پہچان نہیں پائیں“۔
”جانے دیجیے، کئی مہینوں سے آپ کے تعاقب میں ہوں۔ اس دوران جہاں جہاں آپ کا کلام چھپا ہے وہ سب اخبارات و رسائل میرے پاس محفوظ ہیں۔ مسئلہ بس یہ ہے کہ کسی میں آپ کی تصویر نہیں چھپی تھی ورنہ ایک لمحے میں پہچان لیتی“۔
”اچھا چھوڑیں اس بات کو، بتائیے میں کی کیا مدد کر سکتا ہوں؟ “
”کمال کرتے ہیں آپ بھی“ وہ مسکرائی۔ ”مجھے آپ سے کوئی کام نہیں ہے۔ میں تو آپ سے ملنا چاہتی تھی، آپ کو دیکھنا چاہتی تھی۔ آپ کو پتا بھی ہے کہ میں آپ کی فین نمبر ون ہوں“۔
”سن کر بہت اچھا لگا“۔ حقیقت بھی یہی تھی کہ دل مسرت سے لب ریز ہو رہا تھا۔ اگر ایک انتہائی دل کش لڑکی آپ سے اس قدر عقیدت کا اظہار کر رہی ہو تو یقیناً بے پایاں مسرت ہوتی ہے۔ اس کے بعد باتوں کا ایک سلسلہ شروع ہوا۔ باتوں کے دوران میں نے اسد صاحب کی طرف دیکھا تو ان کے چہرے پر بیزاری کے تاثرات بڑے نمایاں تھے۔ شاید اسی لیے انہوں نے چائے منگا لی کہ چائے پی کر وہ لڑکی چلی جائے گی مگر ان کا خیال غلط تھا۔ اس لڑکی کا ابھی رخصت ہونے کا ارادہ معلوم نہیں ہوتا تھا۔
میں نے آپ کو اس کا نام تو بتایا ہی نہیں۔ اس لڑکی کا نام آبگینہ تھا۔ اس سے پہلے کہ اسد صاحب کچھ کہتے میں نے خود ہی آبگینہ سے کہا کہ مجھے آج بہت کام کرنا ہے تو کیوں ناں میرے کیبن میں چل کر بیٹھیں۔ یہاں چیف ایڈیٹر صاحب بھی ڈسٹرب ہو رہے ہیں۔ وہاں بیٹھ کر میں ساتھ ساتھ کچھ کام بھی نبٹا لوں گا۔ اسے بھلا کیا اعتراض ہو سکتا تھا۔ وہ میرے کیبن میں آ کر بیٹھی تو میں نے اطمینان کی سانس لی۔ کیوں کہ اب کھل کر بات کی جا سکتی تھی۔
حقیقت یہ تھی میرا بھی دل نہیں چاہتا تھا کہ یہ ملاقات فوراً ختم ہو جائے۔ وہ میرے بارے میں بہت کچھ جانتی تھی۔ اسے ہر بات تاریخوں کے ساتھ یاد تھی۔ میں کس دن کہاں مشاعرے میں شریک ہوا اور اس میں کون سی غزل پڑھی۔ کس دن میری کوئی تحریر کس رسالے میں چھپی۔ ایک انٹرویو بھی بغیر تصویر کے چھپا تھا۔ اس میں، میں نے جو باتیں کی تھیں اسے لفظ بہ لفظ یاد تھیں۔
بہرحال ملاقات ختم ہوئی تو میں اسے رخصت کرنے کے لیے باہر تک آیا۔ یہ نوے کی دہائی تھی اور باہر سڑک پر اس کی نئے ماڈل کی ٹویوٹا کرولا کار کھڑی تھی۔ جیسے ہی اس کے ڈرائیور نے ہمیں دیکھا وہ فوراً گاڑی سے باہر نکلا اور بڑے احترام سے گاڑی کا دروازہ کھولا۔ آبگینہ نے مجھے خدا حافظ کہا اور گاڑی میں بیٹھ گئی۔ گاڑی روانہ ہوئی اور میں واپس دفتر میں آیا تو اسد صاحب کی بیزاری کچھ کم ہو چکی تھی۔
”یار وصی ابھی تو ایک ہے۔ اگر یہاں تمہاری کچھ اور فینز بھی آنے لگیں تو تم انہیں چائے کافی پلانے جوگے ہی رہ جاؤ گے۔ میرے تو کام سے گئے“۔ اسد صاحب نے سگریٹ سلگاتے ہوئے کہا۔
”اجی چھوڑیے اسد صاحب! آپ بہار کی آمد پر منہ بنا رہے ہیں۔ دیکھا نہیں کیسے آپ کا دفتر مہک رہا تھا اور آپ اسے پھر بدبو دار بنانے پر تلے ہیں“۔ میں نے شوخ لہجے میں کہا۔
”تو آؤ تم بھی اس کارِ خیر میں شامل ہو جاؤ“۔ اسد صاحب نے برا مانے بغیر پیکٹ میری طرف بڑھا دیا۔
میں یہ نہیں کہہ رہا کہ مجھے اس سے پہلی نظر میں محبت ہو گئی تھی۔ میں یہ بھی نہیں کہہ رہا کہ مجھے اس سے محبت نہیں ہوئی تھی۔ بس کچھ تھا۔ جسے میں خود بھی نہیں سمجھ پا رہا تھا۔ وہ ایک زمیندار کی بیٹی تھی۔ ان دنوں موبائل فون بھی نہیں تھے۔ آبگینہ نے آیندہ ہفتے ملنے کا وعدہ لیا تھا۔ پھر ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ ہم باہر بھی ملنے لگے تھے۔ اب ہم میں خاصی بے تکلفی پیدا ہو چکی تھی۔ ایک کافی ہاؤس میں ملاقات کے دوران میں اچانک آبگینہ بے حد سنجیدہ ہو گئی۔
