ظفر عمران
میں اعتراف کرتا ہوں کہ سوشل میڈیا سے اس طرح فائدہ نہیں اٹھا سکا، جیسے بہت سے احباب اُٹھاتے ہیں۔ میں شاعری کے فورم میں اپنا وقت برباد کر رہا تھا، کہ ایک شاعر دوست نے بتایا، فیس بک پر ایسے ”پیجز“ ہیں، جن پر جا کے اردو زبان میں لکھی سیکسی کہانیاں پڑھی جا سکتی ہیں۔ بدقسمتی کہیے کہ میں جس گھرانے میں پلا بڑھا ہوں، وہاں کتابیں پڑھنے کا رواج تھا۔ گھر میں جتنی رسائل و کتب آتیں وہ سبھی اہل خانہ پڑھتے تھے۔ اس لیے کوئی کتاب چھپا کے پڑھنا فورا نظر میں آ جاتا۔ جب کتاب پڑھنا منع نہیں ہے تو چھپا کے کیوں پڑھی جائے۔ یہی وجہ رہی کہ میں وہی وہانوی یا وحی وہانوی کے نام سے بھی بہت دیر میں جا کر واقف ہوا۔ (آپ اس سے میری بے گناہی کا اندازہ کریں، میں مصنف کے نام کی املا سے واقف نہیں) ان موصوف کو پڑھنے کا اتفاق آج تک نہیں ہوسکا۔ اپنی اس محرومی کا احساس اس وقت دو چند ہو گیا، جب دوست نے سوشل میڈیا پر کچھ ایسے پیجز کی بات کی جہاں اردو میں سیکس اسٹوری پڑھی جا سکتی ہیں۔
میں نے پہلی فرصت میں سرچ بار کی پٹی میں ”اردو سیکس اسٹوری“ لکھا، اور ان پر نظر کی۔ ایک صفحہ، دوسرا صفحہ، کئی صفحات؛ سوقیانہ انداز کی تحریریں دیکھ کر مایوسی ہوئی۔ ایسے میں میرے دماغ میں بجلی کا ایک زوردار کوندا لپکا، کیوں نہ سیکسی کہانیوں کو بہتر انداز میں لکھا جائے؟ ایسے لکھا جائے کہ وہ آرٹ کا نمونہ بن جائیں؛ اردو میں مادام بواری، لیڈی چیٹرلے جیسی تحریریں مفقود ہیں۔ گر ڈھنگ سے لکھ پایا تو نینسی فرایڈے نہ سہی سڈنی شیلڈن کے مقام تک تو پہنچ ہی سکتا ہوں۔ میں قلم باندھ کے اس مہم پر نکلا، پہلی ہی کوشش میں ایک بہت اچھی کہانی بن گئی، آپ میرا اعتبار کیجیے وہ ادب پارہ ہے، لیکن۔۔۔ جوش میں لکھ تو بیٹھا، لیکن اس کو شایع کرنے، یا شایع کروانے کا سوچ ہی کر رونگھٹے کھڑے ہو گئے، کہ جہاں تہاں میری پارسائی کا بھرم ہے، وہ بھی جاتا رہے گا۔
اپنی سمجھ کے مطابق یہ نتیجہ اخذ کیا، کہ آپ کچھ بھی کیجیے کسی کو خبر نہ ہونے دیں، ہر طرف شانتی رہے گی؛ اعلان مت کرتے پھریں۔ فی زمانہ یہی دانش مندی کہلائے گی۔ یا کچھ کرنے کا بہت جی للچائے تو اردو زبان میں مت کیجیے، یہ بھی کوئی زبان ہے، جو یہاں کے لوگوں کو سمجھ آ جائے۔ بہتر ہے انگریزی زبان کا سہارا لیجیے۔ میں اردو سیکس اسٹوری شایع کر کے منہ سے آگ نکالنے والا شعبدہ باز تو بن جاتا، یا بندر کا تماشا لگا بیٹھتا، لیکن اس تماشے میں بندر میں خود ہوتا۔ خدا نے خیر کی ”پہ تماشا نہ ہوا“۔
اب تو یہ فسانہ ماضی کا قصہ بن چکا کہ لاہور کے اسٹیج ڈراموں کو عوام میں پذیرائی حاصل ہوئی تھی، تب معتبر حلقوں نے اعتراضات بھی کیے، کہ ان اسٹیج شو میں ناٹک کے نام پر پھکڑ بازی کی جاتی ہے۔ اس میں کوئی شبہہ بھی نہیں کہ شادی بیاہ پر بلائے گئے روایتی بھانڈ مراسیوں کی جگتیں، فن کے نام پر تھیٹر پہ پیش کی جاتی تھیں۔ ہم جیسوں کو بھی غصہ تھا، کہ یہ کیسا فن ہے؛ یہ فن نہیں فن کی توہین ہے۔ (”ہم جیسوں“ کا کیا مطلب ہوا، یہ مجھے نہیں معلوم) زیادہ دکھ اس بات کا تھا، کہ جسے صحیح معنوں میں آرٹ کہا جاتا ہے، اس فن کے قدر دان نہ ہونے کے برابر تھے۔ ایسے ناٹک جو اسٹیج ڈرامے کی تعریف پر پورا اترتے تھے، انھیں دیکھنے کوئی آتا بھی تھا، تو فری پاس لے کر آتا تھا، جب کہ ان اسٹیج مجروں کو دیکھنے کے لیے بلیک میں ٹکٹ خریدی جاتی تھی، جس میں بے ہنگم رقص پیش کیے جاتے تھے۔
