تصویر کے کاپی رائٹ
پاکستان
میں سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی سابق صدر اور حقوق انسانی کی کارکن عاصمہ
جہانگیر 66 برس کی عمر میں اتوار کو لاہور میں انتقال کر گئیں۔
بی بی سی سے بات کرتے
ہوئے منیزے جہانگیر نے اپنی والدہ کے انتقال کی تصدیق کی۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ
اس وقت لاہور میں موجود نہیں اور ان کے بھائی نے انھیں اس خبر سے آگاہ کیا۔
اطلاعات کے مطابق عاصمہ
جہانگیر کی طبیعت اتوار کو اچانک خراب ہوئی جس کی وجہ سے انھیں ہستپال منتقل کیا
گیا تاہم وہ جانبر نہ ہو سکیں۔
ان کے انتقال کی خبر
آتے ہی سماجی کارکنوں، سیاسی شخصیات اور وکلا کی جانب سے تعزیتی پیغامات آ رہے ہیں
جبکہ سوشل میڈیا پر بھی بڑی تعداد میں لوگ دکھ کا اظہار کر رہے ہیں۔
پاکستان کے صدر ممنون
حسین، وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور پنجاب کے وزیراعلیٰ شہباز شریف سمیت دیگر
جماعتوں کے قائدین کی جانب سے بھی عاصمہ جہانگیر کے انتقال ہر گہرے دکھ کا اظہار
کیا گیا ہے۔
ایچ آر سی پی کے
چیئرپرسن ڈاکٹر مہدی حسن نے اس حوالے سے کہا ہے کہ ’گذشتہ روز جب میری عاصمہ
جہانگیر سے ملاقات ہوئی تو وہ ٹھیک تھیں، تاہم انھوں نے بتایا تھا کہ وہ طبی
معائنے کے لیے ربوہ میں امراض قلب کے ہسپتال جانے کا سوچ رہی ہیں۔‘
عاصمہ
جہانگیر کون تھیں؟
عاصمہ جہانگیر کی پیدائش
27 جنوری 1952 کو لاہور میں ہوئی جہاں کانونٹ آف جیزس اینڈ میری سکول میں انھوں نے
اپنی ابتدائی تعلیم حاصل کی۔
عاصمہ جہانگیر کا نام
ملکی سیاست کے افق پر بہت چھوٹی عمر میں ہی سامنے آ گیا جب دسمبر 1972 میں ان کے
والد ملک غلام جیلانی کو اس وقت کے فوجی آمر یحییٰ خان کی حکومت نے مارشل لا
قوانین کے تحت حراست میں لے لیا تھا۔
عاصمہ جہانگیر نے اپنے
والد کی رہائی کے لیے لاہور ہائی کورٹ میں پٹیشن دائر کی اور اگلے سال یحییٰ خان
کی حکومت کے خاتمے کے بعد اس مقدمے کا فیصلہ سنایا گیا جس میں فوجی حکومت کو غیر
قانونی اور یحییٰ خان کو 'غاصب' قرار دیا گیا۔
1978 میں عاصمہ جہانگیر نے
پنجاب یونیورسٹی سے اپنی وکالت کی تعلیم مکمل کی جس کے بعد ان کی شادی کاروباری
شخصیت طاہر جہانگیر سے ہو گئی۔
1980 میں انھوں نے اپنی بہن
حنا جیلانی اور دیگر خواتین کے ساتھ مل کر پاکستان کا پہلا خواتین پر مبنی وکالت
کا ادارہ بھی
شروع کیا۔
عاصمہ جہانگیر کے انتقال کی خبر
کے بعد بڑی تعداد میں لوگ ان کی رہائش گاہ میں موجود ہیں
ضیا الحق کے مارشل لا
کے دور میں عاصمہ جہانگیر نے کئی مظاہروں میں حصہ لیا اور 1983 میں لاہور کے مال
روڈ پر وومن ایکشن فورم کے ساتھ حدود قوانین کے خلاف کیے جانے والا مظاہرہ ملک کے
تاریخی مظاہروں میں سے ایک شمار کیا جاتا ہے۔
عاصمہ جہانگیر کو اپنی
زندگی میں کئی دفعہ غداری اور توہین مذہب کے الزامات کا بھی سامنا کرنا پڑتا رہا
اور ان کے گھر پر بھی کئی دفعہ حملے کیے گئے۔
فوج پر کی جانے والی
کڑی تنقید بھی عاصمہ جہانگیر کی وجہ شہرت میں شامل ہے جس کی وجہ سے انھیں کئی دفعہ
جیل بھی کیا گیا اور نظر بندی کی سزا بھی سنائی گئی۔ وہ پاکستان میں حقوقِ انسانی
کی علمبردار اور سکیورٹی اداروں کی ناقد کے طور پر پہچانی جاتی رہی ہیں۔
عاصمہ جہانگیر انسانی
حقوق کمیشن کی سابق سربراہ بھی رہیں اور ساتھ ساتھ پاکستانی سپریم کورٹ بار ایسوسی
ایشن کی صدر منتخب ہونے والی پہلی خاتون وکیل بھی تھیں۔
عاصمہ جہانگیر نے عدلیہ
بحالی کی تحریک میں اہم کردار ادا کیا تھا۔
ان کی کاوشوں کی بنا پر
انھیں دنیا بھر میں انسانی حقوق کے اعزازات سے نوازا جاتا رہا جن میں یونیسکو
پرائز، فرنچ لیجن آف آنر اور مارٹن اینیلز ایوارڈ شامل ہیں۔
اس کے علاوہ عاصمہ
جہانگیر کو 1995 میں انسانی حقوق پر کام کرنے کی وجہ سے رامون میگ سے سے ایوارڈ
بھی دیا گیا جسے ایشیا کا نوبیل پرائز تصور کیا جاتا ہے۔
انھوں نے اقوام متحدہ
کے لیے بطور نمائندہ خصوصی ایران میں انسانی حقوق اور مذہبی آزادی کے حیثیت سے بھی
کام کیا۔
بشکریہ بی بی سی اردو