”وصی آخر آپ وہ بات کہتے کیوں نہیں جسے سننے کے لیے میرے کان ترس رہے ہیں“۔ اس نے کافی کا کپ میز پر رکھتے ہوئے کہا۔
”کیا مطلب“؟ میں چونک اٹھا۔
”کیا یہ بھی میں ہی بتاؤں گی؟ آپ نہیں جانتے کیا؟ “ اس نے منہ بنایا۔
”شاید میں ڈرتا ہوں۔ ایک طلسم ہے یا خواب ہے۔ میں اس خواب سے بیدار ہونا نہیں چاہتا۔ مجھے ایسا لگتا ہے کہ میں نے کچھ کہا تو طلسم ٹوٹ جائے گا۔ اس لیے خاموش رہتا ہوں“۔ چند لمحوں کی خاموشی کے بعد میرے منہ سے یہ الفاظ نکلے۔
”کبھی کبھی آپ کی باتیں مجھے بالکل سمجھ نہیں آتیں۔ میرا مسئلہ یہ ہے کہ مجھے اپنا نام بالکل اچھا نہیں لگتا“۔ وہ بولی۔
”اور تمہاری باتیں جیسے بہت آسان ہیں۔ ہم کیا بات کر رہے تھے تم نے کوئی اور قصہ چھیڑ دیا“
”اچھا بتائیے یہ میرا نام جو آبگینہ چودھری ہے۔ کیا اچھا لگتا ہے آپ کو؟ “ اس نے میری بات کو نظر انداز کرتے ہوئے سوال کیا۔
”اچھا؟ میرا مطلب ہے کوئی برائی بھی نہیں ہے“۔
”مجھے آپ پر اس وقت بہت غصہ آ رہا ہے۔ زہر لگ رہے ہیں آپ مجھے“۔ اس نے منہ بنا کر کہا۔ مگر لہجہ اس کے الفاظ کی نفی کر رہا تھا۔
”اچھا بتاتا ہوں، مجھے تمہارا نام بالکل بھی اچھا نہیں لگتا۔ بھلا یہ بھی کوئی نام ہے۔ ویسے نام میں کیا رکھا ہے۔ ’رنگ پیراہن کا، خوش بو زلف لہرانے کا نام‘ ۔ میں کچھ بے ربط جملے بول رہا تھا۔
”اب فیض صاحب کو بیچ میں نہ لائیے۔ ہماری بات ہو رہی ہے۔ “
”ہاں تو تمہارا نام بدل دیتے ہیں۔ کیا نام رکھوں؟ “ میں نے سوچنے کی کوشش کی۔
”آبگینہ وصی کیسا رہے گا“۔ اس نے دھیرے کہا۔
میں ایک دم چونک اٹھا۔ میں تو کچھ بھی نہ کہہ سکا تھا اور اس نے کس خوبی سے اپنے دل کی بات کہہ دی تھی۔
”واقعی بہت اچھا لگے گا“۔ میں نے اس کے چہرے پر نگاہ ڈالتے ہوئے کہا جو تمتما رہا تھا۔
”کتنا اچھا لگے گا ناں جب میں کسی کو بتاؤں گی کہ میں آبگینہ وصی ہوں۔ بس اب انتظار نہیں ہوتا۔ میں تو روز اپنے کمرے میں بیٹھی گھنٹوں سوچتی رہتی ہوں کہ کب آپ مجھے اپنے گھر لے جائیں گے۔ ویسے تو کب سے آپ کی ہو چکی ہوں لیکن کچھ اخلاقی، مذہبی اور قانونی تقاضے بھی تو ہوتے ہیں۔ آپ اپنے والدین کو میرے گھر کب بھیجیں گے مجھے مانگنے کے لیے۔ “
شاید یہی وہ لمحہ تھا میں جس سے ڈرتا تھا۔ خوشی کے بجائے میرے چہرے پر تفکرات ابھر آئے۔ آبگینہ نے حیرت سے میری طرف دیکھا۔
”آپ پریشان کیوں ہیں؟ کوئی مسئلہ ہے کیا؟ “
”آبگینہ تم ایک بڑے زمیندار کی بیٹی ہو، ایک بڑی حویلی میں رہتی ہو اور میں ایک شاعر ہوں۔ میرے پاس اس دولت کا عشر عشیر بھی نہیں جو تمہارے ابا جان کے پاس ہے۔ میرے پاس تو اپنا گھر بھی نہیں ہے، میں کرائے کے مکان میں رہتا ہوں۔ میں نے اگر اپنے والدین کو تمہارے گھر بھیجا تو تمہارے ابا فوراً انکار کر دیں گے“۔
”کیسے انکار کر دیں گے۔ میں ہوں ناں۔ میں امی سے پہلے بات کر لوں گی۔ میں لاڈلی ہوں سب کی۔ میری بات رد نہیں کریں گے اور ابھی گزشتہ برس ہی میرے تایا کے بیٹے نے محبت کی شادی کی ہے۔ کسی نے برا نہیں منایا (مانا) تو پھر میرے لیے کیوں انکار کریں گے۔ اور پھر آپ خود کو دولت کے ترازو میں کیوں تول رہے ہیں۔ آپ ایک شاعر ہیں، دانشور ہیں، آپ کا مرتبہ ان سے کہیں بلند ہیں، ان کے پاس تو صرف پیسا ہے اور کچھ نہیں، بس آپ نے فیصلہ کرنا ہے کہ آپ کے امی ابو کب ہمارے گھر آئیں گے“۔ اس نے پر اعتماد لہجے میں کہا۔
