محبت ناکافی سمجھنے کی تین غلط وجوہات

محمد کولمبس خان

محترمہ ڈاکٹر لبنہ مرزا صاحبہ نے۔ وہ تین وجوہات جب محبت ناکافی ہوتی۔ کے زیر عنوان ہم سب کے لئے ایک مضمون تحریر کیا ہے۔ اور ظاہر ہے کہ اپنے نظریہ اور تجربہ کی بنیاد پر لکھا ہے۔ ان کے اس معاملہ میں اخلاص اور اندرونی سچائی پر شک کیے بغیر اور ان کی کوشش کی تعریف کے ساتھ ان کی ناپختہ تحریر پر تنقید لازم ٹھہرتی ہے۔

عنوان پڑھ کر لگتا تھا کہ وہ۔ محبت۔ کی تعریف بھی کریں گی لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا ہے۔ اور دو بنیادی سوال اٹھائے ہیں۔

۔ کیا محبت سب کچھ ہے؟ کیا کسی بھی رشتے یا تعلق کی کامیابی اور سالمیت کا دارومدار صرف محبت پر ہوسکتا ہے؟

۔ وہ کون سی وجوہات ہیں جن کی بنیاد پر محبت ہوتے ہوئے بھی محبوب سے قطع تعلق ضروری ہوجاتا ہے؟

سبھی جانتے ہیں کہ مادے میں بھی ایک دوسرے کے لئے کشش پائی جاتی ہے جیسے مقناطیسی یا کشش ثقل۔ اور اس کے قوانین سے انسان آگاہ ہے اِن کو اب سائینسی درجہ بھی حاصل ہے۔ جانداروں کے مابین کشش بھی ہوتی ہے اوراس کے برعکس صورت بھی۔ اس کشش سے ملتے جلتے احساس کو اگر محبت کا نام دیا جائے تو مضمون نگار کا دوسرا سوال یعنی۔

۔ وہ کون سی وجوہات ہیں جن کی بنیاد پر محبت ہوتے ہوئے بھی محبوب سے قطع تعلق ضروری ہو جاتا ہے؟

پیدا ہوتا ہے۔

انہوں نے جو تین وجوہ مثالیں دے کر پیش کی ہیں یہ پیچیدہ انسانی تہذیب کے کروڑویں حصّہ کی بھی نمائیندہ نہیں ہیں اور اسی نوع کی ایک چھوڑ تین ہزار مثالیں تائید میں دی جا سکتی ہیں اور اس کے بر عکس بھی۔ لہذا۔ علیحدگی اختیار کر لینے کے لئے ان کی بیان کردہ۔

۔ پہلی وجہ: جب آپ اپنی زندگیوں ‌ میں ‌ مختلف چیزیں چاہتے ہیں۔

محبوب سے علیحدگی کے لئے قطعاً ناکافی ہے اگر دیکھا جائے تو مرد عورت اپنی ضروریاتِ تخلیق کی بنا پر ایک دوسرے سے نہایت مختلف ہوتی ہیں اور چیزوں کی محض مختلف پسند کو علیحدگی کا جواز فراہم کرنا اپنے اندر کوئی معقولیت نہیں رکھتا۔ معروف مقولہ ہے۔ جہاں چاہ (محبت) وہاں راہ (ممکنات)

ایک ایسی سچائی ہے جو ہر تہذیب میں محاورہ کے طور پر پائی جاتی ہے۔ ایک عورت نے ایسی ہی ایک غیر معقول وجہ سے اپنے خاوند سے علیحدگی حاصل کی جس نے اسے صرف بوٹ پالش کرنے کی درخواست کردی تھی۔ گویا حقیقی وجوہات اور ہی ہوں گی جو اس وجہ کے پیچھے ڈھکی ہوئی تھیں۔

پھر آپ لکھتی ہیں

۔ محبت کافی نہ ہونے کی دوسری وجہ: جب دو افراد کی ذاتی اخلاقیات مختلف ہوں تو ان کا ساتھ میں ‌ چلنا بہت مشکل ہوتا ہے۔

