خواتین پر مبنی لطیفے: کیا مزاح کی آڑ میں شائستگی کی حد عبور ہو رہی ہے؟

ریاض سہیل 

بی بی سی اردو کراچی

’بیوی ظالم اور شوہر مظلوم ہے۔‘

سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر مزاح کے زمرے میں خواتین پر مبنی اس طرح کے طنزیہ لطیفے دانستہ یا غیر دانستہ شیئر کر دیئے جاتے ہیں۔

جواب میں لطیفے پڑھنے والے صارفین ہنستے ہوئے چہروں والے سٹیکر بھیج دیتے ہیں یہ جانتے بوجھتے کہ اس سارے مزاح کا نشانہ عموماً خواتین ہی ہوتی ہیں۔

کراچی میں گذشتہ روز ’خواتین پر مبنی لطیفے‘ کے عنوان کے تحت ایک مذاکرے کا اہتمام کیا گیا جس میں شرکا نے اس حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔

نوجوان صحافی اور لکھاری ہمنا زبیر کا کہنا تھا کہ ’خواتین پر مبنی لطیفے‘ عام زندگی میں موجود ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ لطیفے ٹی وی پر بنائے جاتے ہیں، سیاست میں بنتے ہیں اور ماضی قریب میں تو سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے لطیف پیرائے میں خواتین کی سکرٹ تک پر طنز کر دیا مگر بعد ازاں ترقی پسند انگریزی میڈیا کے ذریعے سامنے آنے والے رد عمل پر انہوں نے معذرت کر لی۔

عکس ریسرچ سینٹر کی ڈائریکٹر تسنیم احمر کا کہنا تھا کہ سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر مواد بہت برق رفتاری سے آگے بڑھتا ہے کسی کونے میں بیٹھا ہوا شخص لطیفے گھڑ رہا ہے پھر چاہے یہ انڈیا میں بنا ہو یا افریقہ میں آپ تک پہنچ ہی جاتا ہے اور آپ اس کو آگے بڑھا دیتے ہیں اور یوں چشمِ زدن میں یہ ہزاروں اور لاکھوں لوگ تک پہنچ جاتا ہے۔

’خواتین کا نقصان اس لیے ہوتا ہے کہ حد سے زیادہ لطیفے خواتین کو مرکوز رکھ کر بنائے جاتے ہیں، ان میں انہیں کمتر دکھایا جاتا ہے، ان کی صلاحیتوں کو نظر انداز کرکے جو منفی چیزیں ہیں جیسے فضول خرچی ، زیادہ میک اپ کا استعمال، بے وقوف ہیں اور ایسی دقیانوسی باتوں کو فروغ دیا جاتا ہے۔ پہلے یہ لطیفے نجی محفلوں تک محدود ہوتے تھے اب یہ زبان زدِ عام ہوتے جارہے ہیں۔‘

محقق اور مصنف عائشہ خان کا کہنا تھا کہ سوشل میڈیا اور ٹینکالوجی کی وجہ سے خواتین پر مرکوز لطیفوں کے پھیلاؤ میں فروغ آیا ہے اور یہ بھی حراسگی کی زمرے میں آتے ہیں کیونکہ آپ کو عوامی مقامات پر بھی یہ لطیفے سنائے جاتے ہیں یا سننے کو ملتے ہیں۔

’خواتین پہلے کے مقابلے میں اب زیادہ عوامی مقامات پر آرہی ہیں، اِس سے حراسگی کا عنصر بڑھا ہے، خواتین آپس میں بھی اس قسم کے لطیفے شیئر کرتی ہیں۔‘

ہمنا زبیر کا کہنا تھا کہ حاضرین تبدیل ہوچکے ہیں۔ اب میڈیا، قانون اور صحت سمیت دیگر شعبوں میں خواتین کام کر رہی ہیں اور یہ سب عورتیں سماجی رابطوں کی ویب سائٹس اور روایتی میڈیا کی صارف بھی ہیں جب اس قسم کے لطیفے بنتے ہیں تو یقینناً انہیں برا لگتا ہے۔