اس کی بات سے مجھے حوصلہ ہوا اس کے باوجود میرا دل کہہ رہا تھا کہ یہ اتنی آسان بات نہیں ہے۔ میرا دل کسی ان جانے خوف سے کپکپا رہا تھا۔
”میں تو آج ہی بات کرنے کے لیے تیار ہوں“۔ میں نے کہا۔
”بس تو پھر ٹھیک ہے۔ میں بھی اپنی امی سے بات کر لوں گی، پھر کل شام کو بات ہو گی“۔ آبگینہ کی آنکھیں چمک رہی تھیں۔
میں گھر آیا تو خاصا پریشان تھا۔ بالآخر میں نے امی سے بات کی۔ ساری بات بتائی۔ وہ پہلے تو خاموشی سے سنتی رہیں پھر بولیں۔
”بیٹے میں تمہارا دل تو نہیں توڑنا چاہتی لیکن میرا اندازہ یہی ہے کہ وہ لوگ نہیں مانیں گے۔ ہمارا گھرانا ان کے خاندان سے مالی لحاظ سے بہت کم تر ہے۔ وہ اپنی بیٹی کی شادی کسی امیر اور بڑے خاندان میں کریں گے“۔
”امی آپ پہلے ہی مایوسی کی باتیں نہ کریں، ایک بار ان کے گھر تو جائیں“۔
”اچھا میں تمہارے ابو سے بات کرتی ہوں“۔
میں اپنے کمرے میں چلا گیا لیکن دل نہیں لگ رہا تھا۔ پھر سوچا کسی سے مشورہ کرنا چاہیے۔ میں نے موٹرسائیکل کو کک لگائی اور سیدھا اسد صاحب کے گھر پہنچ گیا۔ وہ ڈنر کر رہے تھے۔ مجھے دیکھ کر خوش ہو گئے۔
”اچھا ہوا تم آ گئے۔ آیندہ شمارے کے حوالے سے کچھ باتیں کرنی تھیں۔ پہلے بتاؤ کھانا کھا لیا ہے؟ نہیں کھایا تو پہلے کھانا کھا لو پھر بات کریں گے“۔
”جی نہیں، مجھے مطلق بھوک نہیں ہے، آپ بات کیجیے“۔ میں نے فوراً کہا۔
وہ چونک اٹھے۔ ”کیا بات ہے تم کچھ پریشان لگ رہے ہو“؟
”کچھ نہیں، میں بھی آپ سے ایک مشورہ کرنے آیا تھا“۔
”اچھا میں چائے بنواتا ہوں، تم پہلے اپنی بات کرو۔ میری باتیں تو ہوتی رہیں گی“۔
میں نے انہیں مختصر قصہ سنایا اور پوچھا کہ کیا کرنا چاہیے۔ وہ پوری بات سننے کے بعد کچھ دیر خاموش رہے پھر بولے۔
”بھئی جب لڑکی خود کہہ رہی ہے کہ اپنے والدین کو بھیجو تو بھیج دو۔ تمہیں اس سے محبت ہے تو پھر دیر کس بات کی“؟
شاید میں خود بھی یہی سننا چاہتا تھا۔ اس لیے مجھے ان کا مشورہ اچھا لگا۔ خود میرے لیے بھی آبگینہ کے بغیر اب ایک پل رہنا بھی مشکل تھا۔ میں گھر واپس آ گیا۔ امی نے ابو سے بات کر لی تھی اور انہیں منا لیا تھا کہ وہ رشتے کی بات کرنے جائیں۔
اب مجھے آبگینہ سے ملنے کا شدت سے انتظار تھا کہ اس سے ملوں اور اسے سب کچھ بتاؤں۔ اس کا پی ٹی سی ایل کا نمبر تو میرے پاس تھا لیکن میں خود مل کر سب کچھ بتانا چاہتا تھا اور اس سے پوچھنا چاہتا تھا۔
مقررہ وقت پر میں طے شدہ ریسٹورنٹ میں پہنچ گیا۔ وقت گزرتا گیا لیکن وہ نہیں آئی تھی۔ میرے دل میں طرح طرح کے وسوسے آ رہے تھے۔ دل تیزی سے دھڑک رہا تھا۔ کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کیا کروں۔ پھر جب چار گھنٹے کے بعد میں مایوس ہو کر اٹھنے لگا تو وہ آتی دکھائی دی۔ اسی طرح مسکراتی ہوئی، دیدہ زیب لباس پہنے ہوئے اور مہکتے ہوئے وہ قریب آئی اور میرے سامنے بیٹھ گئی۔
”جی شاعر صاحب! کیسے ہیں آپ؟ بہت غصہ آ رہا ہے ناں مجھ پر، آپ کو بہت انتظار کروایا میں نے“؟ وہ خوش گوار لہجے میں بولی۔
مجھے اطمینان ہوا کہ سب ٹھیک ہے۔ اس کے والدین مان گئے ہوں گے۔
”غصہ تو بہت زیادہ ہے۔ چار گھنٹے سے یہاں پاگلوں کی طرح تمہارا انتظار کر رہا تھا۔ بار بار ویٹر عجیب نظروں سے دیکھتے تھے۔ آٹھ کپ چائے کے پی چکا ہوں۔ کہاں رہ گئی تھیں تم“؟
”ہائے بڑا مزہ آ رہا ہے۔ آپ کو اس طرح تڑپتے دیکھ کر۔ آپ مجھ سے بہت پیار کرنے لگے ہیں ناں۔ اب تو میرے بغیر آپ کے لیے ایک منٹ گزارنا مشکل ہو گا“؟ اس نے عجیب سے لہجے میں کہا۔
”کیا کہہ رہی ہو تم، میں اتنا پریشان ہوں اور تمہیں مذاق سوجھ رہا ہے“؟!
