کبھی ایسا بھی ہوا ہے کہ اپنی ہی آواز کانوں میں سُنائی نہ دے، اپنے الفاظ ہی نامانوس لگیں اور اپنے ہی چہرے کی آنکھیں دھوکا کھانے لگیں۔ یقین مانیے ایک ایسا ہی معاشرہ مرتب ہو گیا ہے جہاں نہ آوازیں سُنائی دے رہی ہیں، نہ چہرے دکھائی دے رہے ہیں اور نہ ہی لب جنبش میں ہیں۔
مبارک ہو سرکار! ایسا معاشرہ وجود میں آ گیا ہے جہاں آواز رکھنے والے گونگوں، سماعت کی صلاحیت کے باوجود بہروں اور آنکھوں والے اندھوں کی تعداد میں بے تحاشہ اضافہ ہو گیا ہے۔
سانحہ موٹروے پر خاتون اجتماعی زیادتی کا نہیں ریاستی بے حسی کا شکار ہوئی ہے۔ پولیس کی ناکامی کا نہیں بلکہ اداروں کی ناکامی کا نشانہ بنی ہے۔
یوں تو حد درجہ اعتماد کے شکار سی سی پی او لاہور عمر شیخ نے درست فرمایا ہے کہ خاتون کو معلوم نہیں تھا یہ فرانس نہیں پاکستان ہے، خواتین وہاں محفوظ ہوتی ہیں جہاں ریاست کی رٹ ہوتی ہے، قانون کی حکمرانی ہوتی ہے۔
جناب سی سی پی او صاحب کا یہی وہ سچ ہے جس پر وہ اصل میں مبارکباد کے مستحق ہیں۔ قوم ان کی مشکور ہے کہ انھوں نے عوام کی آنکھیں کھولیں اور انھیں خوابِ غفلت سے جگایا۔
یہی وہ معاشرہ ہے جہاں ہم ایک طرف ریاست مدینہ کی تسبیح پروتے نہیں تھکتے اور دوسری جانب الزام مظلوم پر ہی لگا دیتے ہیں۔ قاتل سے ہمدردی اور مقتول کو ملزم بنا دیتے ہیں۔ بدن پر پہننے والے کپڑوں کا حساب دینے کے دعوے اور آبرومندوں کو بے لباس کر دیتے ہیں۔
یہ صرف ایک واقعہ نہیں بلکہ اطلاعات کے مطابق اس سال اب تک خواتین اور بچیوں سے زیادتی کے واقعات میں دو سو فیصد اضافہ ہوا ہے۔
صرف پنجاب پولیس کے اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ اس سال یکم جنوری سے لے کر 31 جولائی تک سات ماہ کے دوران پنجاب بھر میں 2043 زیادتی کے کیسز درج ہوئے جن میں سے 1371 کا چالان پیش کر دیا گیا، 295 مقدمات زیر تفتیش ہیں جبکہ 375 مقدمات واپس لے لیے گئے ہیں۔
ناصرف یہ بلکہ قتل، ڈکیتی اور راہزنی کے واقعات میں بھی کئی گنا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ یہ سب تب ہوتا ہے جب معاشرے افراتفری کا شکار ہو۔
ہر گزرتے دن کے ساتھ خوف کے سائے گہرے ہو رہے ہیں۔ خوف کا سبب جرائم کی شرح نہیں بلکہ وہ انکار ہے جس کا شکار ریاست ہو چکی ہے، وہ افراد ہیں جو مظلوم کو قصوروار ٹھہرا دیتے ہیں۔
لکھتے ہوئے خوف آتا ہے کہ غربت، بے روزگاری اور سماجی نا انصافی جس حد تک بڑھ گئی ہے کہیں کسی دن بھوکے عوام ایک دوسرے کو ہی نوچنا نہ شروع کر دیں۔
ان وجوہات کے ساتھ ایک وجہ معاشرے کا غیر جمہوری اور اقتدار کا غیر فطری ہاتھوں میں ہونا بھی ہے۔ عدم اطمینان کا شکار معاشرہ اپنی آواز سے محروم ہو رہا ہے اور عدم انصاف اور احتساب نااُمیدی کو جنم دے رہے ہیں۔
بار بار یہ جملے دہرانے کا مقصد یہ ہے کہ ارباب اقتدار اس بات کو سمجھنے بوجھنے کے باوجود قطعی طور پر یا تو بے خبر ہیں یا خاموش شریک جرم۔
ایک ہی ہفتے میں اداروں کے خلاف تنقیدی موقف رکھنے پر تین صحافیوں ابصار عالم، بلال فاروقی اور اسد طور کے خلاف غداری کے مقدمات کا اندراج اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ آنے والے دنوں میں حبس کچھ اور بڑھے گا۔
سوال اٹھانے والے معتوب ٹھہرائیں جائیں گے، کسی کو گالی اور کسی کو گولی سے خاموش کرائے جانے کی پالیسی اپنائی جا سکتی ہے۔
کراچی کی مرکزی شاہراہ پر ریلیاں، فرقہ وارانہ نفرت آمیز نعرے اور سوشل میڈیا پر اُن کی گونج۔۔۔ مگر ریاستی اداروں کی ایسے شرپسندوں کے خلاف خاموشی سوالات پر سوالات کو جنم دے رہی ہے جبکہ جواب میں پھر صرف خاموشی ہے۔
جناب! کچھ کیجیے ورنہ سب سے سستی اس خاموشی کی بھاری قیمت بھی چکانا پڑ سکتی ہے جس کا یہ ملک متحمل نہیں ہو سکتا۔