عدنان خان کاکڑ
روایت چلی آ رہی ہے کہ سال کے آخری دن سب لوگ گڑگڑا گڑگڑا کر ویسے ہی دوسروں سے معافی مانگتے ہیں جیسے نیک لوگ حج پر جانے سے پہلے۔ چند مستثنیات بھی ہیں۔ مثلاً کچھ شریر لوگ بھی ہوتے ہیں جو کہتے ہیں کہ جو پچھلے سال کیا تھا اس سال بھی وہی کریں گے، کسی نئی چیز کی توقع مت رکھو۔ کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو کہتے ہیں کہ نیا سال منانا ویسے ہی غلط ہے اور معافی مانگنا تو بالکل ہی غلط ہے، اس لئے وہ بھی ”سب“ میں شامل نہیں۔
بہرحال جو انسان یوں معافی مانگتے ہیں، وہ بہت اچھا کرتے ہیں۔ انسان خطا و نسیان کا پتلا ہے۔ کبھی شادی پر مبارکباد دینا بھول جاتا ہے اور اس پر دل دکھا دیتا ہے، کبھی مرگ پر مبارکباد دے کر پھنس جاتا ہے، اور کبھی بلاوجہ ٹانگ اڑا کر اپنی ٹانگ تڑوا لیتا ہے۔
اسی انسان طرح ملنے جلنے میں سو غلطیاں کر بیٹھتا ہے۔ بعضے ٹھیک سے احترام نہیں کرتے، اور بعض بلاوجہ ہی اتنا احترام کر ڈالتی ہیں کہ بندے کے جذبات کا خون ہو جاتا ہے۔
پھر علما کی فکری بحثیں بھی ہوتی ہیں جو کسی لفظ کے املا کو پکڑتے ہیں اور آخر میں دل تھامے اٹھتے ہیں۔ کچھ کی سیاسی خطائیں ناقابل معافی قرار پاتی ہیں۔ وہ ہمیشہ ایسے لیڈر کو سپورٹ کرتے ہیں جو یا تو نہایت کرپٹ ہوتا ہے یا اس سے بھی برا یعنی مہا احمق۔ عموماً غلط لیڈر کی سپورٹ سب سے بڑی گستاخی ہوتی ہے۔
بہرحال انسان ان میں سے خواہ جس طبقے سے بھی تعلق رکھتا ہو، اس کے لئے سال کا آخری دن اپنی غلطیوں کی معذرت کرنے کا ایک اچھا موقع ہوتا ہے۔ پرانے سال کی خطاؤں پر معافی مانگ کر ایک کورے کاغذ کی طرح جیون شروع کر دینا چاہیے۔ اتنی تمہید باندھنے کا مقصد یہ ہے کہ آپ میں سے جو بھی معافی مانگنا چاہتا ہے، مانگ لے۔ میں کوشش کروں گا کہ دل بڑا کر کے معاف کر دوں۔ جہاں تک رہی اپنی بات، تو یہ بات تو ہم سب جانتے ہی ہیں کہ ”میں غلطی کر ہی نہیں سکتا، غلطی ہمیشہ دوسروں کی ہوتی ہے“۔