قصور کی زینب کے قتل کے
بعد ملک بھر سے مختلف شخصیات اور عوام نے غیراخلاقی سرگرمیوں سے پردہ اٹھاناشروع
کردیا اور ایسا ہی کچھ سی ایم ایچ لاہور کے میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج کی اسسٹنٹ
پروفیسر ڈاکٹرسحر جاوید چاولہ نے کیا ، انہوں نے معاشرے کا تاریک پہلوبے نقاب کرتے
ہوئے لکھا کہ شاید اچھا نہ لگے لیکن اس کا مقصد لوگوں کو امید دینا اور خبردار
کرنا ہے ۔
ایک سوشل میڈیا پیج پر
ان کی طرف سے لکھی گئی یہ داستان انگریزی میں شائع ہوئی.
’ میں سات سال کی تھی
جب قاری صاحب نے جنسی طور پر ہراساں کیا لیکن والدین نے خاموش کرا دیا، یہ سلسلہ
یہیں نہ رکا۔ قاری صاحب سے نجات کے بعد مسلسل کئی سال ایک قریبی رشتہ دارمجھے
ہراساں کرتارہااور مزید 12سال تاریک رات بن کر بیت گئے۔
مجھے یقین ہے کہ مزید
وضاحت کرنے کی ضرورت نہیں، پاکستانی فیملی ہونے کے ناطے میرے والدین نے بھی یہ
جاری رہنے دیا تاہم میں انہیں زیادہ الزام نہیں دیتی بلکہ معاشرے کو ذمہ
دارٹھہراتی ہوں۔
میں نے جب سے آرمی
میڈیکل کالج میں داخلہ تو میرے اچھے دن شروع ہوگئے ، میں نے دوست بنائے اور کالج
لائف کے دوران ہی محبت میں مبتلا ہو گئی جیسا کہ کافی سارے لوگ کرتے ہیں۔
مجھ سے شادی اور پھر
ہمیشہ ہنسی خوشی رہنے کے وعدے کیے گئے ، میں نے کورٹ میرج کرنے کا فیصلہ کیا لیکن
شادی کے دن وہ لڑکا غائب ہوگیا، میں مایوس تھی اور پھر اس لڑکے سے شادی پر رضامندی
ظاہر کردی جسے میری والدہ نے پسند کیاتھا، وہ مجھے نہیں چاہتا تھا، ایک مرتبہ اس
نے سحر نامی لڑکی سے محبت کی تھی اور وہ میں نہیں تھی ، اس نے مجھے چھوڑنے کا آپشن
دیا لیکن میں نے چیلنج قبول کیا اور محبت پانے کیلئے وہ سب کچھ کیا جو کرسکتی تھی۔
اس نے مجھے پیٹا، میرا
فون مجھ سے لے لیااور یہ سات ماہ تک جاری رہا، چوری چھپے والدین کو فون کیا جن کا
شکریہ کہ وہ آئے اور مجھے لے گئے ، میں بہت گھبرائی اور ڈری ہوئی تھی ، اعصابی
مسئلہ پیدا ہوگیا،میری نوکری چلی گئی اور پھر کالج کے محبوب کی بانہوں میں گر گئی،
اس نے مالی ضروریات کا بتاکر شادی کا وعدہ کیا ، اس نے مجھ سے میرے زیورات مانگے
جو میں نے دے دیئے لیکن شادی کیلئے مقرر تاریخ کو پھر غائب ہوگیا، میں نے پھر
خودکشی کی کوشش کی جس کا اختتام سی ایم ایچ لاہور کے آئی سی یو میں ہوا۔
19جون 2012 کو ہوش میں
آئی اور فیصلہ کیا کہ اب دنیا میرے آگے ہوگی اور میں یہ سب کچھ روکوں گی ، میں نے
بائیوکیمسٹری میں ایم فل کیا ، پڑھانا شروع کردیا اور اب میں پی ایچ ڈی کررہی ہوں۔
بستر مرگ سے اس عہدے تک
ایک مشکل سفر تھا ، میں اپنے والدین اور دوستوں کی شکرگزار ہوں جو میرے ساتھ کھڑے
ہوئے اور اپنے طلباء کی بھی جنہوں نے امید دی ۔ ہاں، میں نے ایک وقت پر سب کچھ ختم
کردیا تھا ، ہاں، میں نے سچے جذبات پر یقین کرنا چھوڑدیا لیکن یہاں اچھے لوگ بھی
ہیں جنہوں نے مجھے محبت اور دوستیوں پر دوبارہ یقین رکھنا سکھایا، ہرکسی کواللہ
تعالیٰ کی طرف سے زندگی کی نعمت سے نوازاگیا اور یہ ہم پر ہے کہ اس میں خوشیاں
تلاش کردیں،یادرہے کہ شو چلتے رہنا چاہیے “۔
بشکریہ ہم سب