’ماضی میں خواتین گھروں تک محدو تھیں وہ ریڈیو، ٹی وی سنتی تھیں اور نہ ہی سیاست میں دلچسپی رکھتی تھیں تو اس قسم کے لطیفے چلتے تھے اور مرد انہیں سنتے اور تعریف کرتے تھے۔ اب صورتحال تبدیل ہوگئی ہے آڈینس میں صنفی توازن آگیا ہے لہذا لوگوں کے لیے جو بھی مواد بنایا جائے اس میں صنفی حساسیت کا خیال رکھا جائے۔‘

صحافی غازی صلاح الدین کا کہنا تھا کہ یہاں نوجوان کئی محرومیوں کا شکار ہیں اور اب ان کے ہاتھ میں موبائل آ گیا ہے اس سے یہ لطیفے اور بڑھیں گے۔

’اس معاشرے میں نوجوان اپنے آپ کو کئی پابندیوں میں گھرا ہوا محسوس کرتے ہیں اس لیے اس قسم کے لطیفوں کا سہارا لیا جاتا ہے، ادب پڑھنے کا رجحان نہیں آرٹس کو فروغ نہیں دیا جاتا حالانکہ یہ وہ شعبے ہیں جن میں لوگ اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہیں اور ان کی تسکین ہوسکتی ہے۔اب جنسی طور پر بے چین معاشرہ ہے اور وہ تلاش میں ہے کہ اپنی تفریح کس طرح حاصل کرے اور اپنی محرومیاں کیسے دور کرے۔‘

تسنیم احمر کا کہنا تھا کہ اردو ادب میں بھی خواتین پر مرکوز مزاح موجود ہے، انہوں نے مشتاق یوسفی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ہوسکتا ہے کہ انہوں نے پچاس سال پہلے لکھا ہو لیکن لوگ آج بھی سنتے ہیں اور ہنستے ہیں۔ پہلے پڑھنے والے کم تھے اب تبدیلی لانے کی ضرورت ہے اور یہ کام نوجوان کریں گے۔

غازی صلاح الدین نے ان کی بات آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ عورتوں کو تابع رکھا گیا اس قدر کے شادی میں ایک بڑے عرصے تک ’بہشتی زیور‘ دیا جاتا تھا اور اس اطاعت کی جڑیں معاشرے اور ذہنوں کو جکڑے ہوئی ہیں۔

مذاکرے میں شریک ملیحہ اطہر نے بتایا کہ ملازمت پیشہ خواتین کو امتیازی جملے سننے کو ملتے ہیں جیسا کہ اتنے پیسوں کا کیا کرو گی، کونسے تمہیں بل ادا کرنے ہیں یا کونسا تمہیں گھر چلانا ہے۔ ہمنا زبیر نے ان کی تائید کی اور کہا کہ اگر ہم گھر نہیں چلاتے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم جو سخت محنت کرتے ہیں اس کی اجرت کم ہو۔

مذاکرے میں شریک صحافی عمران شیروانی نے نشاندھی کی کہ ٹی وی پر جو مزاحیہ اداکار نظر آتے ہیں یہ زیادہ تر غریب طبقے سے تعلق رکھتے ہیں جو دائیں بازو کے خیالات کی طرف مائل ہوتے ہیں اور اس چیز کو بھی مد نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔

شرکا میں سے زاہد فاروق نے بتایا کہ ان کا تعلق غریب آبادی کے علاقے سے ہے وہاں پر سنیچر سے اتوار تک مزاحیہ پروگرام شوق سے دیکھے جاتے ہیں، یہ لوگ تھیٹر جانے کی سکت نہیں رکھتے اس لیے گھر بیٹھے لطف اندوز ہوتے ہیں اور اس میں جو زبان استعمال ہوتی ہے اس کو وہ سیاست دانوں سے اپنا انتقام سمجھتے ہیں۔

تسنیم احمر کا کہنا تھا کہ معاشرے میں وسائل کم اور مسائل زیادہ ہو رہے ہیں اور اس صورتحال میں مزاح کی شدید ضرورت ہے لیکن ایسا مزاح جس میں خواتین کو نشانہ نہ بنایا جائے بلکہ اس کا مرکز معاشرتی مسائل ہوں۔