”مذاق نہیں وصی جی! سچ کہہ رہی ہوں۔ آپ مجھ سے بہت زیادہ محبت کرنے لگے ہیں۔ یہی تو میں دیکھنا چاہتی تھی۔ دیکھنا چاہتی تھی کہ ایک شاعر جب محبت میں تڑپتا ہے تو کیسی شاعری کرتا ہے۔ اب تو آپ نے عمر بھر تڑپنا ہی ہے“۔
”آبگینہ تم ہوش میں تو ہو، کیا کہہ رہی ہو۔ خدا کے لیے سیدھی بات کرو۔ تمہاری اپنی امی سے بات ہوئی؟ کیا کہا انہوں نے“؟ میں نے بے چین ہو کر کہا۔
”ہائے کیا بے قراری ہے۔ آپ یہی چاہتے ہیں ناں کہ میں جلدی سے دُلھن بن کر آپ کے پاس آ جاؤں؟ “
”پہیلیاں کیوں بجھوا رہی ہو؟ صاف صاف بتا کیوں نہیں دیتی“؟
”اچھا صاف صاف بات کرتی ہوں“ آبگینہ نے سنجیدہ ہوتے ہوئے کہا۔
”بات یہ ہے وصی کہ میں آپ سے کوئی پیار ویار نہیں کرتی۔ میں آپ کے جذبات اور آپ کے دل کے ساتھ کھیل رہی تھی۔ میں تو صرف یہ دیکھنا چاہتی تھی کہ آپ جیسا شاعر میری محبت میں مبتلا ہو سکتا ہے یا نہیں۔ اب مقصد پورا ہوا تو مجھے آپ کو چھوڑنا ہو گا۔ میں اپنی امی سے کیوں بات کرتی، میری شادی تو ایک زمیندار سے طے ہو چکی ہے اور میں اسی کی بیوی بنوں گی۔ ہاں آپ کو میرا احسان مند ہونا چاہیے کہ میں نے آپ کو درد کی دولت سے نواز دیا۔ آپ مجھے بھلا تو کبھی نہیں سکیں گے۔ لکھتے رہیے گا میری بے وفائی کے قصے، میرے ہجر میں مبتلا ہو کر آپ جو غزلیں، نظمیں لکھیں گے بڑے پر اثر ہوں گے۔ اچھا اب میں چلتی ہوں۔ میں نے سوچا آج اپنا اصل روپ دکھا ہی دوں۔ ہاں میری شادی بہت جلد ہونے والی ہے تو آج کے بعد میں نہیں ملوں گی۔ پلیز میرے ساتھ رابطہ کرنے کی کوشش نہ کیجیے گا میرے ہونے والے خاوند کو بہت برا لگے گا اور مجھے بھی“۔
وہ بول رہی تھی اور میرے کانوں میں جسے کوئی پگھلا ہوا سیسہ ڈال رہا تھا۔ مجھے بالکل یقین نہیں آ رہا تھا کہ یہ آبگینہ ہے۔ وہ کوئی اور ہی تھی۔ دل کو جیسے کوئی مسل رہا تھا۔ آندھیاں سی چل رہی تھیں۔ وہ چلی گئی۔ مجھے کچھ خبر نہیں کہ میں وہاں سے کیسے نکلا اور گھر تک کیسے پہنچا۔ بس اتنا یاد ہے کہ اس رات میں ایک پل نہیں سو سکا تھا۔ صبح جسم کا جوڑ جوڑ دکھ رہا تھا۔ آنکھیں خون کی طرح سرخ تھیں اور کمرہ سگریٹوں کے دھوئیں سے بھرا تھا۔ مجھے ’لیل و نہار‘ کے دفتر بھی جانا تھا لیکن میری ایسی حالت ہی نہیں تھی کہ کہیں جا سکتا۔ لینڈ لائن پر اسد صاحب کے متعدد فون آئے لیکن میں نے فون اٹینڈ نہ کیا۔ امی نے کئی بار کہا کہ فون اٹینڈ کر لو، میں نے ان کو بھی منع کیا ہوا تھا کہ کوئی فون اٹینڈ نہ کریں۔
بہر حال اگلے دن طبیعت سنبھلی تو شام کو میں اسد صاحب کے گھر گیا۔ ڈر رہا تھا کہ وہ بہت برا بھلا کہیں گے۔ میں ان کے ڈرائنگ روم میں داخل ہوا اور سلام کر کے چپ چاپ صوفے پر بیٹھ گیا۔
”مل گئی فرصت؟ “ اسد صاحب نے آنکھیں نکالیں۔
”سر! میری طبیعت کچھ ٹھیک نہیں تھی۔ آپ حکم کیجیے۔ ہاں کل پرچا بھی چھپنا ہے۔ آپ فکر نہ کریں۔ سارا کام تیار ہے۔ باقی جو رہتا ہے میں ابھی کر کے جاؤں گا خواہ رات کے تین بج جائیں“۔ میں نے سنجیدگی سے کہا۔
اسد صاحب غور سے چند لمحے مجھے دیکھتے رہے پھر بولے، ”وصی اٹھو“۔
”جی“؟ میں نے حیرت سے کہا۔
”یار اٹھو ناں“۔ اسد صاحب نے مجھے گلے لگا لیا۔ میری آنکھیں بھیگنے لگیں۔ میں پوری کوشش کر رہا تھا کہ وہ میرے آنسو دیکھ نہ پائیں۔
