قریبی عزیزہ کے گھر ولادت با سعادت ہوئی تھی نومولود کو دیکھنے جانا تھا سو اپنی بیٹی کے ہمراہ گئی، وہ ننھے منے کھلونے جیسے بچے کے ساتھ مصروف ہوگئی، مما دیکھیں اس کے ننھے منے ہاتھ، اس کے پاؤں کتنے پیارے ہیں، بالکل روئی جیسے۔ وہاں دیگر خواتین بھی آئی بیٹھی تھیں سب بچے کو دیکھتیں پیار کرتیں دعائیں اور تحائف یا نقدی تھماتی اور اس کے بعد گفتگو گھوم پھر کے ایک ہی مرغوب موضوع پہ آ ٹھرتی کہ بچہ نارمل ہوا یا بڑا آپریشن کروایا، زچہ نے کتنی دیر دردیں برداشت کیں، کتنے دن سے تکلیف تھی، بڑا آپریشن ہوا تو کتنے ٹانکے لگے، نارمل ڈلیوری گر خوش قسمتی سے ہوگئی تو بڑے اشتیاق سے اس قابل ماہر ڈاکٹر کا پوچھا گیا۔
جہاں ڈاکٹروں کی ڈھٹائی کا ذکر ہوا جنھوں نے ظالمانہ قصائیوں جیسے رویے اختیار کر لیے ہیں۔ بزرگ خواتین نے جہاں ان ’موئی ڈاکٹرنیوں‘ کو کوسا جو اپنے پیسے، لمبی فیسیں اور ہسپتالوں کے بل بنانے کے چکر میں ہر مریضہ کو کاٹ پھاڑ دیتی ہیں اور آپریشن کرنے کا کوئی نہ کوئی بہانہ تلاش کرلیتی ہیں وہیں آج کی ان نازک اندام لڑکیوں کو کوسا گیا جو ڈائیٹنگ کر کر کے اپنا بیڑہ غرق کر چکی ہیں نہ کام کی نا کاج کی۔ اور جب کوئی کام نہیں کرنا تو آپریشن ہی کروائیں گی کم بخت۔
بڑی بوڑھیوں کے یہ تبصرے ہم اور ہمارے قبیلے نے تو کان لپیٹ صبر سے سن لیے کہ بے شک لتاڑا جا رہا تھا مگر باتیں کڑوی اور مبنی برحق تھیں مگر اک کم سن سی نو بیاہتالڑکی جو ان سب باتوں پہ برے برے منہ بنا رہی تھی بولی ”دادی اماں اب آپ کی دیسی خوراکوں کا زمانہ لد گیا کھا کھا کر ہم کیا بھینسیں بن جائیں تاکہ ہمارے میاں حضرات ٹی وی پہ کترینہ کرینہ دیپکا اور زیرو سائز دیکھ دیکھ جو بگڑ چکے باہر زیرو سائز ڈھونڈنے نکل جائیں۔
اب اس منہ پھٹ بیانیے پہ بزرگ خواتین نے بظاہر گھورا، دل ہی دل میں مزا لیا اور منہ پہ دوپٹہ دیے ہنسنے لگیں اور ہماری ٹولی نے تو کھلکھلا کے قہقہ لگایا تھا۔ ایک بزرگ خاتون بولیں اولاد حاصل کرنے کا درد بس کہنی کی چوٹ جیسا ہوتا ہے عورت کے لیے، جتنی زور سے لگتا ہے اتنی جلدی ماں بھول کر پھر بچے کی آرزو کرنے لگتی ہے، اب اس کی تردید و تائید میں پھر مختلف آوازیں ابھریں۔ خیر اس خالص زنانہ محفل سے واپسی ہوئی تو گھر آنے پہ ڈاک پہ نظر پڑی کئی نئی کتابیں آئی رکھی تھیں۔ کچھ قریبی دوستوں کی تھیں کچھ مصنفین کی محبت و خوش گمانی کہ وہ ہماری رائے کو معتبر سمجھ کر اس راے کے اظہارہے کے لیے کتاب بھیج دیتے ہیں۔
کچھ احباب کو میسج پہ رسید دی۔ ایک دو قریبی احباب کو فون کرکے مبارک باد دی۔ اب ذکر کتاب کی اشاعت کا ہو تو کیسے ممکن ہے کہ اشاعت گھر کی بات نہ ہو، سو پوچھا کیسی رہی؟ پبلشر کے ہاتھوں مرمت میں کتنے ٹانکے لگے (روح و دل پہ ہی سہی) ۔ کیسا تجربہ رہا کتاب چھپوانے کا، کہا ں کہاں ہاتھ ہوا۔ کیا اس تجربے کے بعد اگلی کتاب لانے کا عزم ہے اور کب تک ہے؟
ظاہر ہے سب کے تجربات ملتے جلتے ہی تھے سوائے ان لوگوں کے جن کے سر پہ کوئی خاص چھتریاں تھیں اور جن کے سروں پہ چھتریاں ہو ں وہ کتابیں بھیجنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے سو سب کی دکھ بھری کہانیاں ملتی جلتی تھیں، اک مصنفہ نے تو آہ بھر کر کہا، کیا عجب روایت ہے۔ یہ کتاب بھی کیسی اولاد ہے کہ خون پسینہ محنت، ذہنی سرمایہ سب ہمارا اور پھر ہمارے ہی ہاتھ خالی یعنی دکھ سہیں بی فاختہ اور انڈے کھائیں میاں کوے۔ کتاب کلچر کے زوال پہ بات ہوئی۔ اشاعت گھروں کی بدمعاشی زیر بحث آئی، مصنفین کی چربہ و سرقہ سازیاں بھی گفتگو کا موضوع بنیں کہ یہ کالی بھیڑیں کیسے حق داروں کا حق غصب کرتی ہیں۔
اب فارغ ہوئی تو دیکھا پاس بیٹھی بیٹی بڑے غور سے مجھے تکتی ہے کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد بولی ”مما میں نے غور کیا وہاں بے بی کے گھر آپ سب شادی شدی عورتیں نارمل ڈلیوری اور آپریشن کی باتیں کررہی تھیں اور اب یہاں آپ سب رائیٹرز کتاب کی پبلشنگ اور اس کے لوازمات وغیرہ کی بات کررہے تھے ایسا کیوں؟ “
میں نے آہ بھر کر کہا بیٹا کیا کریں دونوں طرف معاملہ اولاد کا تھا۔ اک جسمانی اولاد، اک ذہنی اولاد۔ اوراولاد کا درد کہنی کی چوٹ ہوتا ہے جب اور جسے لگتی ہے تو درد تازہ ہو جاتا ہے انسان بلبلا اٹھتا ہے مگر جتنی زور سے یہ چوٹ لگتی ہے انسان اتنی جلدی بھول کر پھر سے چوٹ کھانے کے شوق میں مبتلا ہوجاتا ہے۔