12 فروری 1983 کا دن لاہور میں ایک تاریخ ساز سنگ میل بن کر طلوع ہوا۔ اس دن لاہور کی بیدار، باشعور اور متحرک عورتوں نے ضیاالحق کی رجعت پسند قانون سازیوں کا جنازہ نکال دیا تھا اور اس وقت کے چیف جسٹس پنجاب ہائی کورٹ جاوید اقبال کی جعلی روشن خیالی کو بھی بے نقاب کیا۔
پاکستانی خواتین کے حقوق کی جدو جہد کے حوالے سے 12 فروری کی کڑی آج سے 36 سال پہلے کے ایک واقعے سے منسلک ہے جب 12 فروری 1983 کو لاہور ہائی کورٹ کے سامنے خواتین، وکلا، اساتذہ، ادیب، شعرا اور انسانی حقوق کے کارکنوں اور خواتین کے حقوق کی تنظیموں نے ضیا الحق کے نافذ کر دہ مار شل لا کے خلاف جلوس نکالا۔ یہ احتجاجی جلوس اس وقت پاکستان میں لگی ہوئی جبری پابندیوں، حدود آرڈیننس اور عورتوں کے خلاف امتیازی قوانین مثلاً قانون شہادت کے خلاف نکالا گیا۔ اس پُر امن مظاہرے پر پنجاب پولیس اور خفیہ اہلکاروں نے بھرپور تشدد کیا اور نہتے عوام پر لاٹھی چارج اور آنسو گیس کا استعمال کیا گیا۔ خواتین کو متحد ہونے کے لیے پلیٹ فارم مہیا کیا تاکہ وہ اپنے حقوق کی بازیابی کے لیے جدو جہد کر سکیں۔
ہوا یہ تھا کہ عورتوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم ویمن ایکشن فورم نے قانون شہادت میں ترمیم کے خلاف 12 فروری 1983 کو جلوس نکالنے کا اعلان کیا۔ لاہور کی عورتوں نے پنجاب اسمبلی کے مقابل فری میسن بلڈنگ کے سامنے جمع ہونا تھا۔ یہاں سے انہیں چند سو گز کے فاصلے پر لاہور ہائی کورٹ جا کر چیف جسٹس کو ایک یاد داشت پیش کرنا تھی۔ اس مظاہرے پر حکومتی اہلکاروں کی طرف سے لاٹھی چارج اور آنسو گیس کا استعمال کیا گیا۔ عوامی شاعر حبیب جالب بھی ان کےساتھ تھے، جنہوں نے اس موقع پر خواتین کےلیے ایک نظم بھی پڑھ کر سنائی۔ پولیس نے ان خواتین پر لاٹھی چارج کر دیا، حبیب جالب کا سر پھٹ گیا۔ تقریباً پچاس خواتین کو گرفتار کر لیا گیا۔ اب اس واقعہ کی یاد میں ہر سال 12 فروری کو پاکستانی عورتوں کا قومی دن منایا جاتا ہے۔
یہ سب کیوں ہوا؟ ضیاء آمریت کے ابتدائی برسوں میں خواتین کی تنظیمیں زیادہ مزاحمتی انداز میں سامنے نہیں تھیں۔ اسلامی اقدامات کے نام پر ملازمت پیشہ خواتین کو ایک خاص طرح کے لباس کا پابند کیا گیا۔ ٹی وی پر آنے کے لیے ایک خاص لباس مقرر ہوا۔ مخلوط محافل کو روکا جانے لگا۔ عورتوں اور مردوں کے باہمی میل جول پر رکاوٹ ڈالی گئی اور جب ٹی وی پر ڈاکٹر اسرار کے لیکچرز میں خواتین کی معاشی سرگرمیوں پر تنقید ہونے لگی تو خواتین تنظیمیں اس کے جواب میں سرگرم ہوئیں۔ فہمیدہ اللہ بخش کیس نے پورے ملک میں عورتوں کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ گذشتہ دہائیوں میں عورتوں کو حاصل ہونے والی معاشی اور سماجی آزادیاں خطرے میں تھیں۔ اس واقعے نے ریاست اور عورت کے باہمی رضامندی کے تعلق کو مزاحمت اور تنازع میں بدل دیا۔ زنا آرڈیننس نے زنا بالرضا اور زنا بالجبر کی تفریق ختم کردی۔ ریپ کو ثابت کرنا ناممکن کردیا گیا۔ ایسی قانونی پیچیدگیاں رکھی گئیں کہ متاثرہ خواتین مجرم بن گئیں اور مجرم آزاد ہو گیا۔
شاید بہت کم لوگ جانتے ہوں گے کہ عورتوں کی تحریک، عورتوں کے اظہار کے ساتھ جڑی ہوئی ھے۔ حقیقت میں فنون لطیفہ سے تعلق رکھنے والی تمام عورتیں ضیا کے اسلامائیزیشن والے عمل سے براہ راست متاثر ھوئی تھیں کیونکہ ضیا چادر اور چاردیواری والے اسلام کو آلے کے طور پہ استعمال کرتے ہوئے ایک طرف اپنی سیاسی مخالف عورتوں کو کنٹرول کرنا چاھتے تھے تو دوسری طرف پاکستان کی پچاس فیصد سے زائد آبادی کو سیاسی و تخلیقی عمل سے باہر رکھنا چاہتے تھے۔
ضیا کے دور کی عورت کی جدوجہد ریاست سے تصادم میں تھی جو عورتوں کو قوانین کے ذریعے چادر اور چاردیواری تک محدود کرنے پہ تلی تھی۔
مگر آج کی عورت کو سماج میں پدرشاھی اقدار کے ساتھ مذھبی انتہا پسندی سے بھی نبرد آزما ہونا پڑ رہا ہے۔
گذشتہ نسل کی طرح آج کی عورت کو ورثے میں ترقی پسند ماحول کے بجائے زوال پذیر معاشرہ ملا ہے جس میں اس کی اپنی جگہ روز بروز سکڑتی جا رہی ہے۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ پاکستان اور اس کے ہمسایہ جنوبی ایشیائی ملکوں میں بھی خواتین کے چند بنیادی حقوق کا تحفظ اب بھی قانونی دستاویزات میں تو موجود ہے تاہم اس پر پوری طرح عملدرآمد نہ ہونے کے سبب عورتوں کی صورت حال نہایت دگرگوں ہے۔ سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ خواتین کے مساوی حقوق کا تصور ان معاشروں کے مردوں کی اکثریت کے لیے اب بھی قابل قبول نہیں۔ عورت اب بھی مرد کی جاگیر تصور کی جاتی ہے۔ تعلیم سے بے بہرہ معاشرتی طبقے میں تو ایسا ہے ہی مگر تعلیم یافتہ طبقے میں بھی آئے دن ہونے والے واقعات اس امر کا مُنہ بولتا ثبوت ہیں کہ معاشرے کے مرکزی دھارے کا عورت کے مقام کے بارے میں تصور، سوچ اور رویہ بدل نہیں پایا۔ جنوبی ایشیائی معاشروں میں روزمرہ زندگی کے چھوٹے موٹے واقعات اور گھریلو مسائل سے لے کر پارلیمان کے ایوانوں تک عورتوں کے ساتھ مردوں کا رویہ اس امر پر غور کا متقاضی ہے کہ آخر ایسا کیوں ہے؟