”ہوتا ہے، اسی طرح ہوتا ہے، کیا ہوا جو تمہارے ساتھ ہو گیا۔ میں نے تمہیں کام کے لیے نہیں بلایا۔ آج میں تمہارے ساتھ کھانا کھانا چاہتا ہوں۔ آج انکار نہیں سنوں گا“۔ اسد صاحب نے محبت بھرے لہجے میں کہا۔
میرے حلق میں گولا سا پھنس گیا۔ ”جی ضرور“۔
دو تین دن گزر گئے۔ پھر میرے جذبات میں زبردست ہلچل پیدا ہو گئی۔ میں آبگینہ سے ملنا چاہتا تھا۔ کبھی مجھے لگتا تھا کہ وہ مجھے آزما رہی ہے۔ مجھے رہ رہ کر اس کی باتیں یاد آتی تھیں۔ اس کی آنکھوں کی چمک اور لبوں کی مسکراہٹ یاد آتی تھی۔ مجھے یقین ہی نہیں آتا تھا کہ وہ مجھ سے دھوکا کر سکتی ہے۔ میں تصور میں دیکھتا تھا کہ میں آبگینہ کے پاس گیا ہوں اور وہ ہنستے ہوئے کہہ رہی ہے۔ دیکھا ڈرا دیا ناں، میں تو آپ سے بہت پیار کرتی ہوں، بہت زیادہ۔ لیکن اس کے ساتھ ہی ایک خوفناک خیال بھی آتا کہ آبگینہ قہقہے لگا رہی ہے۔ اور چیخ چیخ کر طنزیہ لہجے میں کہہ رہی ہے، ’ہاں جی شاعر صاحب، کر لی محبت؟ پا لیا صلہ؟ اب تو خوش ہیں آپ؟ جائیے میں نہیں کرتی آپ سے محبت، مانتے ہیں مجھے، کیسے الو بنایا آپ کو؟
میری ایسی کیفیت تھی، جیسے مجھے بہت تیز بخار ہو۔ لیکن مجھ سے رہا نہیں گیا۔ میں اپنی موٹر سائیکل پر اس کی حویلی کی طرف روانہ ہو گیا۔ اس کے ملازموں سے بات کی۔ وہ اندر جانے نہیں دے رہے تھے۔ میں نے اصرار کیا کہ چودھری صاحب سے ملنا چاہتا ہوں۔ ایک ملازم اندر گیا پھر اس نے آ کر بتایا کہ چودھری صاحب کہتے ہیں کہ وہ مجھ سے نہیں ملنا چاہتے۔ عجیب الجھن میں پڑ گیا تھا۔ میں وہیں حویلی کے باہر رک گیا۔ سگریٹ سلگایا اور سوچنے لگا۔ دس پندرہ منٹ بعد ایک ملازم آیا۔
”آئیے چودھری صاحب آپ سے بات کرنا چاہتے ہیں“
بالآخر بلا لیا گیا ہے۔ اب بات کروں گا۔ لیکن میں بات کیا کروں گا۔ یہی سوچتے سوچتے ڈرائنگ روم تک پہنچ گیا۔ صوفے پر بیٹھ گیا۔ چند لمحوں بعد پردہ ہلا۔ میں سوچ رہا تھا ابھی یہاں بڑی بڑی مونچھوں والا کوئی آدمی آئے گا۔ لیکن پردہ ہلا اور خوشبو کا جھونکا آیا۔ وہ تمام تر حشر سامانیوں کے ساتھ میرے سامنے تھی۔ ایک بار خوشی کی لہر بجلی کی طرح کوندی مگر فوراً معدوم ہو گئی۔ آج وہ بہت غصے میں دکھائی دیتی تھی۔ اس کا چہرہ سرخ ہو رہا تھا۔
”میں نے منع کیا تھا ناں کہ اب مجھ سے ملنے کی کوشش مت کرنا لیکن آپ نہیں مانے۔ آگئے یہاں جیسے میں تیار بیٹھی ہوں گی آپ سے ملنے کے لیے۔ بہت برا کیا آپ نے بہت برا۔ میں اس کے لیے آپ کو کبھی معاف نہیں کروں گی کبھی نہیں“۔ وہ ایک ایک لفظ پر زور دے کر بول رہی تھی۔
”آبگینہ! میری غلطی کیا ہے۔ کس بات کی سزا دے رہی ہو مجھے۔ مجھے بتاؤ تو سہی میں نے آخر کیا کیا ہے؟ “ میں شکوہ کیا۔
”غلطی؟ نہیں آپ کی تو کوئی غلطی ہی نہیں ہے۔ جب میں نے صاف صاف آپ کو بتا دیا تھا کہ میرا آپ سے کوئی واسطہ نہیں ہے تو پھر کیوں آئے ہیں یہاں۔ مجھے بدنام کرنا چاہتے ہیں۔ بڑے دعوے کرتے ہیں مجھ سے محبت کے۔ یہ محبت ہے آپ کی۔ میرے ابو میرے بارے میں کیا سوچ رہے ہوں گے۔ میری عزت آپ نے دو کوڑی کی کر کے رکھ دی ہے۔ لیکن شاعر صاحب! میں بھی کوئی عام لڑکی نہیں ہوں۔ اب میں بھی انتقام لوں گی اور دیکھتی ہوں اب آپ کیسے بچتے ہیں۔ آج کے بعد گھر سے نکلتے ہوئے سو دفعہ سوچنا، اپنی آنکھیں کھلی رکھنا کیوں کہ میرے بندے تم پر کسی بھی وقت وار کر سکتے ہیں“۔ اس نے غصے سے کہا۔