ہم بچپن سے یہ سنتے آئے تھے کہ کسی قوم کا مزاج سمجھنا ہو تو شہر کے چوراہے پر کھڑے ہو جاو، اس قوم کی ٹریفک کا احوال دیکھ کر اندازہ ہو جائے گا، قوم کس مزاج کی ہے؛ دوسرا نسخہ یہ بتایا جاتا تھا، کہ اجنبی شہر میں داخل ہوں، تو قریبی تھیٹر میں چلے جائیں، ان کے تھیٹر سے قوم کے اندازِ فکر کا پتا چل جائے گا۔ چوراہے پر جا کھڑا ہوا، ٹریفک کا احوال دیکھ کر مایوسی ہوئی تھی، کہ خدانخواستہ غیر قوم کا فرد یہاں آ پہنچا، تو واپس جا کر ہمارے بارے میں کتنی غلط تصویر بنا کر پیش کرے گا۔ بہت دن اس فکر میں گھلتا رہا، قوم کے ایک ایک بچے کو جا کر کیسے سمجھایا جائے، کہ وہ صحیح سمت پر چلے۔
کرشن چندر نے نہیں تو کسی دوسرے عظیم مصنف نے کہیں لکھا ہے کہ ہر نوجوان شاعر ہوتا ہے یا انقلابی۔ میں شاعر تو نہ ہوا انقلاب لانے کی ٹھان لی؛ سوچا کیوں نہ تھیٹر کو بدل کے رکھ دیا جائے۔ اب قوم کی شان بڑھانے کی ذمہ داری میرے ناتواں کندھوں پر آن پڑی تھی۔ اس سے پہلے کہ اس ذمہ داری کے بوجھ سے میرے ناتواں کندھے جھک جاتے، یہ بوجھ مجھ ناتواں کے کاندھوں سے یک لخت اتر گیا۔ ہوا یوں کہ معروف اداکارہ ثمینہ احمد نے ایک انٹرویو میں کہا، ہم ایسے اسٹیج شو کو وہ مقام دے کر کیوں نہیں قبول کر لیتے، وہ مقام جو یوروپ میں کیبرے ڈانس کے کلب کا ہے؟ میری روح کی تسکین ہوئی کہ چلو ایسا ہی سمجھ لیتے ہیں، آخر بندر کا تماشا لگانے والا بھی تو ہے، منہ سے آگ نکالنے والا بھی اپنے آپ کو فن کار کہتا ہے؛ یہ اسٹیج شو کرنے والے بھی سہی۔ کوئی بدیسی بابو آئے گا، تو اس کو ہم سمجھا دیں گے، کہ یہ تھیٹر وہ نہیں جو ہمارے ذوق کا پتا دے۔
ادھر کچھ نادان فن کار ایسے بھی تھے جن کی نظروں سے ثمینہ احمد کا مذکورہ انٹرویو نہ گزرا تھا۔ وہ اپنی قوم کی ناموس بچانے کے واسطے دن رات ایک کرتے رہے۔ ویسے ہی ڈرامے کیے، جنھیں قوم فری پاس لے کر دیکھتی ہے۔ آخر وہ فن کار بھی نہ رہے، وہ تھیٹر بھی ناپید ہوا، جس کو دیکھ کر غیر قوم کا باشندہ، ہمارے قومی انداز فکر تک جا پہنچتا۔ یہ سب کہنے کی باتیں ہیں، اب احوال یہ ہے کہ اس دھرتی پر وہ غیر ملکی بھی نہیں اترتا، جسے ہماری قومی رویوں سے دل چسپی ہو۔ کہ یہ دیس اور اس دیس کے لوگوں کا انداز فکر اپنے ہی ہم وطنوں کو اک دوجے سے اجنبی بناتا چلا گیا ہے۔
