آٹھ مہینوں میں لاہور میں ستتر بچیوں کے ساتھ جنسی زیادتی کا انکشاف

 
میں طوائف کو برا کیوں سمجھوں جب تک ہمارے معاشرے میں عمران علی جیسے کرداروں کی کمی نہ ہو۔ جب تک ہمارے کوڑے کرکٹ کے ڈھیروں سے زینب جیسی کلیوں کی لاشیں تڑپتی دکھائی نہ دیں۔ جب تک ہم سے کفن میں لپٹی لاشیں محفوظ نہ ہوں۔ جب تک فریال جیسی تین سال کی معصوم بچی درندگی سے بچ نہ پائے۔ تب تک ہاں تب تک میں کوئی حق نہیں رکھتا طوائف کو برا کہنے کا۔ لوگ سوچیں گے کے یہ شخص پاگل ہو گیا ہے؛ ہاں میں پاگل ہو گیا ہوں۔ فرشتوں کی عزت پامال ہوتے دیکھ کر۔
چھوڑو زینب کو چھوڑو فریال کو یہ تو ایک عدد بچی کے بارے میں ہم جانتے ہیں۔ آئیے اب تھوڑا سا روایتی سچ بھی جان لیجیے۔ آصف چودھری کے رپورٹ کے مطابق (10 اگست 2018 ڈان نیوز)
According to official data, total 77 cases of rape of minor girls were reported in the provincial capital from January 2018 to the first week of August this year.
Most of such cases surfaced in the Cantonment Division of the city, where 31 minor girls were subjected to rape, followed by Model Town and city divisions where 16 and 12 cases were reported, respectively.
یعنی آٹھ مہینوں میں صوبائی درالحکومت لاہور میں ستتر بچیوں کے ساتھ جنسی زیادتیوں کا انکشاف اور اُن میں سے بھی زیادہ تر کنٹونمنٹ کے علاقے میں۔
ان اعداد و شمار کو دیکھ کر کبھی کبھی مجھے لگتا ہے کہ ہمیں طوائفوں کا مشکور ہونا چاہیے۔ نجانے ہر ڈھیر پر ایک زینب ہوتی اور ہر کوچے میں ایک فریال ہوتی۔ دراصل ہم حیوانوں سے بھی بد تر ہو گئے ہیں۔ کسی نے سچ بولا ہے:
ہم جو انسانوں کی تہذیب لئے پھرتے ہیں
ہم سا وحشی کوئی جنگل کے درندوں میں نہیں
اول تو معاشرت نے عورت کو طوائف بننے پر مجبور کیا، دوئم اُن کا مذاق اُڑانا شروع کیا۔ اے ابن آدم ہوش کے ناخن لے، یہ نہ ہو کے کل آپ کا بیٹا، ہاں آپ ہی کا بیٹا انجانے میں آپ ہی کی کسی ناجائز بیٹی کے ساتھ وہی کر رہا ہو، جو آج تم کسی کی بیٹی کے ساتھ کر رہے ہو۔ کیوں کہ یہ قدرت کا قانون ہے، جیسا باپ ویسا بیٹا اور معاشرے کی کم ظرفی کی وجہ سے اکثر طوائف کی بیٹی بھی طوائف ہی نکلتی ہے۔
اِسی رپورٹ میں آصف چودھری لکھتے ہیں، کہ صرف آٹھ واقعات کے خلاف پنجاب کے مثالی پولیس نے کارروائی کی۔ باقی سب کبھی نہ ملنے والے ثبوتوں کے بھینٹ چڑھ گئے۔
سرکار کو اس معاملے پر سنجیدگی سے سوچنا چاہیے۔ اکیلے عمران کی پھانسی سے کچھ نہیں ہو گا۔ کہیں اِس معاملے نے کاروبار کی شکل تو نہیں اپنائی، ڈاکٹر شاہد معسود سچ تو نہیں کہ رہا تھا؟ اُن کی باتوں کا مذاق کیوں بنایا؟ ان کو پھر بِنا بد عنوانی ثابت کیے جیل میں کیوں ڈالا؟ من میں طرح طرح کے وہم جنم لیتے ہیں۔ شاید سچ بھی ہو۔
یہاں تہذیب بکتی ہے یہاں فرمان بکتے ہیں
تم ذرا دام تو بدلو یہاں ایمان بکتے ہیں
اب عوام کو خاموشی کی زنجیریں توڑ دینی چاہیے۔ کل زینب ملی آج فریال نجانے آگے کیا ہو گا۔ ہم حیدر آباد، گجرات میں مسلمانوں کے ساتھ ہونے والے واقعات کا ڈھنڈورا تو بڑے اشک بار آنکھوں سے کرتے ہیں۔ ہم کشمیر کی مظلوم ماؤں بہنوں کے فریاد بنتے ہیں۔ ہم فلسطین کی آواز بنتے ہیں۔ برما کے مظالم پھر ہمارا خون کھلتا ہیں۔ اگر دنیا کی نظروں سے دیکھا جائے تو ہم سا بہادر کوئی نہیں۔ لیکن یہاں ہمارے ہاں ڈیرہ اسماعیل خان میں انتقامی کارروائی کے طور پر لڑکی کو برہنہ حالت میں پورے محلے میں گھمایا جاتا ہے لیکن تب ہمارا خون نہیں کھولتا۔ یہاں انقلاب کے نام پھر حاملہ عورتوں کو سڑکوں پر لایا جاتا ہے، پھر وہاں پھر جنم لینے والی ایک بچی کو بڑے فخر کے ساتھ فاطمہ انقلابی کا نام دیا جاتا ہے، لیکن ہم ٹس سے مس نہیں ہوتے۔ ذرا سوچیئے! کل وہ لڑکی دوستوں سے کیا کہے گی کہ میں دھرنے میں پیدا ہوئی تھی۔ افسوس کا مقام ہے کہ کل اُسی لڑکی کا مذاق اڑانے والا کوئی اور نہیں ہم میں سے ہو گا۔
اے بنت حوا! میں نادم ہوں، کل تک تیری حفاظت میرے ذمے تھی لیکن آج تجھے محفلوں کی زینت بنانے والے کوئی اور نہیں میں خود ہوں۔ کل تیری ایک پکار پر میں نے داہر کی حکومت تباہ کر دی لیکن آج تیری فریادوں پر کان بند کرنے والا کوئی اور نہیں میں ہوں۔ ہاں میں ابن آدم ہوں میں تمھاری بربادی کا ذمہ دار ہوں، میں شرم سار ہوں۔