”یہ تم دھمکی دے رہی ہو یا خبردار کر رہی ہو“؟ میں نے کہا۔
”زمینداروں کی بیٹی ہوں۔ دشمن کو غفلت میں مارنا میری آن کے خلاف ہے۔ تم بچنے کی بھرپور کوشش کرو اور میں تمہیں ختم کرنے کی کوشش کروں گی۔ دیکھتے ہیں کتنی دیر تم بچ پاتے ہو، اب جاؤ ملاقات کا وقت ختم ہو گیا ہے“۔ اس نے یہ کہا اور ایک جھٹکے سے واپس مڑ گئی۔
میں کئی لمحے تک وہاں کھڑا سوچتا رہا کہ ابھی کیا بات ہوئی ہے۔ پھر ایک ملازم نے کہا۔ ”آ جائیں“۔ وہ باہر جا رہا تھا۔ میں وہاں سے چلا آیا۔
آبگینہ کے جملے ہر وقت میرے کانوں میں گونجتے رہتے تھے۔ وہ بھی جو اس نے پیار سے کہے تھے اور وہ بھی جو نفرت سے کہے تھے۔ کبھی کبھی یہ جملے آپس میں گڈ مد ہو جاتے تھے۔
’کتنا اچھا لگے گا ناں جب میں کسی کو بتاؤں گی کہ میں آبگینہ وصی ہوں‘ ۔
’میں تو آپ کے جذبات اور دل سے کھیل رہی تھی‘ ۔
’میں تو کب سے آپ کی ہو چکی ہوں‘ ۔
’آج کے بعد گھر سے نکلتے ہوئے سو دفعہ سوچنا، دیکھتی ہوں آپ بچتے کیسے ہیں‘ ۔
آوازیں اتنی گڈ مڈ ہوتیں کہ میرا سر چکرانے لگتا۔
ایسے میں ایک دن میں موٹر سائیکل پر نکلا تو کچھ دیر بعد مجھے شبہ ہوا کہ ایک گاڑی میرا پیچھا کر رہی ہے۔ میں نے اسے وہم سمجھا لیکن راستے میں ایک ویران سڑک آئی تو اچانک تعاقب کرنے والی گاڑی کی رفتار تیز ہو گئی۔ پھر میرے قریب سے گزرتے ہوئے اچانک گولی چلنے کی آواز آئی۔ اس کے ساتھ ہی مجھے ایسا لگا جیسے کسی نے میرے بازو میں گرم سلاخ گھسا دی ہو۔ موٹر سائیکل بری طرح لڑکھڑائی۔ میں نے بریک لگا کر اس پر قابو پانے کی کوشش کی پھر بھی وہ گر گئی اور میں بھی سڑک پر گر گیا۔ وہ کار آگے نکل گئی تھی۔
سڑک سے اٹھ کر میں نے دیکھا کہ بازو سے خون نکل رہا ہے۔ پیچھے سے ایک گاڑی آ گئی۔ اس میں ایک نیک دل آدمی تھا۔ وہ مجھے اسپتال لے گیا۔ میں بال بال بچا تھا۔ گولی ہڈی کو نہیں لگی تھی۔ گوشت سے ہو کر نکل گئی تھی۔ مرہم پٹی کے بعد میں گھر آ گیا۔ پولیس کو بھی میں نے ٹال دیا تھا۔ مجھے یقین نہیں آ رہا تھا کہ مجھ پر قاتلانہ حملہ بھی ہو سکتا ہے۔ آبگینہ کی باتیں یاد آ رہی تھیں۔
امی ابو بھی بہت پریشان ہوئے۔ اس کے بعد میں کئی دن تک گھر سے نہ نکل سکا۔ جب کچھ بہتر ہوا تو ’لیل و نہار‘ کے دفتر میں جانے لگا۔
میں نے ایک دو دوستوں کی ڈیوٹی لگائی تھی کہ چودھریوں کی خبریں پہنچائیں۔ خبر ملی کہ آبگینہ کی شادی ہو رہی ہے۔ ایک ایک لمحہ گزارنا مشکل تھا مگر وقت اچھا ہو یا برا گزر ہی جاتا ہے۔ وہ دن بھی گزر گئے۔ آبگینہ کی شادی ہو چکی تھی۔ میں اس کے باوجود گم سم رہتا تھا۔ میرے دوست اکثر گلہ کرتے تھے کہ میں کبھی مسکراتا نہیں۔ کبھی ان سے پہلے کی طرح باتیں نہیں کرتا۔ لیکن یہ میرے بس کی بات نہیں تھی۔ اسی طرح چھے مہینے گزر گئے۔
ایک دن میرا ایک دوست مجھ سے ملنے آیا۔
”وصی تمہیں ایک بہت ضروری بات بتانی تھی“۔ اس نے پر اسرار لہجے میں کہا۔
”کیا بتانا تھا“۔ میں نے بیزاری سے کہا۔
”کسی نے چودھری امجد کو قتل کر دیا ہے“۔ اس نے خبر دی۔
”تو مجھے کیوں بتا رہے ہو۔ میں کسی چودھری امجد کو نہیں جانتا۔ میرا چودھریوں سے کیا واسطہ“؟ میں نے لاتعلقی سے کہا۔