جیسا کہ بیان ہوا اب اس دیس میں کوئی بدیسی بابو نہیں اترتا، جسے ہمارے انداز فکر کی پروا ہو، تو کوئی ضرورت بھی نہیں ہے، ٹریفک کا نظام ٹھیک کیا جائے؛ کوئی ضرورت بھی نہیں رہی، کہ تھیٹر کی حالت زار کو بہتر بنایا جائے۔ ہاں! اب ٹریفک، چوراہا، اور تھیٹر، یہ سب سوشل میڈیا میں آ سمٹا ہے۔ سوشل میڈیا وہ کھڑکی ہے، جس کے پار سب دیکھا جا سکتا ہے؛ قوموں کا احوال پڑھا جا سکتا ہے۔ اندازہ لگایا جا سکتا ہے، کہ قوم کس سمت جا رہی ہے۔ انٹرنیٹ ٹریفک سے ہماری قوم کے مزاج، اس کے ذوق کا پتا چلتا ہے۔ دو برس پہلے کی ایک گوگل رپورٹ کے مطابق ایک دن میں نوے لاکھ پاکستانی بھٹک کر پورن ویب سایٹس پر آ جاتے ہیں۔ حالاں کہ پی ٹی اے نے راہ میں رکاوٹیں کھڑی کی ہیں، لیکن ون وے کا بورڈ دیکھ کر بھی کوئی کب رُکا ہے۔ جب کہ ہند و پاک میں گوگل پر پورن تصاویر دیکھنے والوں کی تعداد کروڑوں میں ہے۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں بانوے فی صد سیل فون صارفین ہفتے میں کم سے کم دو بار تو ضرور اپنے فون کا اسٹیرنگ گھماتے ہوئے فحش ویب سایٹس کی گلیوں میں آ جاتے ہیں۔
یہ تو ہو گیا ممنوع گلیوں کی ٹریفک کا احوال۔ دوسری طرف سوشل میڈیا کا چوراہا ہے، جہاں سب اسٹیرنگ ویل پر بیٹھے ہارن پہ ہارن بجا رہے ہیں۔ کوئی دائیں جانا چاہتا ہے، اس کو لگتا ہے بائیں نے راستہ روکا ہوا ہے۔ کوئی سیدھا جانا چاہتا ہے، اس کو لگتا ہے، پچھلے نے کالر سے پکڑ کے روک رکھا ہے۔ سوشل میڈیا ہی آج کا تھیٹر ہے، جس سے قوم کے انداز فکر کا پتا چلتا ہے۔ یہ قوم آگے بڑھنا چاہتی ہے، لیکن اس قوم کے دشمن بہت ہیں؛ مخالفین ان کو ترقی ہی نہیں کرنے دیتے۔ ہر ایک کو ہر دوجے نے روک رکھا ہے۔ کوئی دوسرے شاعر کی زمینیں چرا رہا ہے، کوئی پوری غزل ہی ہڑپ کر بیٹھا ہے۔ کوئی منٹو پر الزام دھرتا ہے؛ منٹو نے جو سوچا بھی نہیں، وہ بھی منٹو کے منہ میں ڈال کر پیش کر رہا ہے۔
یہاں کیبرے ڈانس کی سی بھی صورت ہے؛ کسی کو قندیل بلوچ کے کپڑے اتارنے ہیں، کسی کو گلالئی کے سیل فون میں محفوظ میسیجز دیکھنے کا اشتیاق ہے۔ کسی کو سیاسی قائد پر کیچڑ اچھالنا ہے، تو کوئی فوج کے گن گا رہا ہے۔ کوئی یوں پریشان ہے کہ امت مسلمہ کا پرسان حال کوئی نہیں؛ کسی کو یہ غم کھائے جاتا ہے، کہ یہاں تو ہر کوئی دانش ور بنا بیٹھا ہے۔ وہ بھی ہیں جو کسی بحث میں نہیں پڑتے، سیدھا ”ان باکس“ میں جا ٹپکتے ہیں؛ لیکن ”ان باکس“ کسی فی میل آئی ڈی کا ہو۔
کون کہ سکتا ہے، قوم نے ترقی نہیں کی؟ سوشل میڈیا پر تعویذ گنڈوں سے علاج بھی ہو رہا ہے۔ پیری فقیری کا دھندا بھی چل رہا ہے۔ خوابوں کی تعبیر؛ محبوب آپ کے قدموں میں اور اس طرح کے قدیمی کاروبار نے جدت اپنا لی ہے۔ پہلے ایسے اشتہار شہر کی دیواروں کو رنگین کرتے تھے، اب کمپیوٹر اسکرین پر جگمگا رہے ہیں۔ ان میں ایسے دردِ دل رکھنے والے بھی ہیں، جنھیں فکر ہے سوشل میڈیا نے نوجوانوں کا اخلاق بگاڑ دیا ہے، اس پر پابندی لگا دی جانی چاہیے۔ یہ بزرگان قوم ایسی ماتمی پوسٹس، سوشل میڈیا ہی پر شایع کرنے آتے ہیں۔ اور ہاں! یہاں میں بھی تو ہوں، جو ”اردو سیکس اسٹوری“ یعنی ایک ادبی فن پارے کو شایع کرنے سے ڈرتا ہے۔ سوچ رہا ہوں وہی وہانوی کے نام سے ایک آئی ڈی بناوں، اور اپنی شاہ کار تحریریں اس نام سے شایع کروں۔
Aug 16, 2017