زندہ رہی اور ڈٹ کے زندہ رہی



سمجھ میں نہیں آ رہا کہاں سے بات شروع کروں؟ آخر آپ ایک پانچ فٹ کے منہنی وجود میں نصب پانچ ہزار ٹی این ٹی کے دل اور دماغ میں کہاں تک سفر کر سکتے ہیں۔
اس دنیا میں جرات مند شخصیات کی کمی نہیں۔مگر سب کے نام لینے میں زبان اور جگہ کی مجبوری حائل ہو جاتی ہے لہٰذا جرات کے نمائندہ استعاروں سے کام چلانا پڑتا ہے۔
عاصمہ جہانگیر
تصویر کے کاپی رائٹحقوق انسانی کی کارکن عاصمہ جہانگیر 66 برس کی عمر میں اتوار کو لاہور میں انتقال کر گئیں
جیسے فاطمہ جناح، جیسے بے نظیر بھٹو، جیسے ملالہ، جیسے عاصمہ جہانگیر۔ پر ایک فرق ہے۔ فاطمہ جناح اور بے نظیر نے آمروں کو للکارا، ملالہ نے بہادری کے بھیس میں چھپی بزدلی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالیں۔ مگر عاصمہ نے کون سا ایسا ادارہ یا ظلِ الہی یا انسان دشمن زہنیت ہے جسے چیلنج نہیں کیا۔
وہ راتوں رات استعارہ تھوڑی بنی تھی۔اس کے قد میں اس کے باپ کا قد بھی تو شامل ہے جو 1971 میں جیل جانے سے پہلے تک لاہور کے مال روڈ پر پلے کارڈ لیے تنہا کھڑا تھا ’مشرقی پاکستان میں آرمی ایکشن نا منظور‘۔
اس بارے میں مزید پڑھیے

انسانی حقوق کی کارکن عاصمہ جہانگیر انتقال کر گئیں

عاصمہ جیلانی کیس یاد ہے؟ یہ کیس پابند ِ سلاسل غلام جیلانی کی 18 سالہ غیر وکیل ناتجربہ کار بیٹی نے ڈکٹیٹر یحییٰ خان کے دور میں دائر کیا۔ عدلیہ نے یحیی خان کو تب غاصب قرار دیا جب اطمینان ہو گیا کہ وہ معزول ہو چکا ہے اور دوبارہ نہیں آئے گا۔
اگر عاصمہ انیس سو تراسی کی ایم آر ڈی تحریک کے دور میں گھر پر نظربند نہ ہوتی جب اسے وکیل بنے بس تین برس ہی ہوئے تھے، اگر وہ رہائی کے چند ماہ بعد پھر گرفتار ہو کر کوٹ لکھپت جیل میں فوجی عدالت کے سامنے ہتھیار ڈال دیتی، شرعی قوانین کو بطور ڈھال اپنی آمریت مضبوط کرنے والے حکمران کے خلاف مال روڈ پر خواتین کے پہلے احتجاجی مظاہرے میں پولیس کے ڈنڈے نہ کھاتی۔
مارشل لائی مجلسِ شوری عاصمہ پر توہینِ مذہب کے جھوٹے الزام کی قرار داد منظور نہ کرتی اور وہ ضیا کے تحقیقاتی کمیشن کے سامنے سرخرو نہ ہوتی۔
عاصمہ جہانگیر
تصویر کے کاپی رائٹ
اگر وہ پاکستان کے پہلے ہیومین رائٹس کمیشن کی شریک بانی نہ ہوتی، دو ہزار پانچ کے لاہور میں خواتین کی پہلی مراتھن ریس پر لاٹھی چارج کے بعد مشرقی اقدار کی محافظ پولیس کے ہاتھوں نہ گھسیٹی جاتی اور قمیض تار تار ہونے کے بعد نعرے لگانے سے باز آ جاتی، عدلیہ بحالی تحریک میں صفِ اول میں ہونے کے بجائے علامتی حصہ ہوتی تو عاصمہ کو کون جانتا؟
خامخواہ متنازع ہونا اچھی بات نہیں مگر اصولوں کی لاج رکھتے ہوئے متنازعہ ہونا فکری بونوں کے درمیان قد آوری کی نشانی ہے۔ اس اسکیل پر عاصمہ کا قد آپ کہاں دیکھتے ہیں؟ اس کا جواب ہی آپ کے اپنے قد کا بھی تعین کرے گا۔
عاصمہ کی ایک عجیب عادت تھی
سب پے جس کیس نے گرانی کی
اس کو یہ ناتواں اٹھا لایا۔
جس جنگ گروپ کے انصار عباسی نے عاصمہ کو پاکستان اور اسلام دشمن لکھا اسی جنگ گروپ نے اپنے خلاف الزامات کے دفاع کے لیے اسے سپریم کورٹ میں وکیل بنایا۔جس الطاف حسین کی ایم کیو ایم نے اسے ایک متعصب عورت قرار دیا۔
عاصمہ جہانگیر
تصویر کے کاپی رائٹ ,اسی الطاف حسین کی تقریر پر پیمرا کی پابندی کو اسی عاصمہ نے ہائی کورٹ میں چیلنج کیا۔
توہینِ مذہب کے جس کیس کے دفاع سے وکیلوں کے پر جلتے تھے عاصمہ وہی کیس چمٹی سے اٹھا لیتی۔ جبری مشقت کے مارے ہوں کہ ریپ کی قیامت سے گزرنے والے، غائب افراد کے لاوارث وارث ہوں کہ عدالتی نظام کے ڈسے ہوئے کہ چو طرف سے مار کھاتی مذہبی اقلیتیں غرض جن کو کوئی نہ پوچھتا تھا وہ عاصمہ کا پتہ پوچھتے تھے۔
جب 2010 میں عاصمہ نے سپریم کورٹ بار کی صدارت کا الیکشن لڑا یا 2013 میں نگراں وزیرِ اعظم کے امیدواروں میں خامخواہ ان کا نام بھی بطور افواہ شامل کر دیا گیا تو جس کو کچھ نہ سوجھا اس نے عاصمہ کو ’اعزازی قادیانی‘ بنا دیا۔
عمران خان تک نے اسلام آباد دھرنے کے دوران یہ سوال اٹھایا کہ انسانی حقوق کی تحریک کو کن کن ممالک سے فنڈز ملتے ہیں ؟
آج اگر اقوامِ متحدہ سے لاہور تک بہت سے لوگ افسردہ ہیں تو بہت سے بچولیوں، آڑھتیوں اور اداروں نے اطمینان کا سانس بھی لیا ہوگا۔ پھر بھی کیا یہ اطمینان کافی نہیں کہ میں اس پاکستان میں رہتا ہوں جہاں عاصمہ اپنی شرائط پر زندہ رہی اور وہ بھی ڈٹ کے۔


بشکریہ بی بی سی اردو