”بھول گئے کیا، چودھری امجد، آبگینہ کا خاوند“؟ دوست نے منہ بنا کر کہا۔
میں چونک اٹھا واقعی یہ تو اس کے خاوند کا نام تھا۔ بہرحال اس خبر سے مجھ پر کوئی خاص اثر نہ ہوا۔ نا میں نے اس دوست اس بارے میں مزید کوئی بات کرنا ضروری سمجھا۔ میرے لیے اس خبر اور اخبار میں کسی ان جان شخص کی موت کی خبر میں کوئی فرق نہیں تھا۔ میرے معمولات زندگی میں کوئی فرق نہیں آیا تھا۔ دن گزرتے جاتے تھے۔ ایک شب جب میں نیند اور بیداری کی درمیانی کیفیت میں تھا تو مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے آبگینہ میرے کمرے میں ہے۔
میں ایک مانوس سی خوشبو کو محسوس کر رہا تھا لیکن جب میری آنکھیں پوری طرح کھلیں تو میں اکیلا تھا۔ میرا خواب ریزہ ریزہ ہو بکھر چکا تھا۔ اس کے بعد میں بڑی دیر تک اس کے بارے میں سوچتا رہا۔ طبیعت اس قدر بے چین تھی کہ دل چاہتا تھا اسی وقت اٹھ کر اس سے ملنے چلا جاؤں۔ صبح ہوئی تو میں اس سے ملنے کا مصمم ارادہ کر چکا تھا۔ میں نے مختلف احباب سے رابطہ کیا۔ پتا چلا کہ آبگینہ چودھری امجد کی حویلی میں ہی رہ رہی ہے۔ میں روانہ ہو گیا۔ سہ پہر چار بجے میں اس کی حویلی کے باہر تھا۔ میں نے اپنا تعارف کروایا۔ مجھے اندر بلا لیا گیا۔ ڈرائینگ روم میں بیٹھا ہی تھا کہ دروازے سے آبگینہ نمودار ہوئی۔ اس کا سوگ وار حسن دیکھ کر دل دہل گیا۔ اس کی آنکھوں میں بڑی ویرانی تھی۔ میں اسے دیکھ کر اٹھ کھڑا ہوا۔
”چودھری امجد کا سن کر بہت افسوس ہوا“۔ میں نے آہستہ سے کہا۔
”بس یہی قسمت میں لکھا تھا، آپ بیٹھیے ناں“۔ وہ بولی۔
مجھے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ میں کیا بات کرنے آیا ہوں۔ میں ادھر ادھر کی باتیں کرنے لگا۔ اسی دوران میں چائے آ گئی مگر میرا دھیان چائے کی طرف نہیں تھا۔ چائے وہیں پڑے پڑے ٹھنڈی ہو گئی۔”آبگینہ! اب تم نے کیا سوچا ہے؟ “ آخر میں نے پوچھا۔
”کیا مطلب؟ کس بارے میں؟ “ اس نے چونکنے کی اداکاری کی۔
”زندگی کے بارے میں، میرا مطلب ہے تم بمشکل بائیس برس کی ہو۔ ابھی تو بہت طویل سفر ہے زندگی کا۔ اکیلے یہ سفر کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ “ میں نے تمہید باندھی۔
جواب میں وہ اس طرح بولنے لگی جیسے کبھی پہلے بولا کرتی تھی۔ یعنی نان اسٹاپ۔
”زندگی کتنی ہے یہ تو کسی کو پتا نہیں۔ میرے خاوند کی عمر مجھ سے پچیس برس زیادہ تھی وہ خاندانی دشمنی کی بھینٹ چڑھ گئے۔ انہیں قتل کر دیا گیا لیکن میری بھابی کا بچہ پیدا ہوتے ہی دنیا سے چلا گیا۔ پتا نہیں میں کتنا جیؤں گی تو پھر خواہ مخواہ یہ سوچوں کہ میرا کیا بنے گا۔ ویسے مجھے کسی چیز کی کمی نہیں۔ بہت دولت ہے میرے پاس۔ دولت سے بڑھ کر بھی بھلا کوئی چیز ہوتی ہے دنیا میں۔ “
”میں صرف یہ کہنا چاہتا تھا کہ اگر۔ “ میں کچھ کہنا چاہتا تھا لیکن اس نے میری بات کاٹ دی۔
”آپ جو کچھ کہنا چاہتے ہیں وہ میں اچھی طرح جانتی ہوں۔ میں آپ کو پہلے ہی بتا چکی ہوں کہ میں آپ سے پیار نہیں کرتی۔ اب چودھری امجد مر گیا ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ کا چانس بن گیا ہے۔ میں آپ سے کبھی شادی نہیں کروں گی۔ سارا گاؤں مر جائے پھر بھی نہیں، سمجھے آپ“؟ اس نے اپنی طرف سے بات ختم کر دی لیکن بات ختم نہیں ہوئی تھی۔