اس وجہ کے بیان میں بنیادی سقم یہ ہے کہ ذاتی اخلاقیات کے اختلاف کا ادراک محبت کے آغاز میں نہ ہونا ایک المیہ تو ہو سکتا ہے لیکن نادانستہ تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔ مغرب میں لوگ سالوں اکٹھے رہ کر اور خوب جانچ پڑتال کے بعد شادی کرنے والوں کے لئے علیحدگی اس بنا پر تو ممکن نہیں ہونی چاہیے لیکن آئے روز ایسا ہوتا ہم دیکھتے ہیں۔ اور ارینجڈ میریجز میں ان باتوں کا پہلے جائزہ لیا جاتا ہے۔ اس استثناء کے ساتھ کہ کوئی اندھیرے کنویں میں چھلانگ لگا دے۔

آپ لکھتی ہیں

۔ تیسری وجہ جب محبت کافی نہیں ‌ ہوتی یہ ہے کہ آپ یا آپ کے ساتھی خوش نہیں ‌ ہیں۔ زندگی ایک مرتبہ ہی ملتی ہے۔

انکی یہ بات درست ہے کہ یہ زندگی ایک بار ہی ملتی ہے۔ لیکن ایک مغربی فلاسفر کے فلسفہ حیات کے مطابق اس کا کہنا کہ۔ اگر آپ دوسروں کے لئے جیتے ہیں تو زندگی ایک نعمت ہے لیکن اگر آپ محض اپنے لئے ہی جیتے ہیں تو زندگی ایک المیہ ہے۔ میں بھی ملحوظ خاطر رکھنے کے لئے اخلاقی صداقت پائی جاتی ہے۔

آخر پہ ڈاکٹر صاحبہ کے خیال میں ان مصائب و آلام کا مداوا۔ پال سائمن۔ کے الفاظ میں یہ ہے کہ

۔ کچھ زیادہ بحث کی ضرورت نہیں

بس چابی چھوڑ جاؤ ؎

اور خود کو آزاد کرلو

! عزیزہ۔ آپ تو

تو برائے وصل کردن آمدی

نے برائے فصل کردن آمدی

کے برخلاف علیحدگی کی حوصلہ افزائی اور نصائح فرما رہی ہیں۔ حالانکہ

پال سائمن کے علاوہ دنیا میں اور بھی لوگ پائے گئے ہیں۔ ذہنی وسعت کا تقاضا ہے کہ ان کا بھی مطالعہ کیا جائے۔ جنہوں نے اس موضوع پر خامہ فرسائی کی ہے، مثلاً

اس جہاں میں خواہشِ آزادگی بے سود ہے

اک تیری قیدِ محبت ہے جو کردے رستگار

مضمون نگار چونکہ۔ محبت برائے خوشی۔ کی قائل ہیں اس طرح ایک نیا مسٗلہ بھی کھڑا کر دیتی ہیں۔ یعنی

۔ خوشی۔

خوشی کیا ہے؟ مادی ضروریات کی تسکین؟ نہیں یہ کافی نہیں ہے۔ دیکھا جائے تو خوشی کا دارومدار بھی ان کے بیان کردہ دوسرے نکتہ یعنی اخلاقیات پر ہے۔ کہنے والے کہتے ہیں ایک مرحلے پر عشق معشوق کو عاشق بنا دیتا ہے۔ لہذا جہاں یہ کہا جا سکتا ہے کہ۔ اک عمر چاہیے۔ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ۔ اک عمر پڑی ہے۔

اس لڑکی نے جو چھوہنا چھوہیا ہے اس کے اتنے ہی نزاعی پہلو یا حل ہیں جتنے سوچنے والے انسان۔

لیکن

یہ تجربہ ساغر صدیقی کا درست معلوم ہوتا ہے کہ

رکھتے ہیں جو اوروں کے لئے پیار کا جذبہ

وہ لوگ کبھی ٹوٹ کر بکھرا نہیں کرتے

اپنا آزمودہ ہے اور لفظ۔ اوروں۔ پر زور ہے۔ اس کو آزما کردیکھیے۔