”ہاں ہاں سمجھ گیا، سب کچھ سمجھ گیا، میں سمجھ گیا کہ تم دنیا کی سب سے بڑی جھوٹی ہو۔ میں نے تم جیسی جھوٹی لڑکی دنیا میں نہیں دیکھی۔ تم کسی کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے جھوٹ بولتی ہو۔ جواب نہیں تمہارا۔ کہاں سے سیکھا یہ جھوٹ بولنا؟ بولو؟ “ بولتے ہوئے میری آواز خاصی بلند ہو گئی تھی۔ مجھے لگتا تھا کہ وہ جواب میں مجھ سے بھی اونچا بولے گی لیکن اس کے الٹ ہوا۔ وہ چپ چاپ چند لمحے میری طرف دیکھتی رہی کپکپاتی ہوئی آواز میں بولی۔
”میں جھوٹ نہیں بول رہی ہوں۔ میں سچ کہہ رہی ہوں۔ میں آپ سے شادی نہیں کر سکتی، نہیں کر سکتی۔ پلیز آپ چلے جائیے“۔
”ٹھیک ہے میں چلا جاتا ہوں۔ اس جگہ سے، تمہارے گاؤں سے، اور پھر کبھی تمہارے سامنے نہیں آؤں گا لیکن کیا تم وعدہ کر سکتی ہو کہ مجھے اپنے دل سے بھی نکال دو گی“؟
آبگینہ نے منہ پھیر لیا۔ اس کا جسم لرز رہا تھا، مجھے ایسا لگا جیسے وہ رو رہی ہے۔ مجھ سے برداشت نہ ہو سکا میں نے آگے بڑھ کر اس کے کندھوں پر ہاتھ رکھ کر اس کا چہرہ اپنی طرف گھمایا۔ آنسو اس کے گالوں پر موتیوں کی طرح لڑھک رہے تھے۔
”آپ نے ٹھیک کہا، میں جھوٹی ہوں، میں نے آپ سے جھوٹ بولا۔ اس لیے کہ میں نہیں چاہتی تھی کہ آپ کو کچھ ہو۔ آپ کو دولت کی طاقت کا اندازہ نہیں ہے۔ اس دن جب پہلی بار میں نے اپنی امی کو آپ کے بارے میں بتایا تھا تو آپ کو پتا نہیں کتنا بڑا ہنگامہ ہوا تھا۔ ابو کو بھی پتا چل گیا تھا۔ وہ تو اسی وقت اپنے بندوں کو بندوقیں دے کر بھیج رہے تھے کہ آپ کو قتل کر دیں۔ میں ان کے پیروں میں گر گئی۔ رو رو کر ان کو منایا کہ وہ مجھے اور آپ کو معاف کر دیں۔ اور پھر معافی اس شرط پر ملی تھی جس پر میں نے حرف بہ حرف عمل کیا۔ میں نے محبت کر کے شاید کوئی جرم کیا تھا اسی لیے انہوں نے اسی وقت میری شادی چودھری امجد سے طے کر دی۔ ویسے بھی ان سے پرانا جھگڑا چل رہا تھا۔ اس طرح بدلے کی آگ بھی ٹھنڈی پڑ سکتی تھی۔ اس طرح مجھے قربان کر دیا گیا۔ میں نے سوچا کہ اگر آپ کو اصل بات بتائی تو آپ کو چین نہیں آئے گا اور آپ مجھے حاصل کرنے کے کچھ نہ کچھ ضرور کریں گے اور میرے خاندان کو آپ کو ختم کرنے کا بہانہ مل جائے گا۔ اس لئے میں خود بری بن گئی۔ آپ سے جھوٹ بولا۔ لیکن آپ کو پتا ہے اس دن کے بعد مجھے کبھی نیند نہیں آ سکی۔ ہر رات انگاروں پر لوٹتے ہوئے گزاری ہے۔ اتنا پیار کرتی ہوں میں آپ سے“۔ وہ سسک رہی تھی۔
”تو پھر تم شادی سے انکار کیوں کر رہی ہو؟ “
”بات وہ نہیں ہے۔ اب میں اپنے خاندان کے دباؤ میں نہیں ہوں اور نہ آؤں گی۔ بات صرف اتنی سی ہے کہ اب میں اپنے آپ کو آپ کے قابل نہیں سمجھتی“۔ وہ رو رہی تھی۔
”آبگینہ! یہ کیا بات ہوئی۔ تم یہ فیصلہ کیسے کر سکتی ہو۔ تم سے اچھی لڑکی تو دنیا میں نہیں ہو گی، تمہاری یہ بات میں نہیں چلنے دوں گا۔ اب تو تم سے شادی کر کے رہوں گے۔ تمہیں اپنے ساتھ لے کر جاؤں گا“۔
”میری مرضی کے بغیر ہی لے جائیں گے“؟
”اسی لیے تو کہہ رہا ہوں کہ ذرا سوچو، اپنا نہیں تو میرا خیال کر لو۔ ایک بارمیری بات مان لو، اس کے بعد تو ساری زندگی تمہاری ہی چلنی ہے“۔
میں نے بے بسی کے انداز میں کہا اور آبگینہ نہ چاہتے ہوئے بھی ہنس پڑی۔ اب اتنا تو میں سمجھتا ہی تھا کہ اس کی ہنسی کا مطلب کیا ہے۔