ایک بار پھر کشمیر کے ناسور سے اٹھی ٹیس، ایک درد بن کے پورے خطے پہ چھائی ہے۔ عوام چلا رہے ہیں، ‘جنگ نامنظور’۔ بھارتی چینل چلا رہے ہیں، مار دو، گرا دو، نیست و نابود کر دو۔ فوجیں دونوں طرف سرحدوں پہ پرے جمائے کھڑی ہیں اور جھڑپیں جاری ہیں۔
یہ جھڑپیں ،پتھروں کے پتھروں سے ٹکرانے کا نام نہیں۔ انسان کا انسان کو مارنے کے ارادے سے آگے بڑھنے کانام ہے۔ یہ بات کس قدر بھیانک ہے کہ بالکل، میری ہی وضع قطع کا، میری ہی زبان بولتا شخص، جسے ضرورت پڑنے پہ میرا ہی خون لگایا جا سکتا ہے۔ مجھے ہی مارنے کے ارادے سے چلا آ رہا ہے۔
بات کہاں سے شروع ہوئی ؟ وہیں سے ، جہاں پچھلے بہتر سال سے رکی ہوئی ہے ۔ کشمیر میں آزادی کی جنگ جاری ہے اور پاکستان اس جنگ کو ہر طرح سے اپنائے ہوئے ہے۔ اس دوران، اس خطے میں جو بھی ہوا، اس کے ڈانڈے کسی نہ کسی طرح مسئلہ کشمیر سے جا کے ملتے ہیں۔
کہنے والے کہتے ہیں کہ 65 کی جنگ، کشمیر چھیننے کے لیے شروع کی گئی ۔ اکہتر کی جنگ اس کا بدلہ تھی۔ افغانستان میں امریکہ کی پراکسی لڑنے کی حامی بھی اسی لیے بھری گئی کہ اس کی بعد خالصتان کی تحریک، چلا کر اکہتر کا بدلہ لیا جائے گا ۔ بلوچستان میں شورش ، خالصتان تحریک کا بدلہ ۔
کارگل کا بدلہ، کارگل ہی میں لے لیا گیا ۔ اوڑی کا بدلہ ایک مبینہ سرجیکل سٹرائیک، مبینہ سرجیکل سٹرائیک کا بدلہ مبینہ پلوامہ حملہ اور اس حملے کا جواب، بالا کوٹ۔ بالا کوٹ حملے کا جواب ابھی نندن کی گرفتاری۔ بدلہ در بدلہ در بدلہ ۔ تین نسلیں اس آگ میں کون جھونک گیا؟
ابھی نندن، جس چشمے پہ لوگوں سے پٹ رہا تھا، ایسے چشموں کے کنارے ابھی نندن کی عمر کے جوان، گانے گاتے، مسکراتے اچھے لگتے ہیں۔ بم پھینک کر اپنے جیسوں کو مارنے اورناکامی کی صورت میں ان کے ہاتھوں پٹنے اور ذلیل وخوار ہونے کے لیے وہ جگہ قطعاَ غیر موزوں تھی۔ جنگ کی اس سرسامی کیفیت میں مجھے کچھ عجیب سوجھتا ہے ۔
پائلٹ صدیقی ،کیپٹن علی اور ابھی نندن دوست بھی تو ہو سکتے تھے؟ بہت ممکن تھا کہ علی گیت لکھتا اور نندن ان کی دھن بناتا۔ آس پاس کے بکر وال، سکھ سے بکریاں چراتے ان کے گیتوں پہ سر دھنتے۔ سری نگر کی ڈل جھیل میں شکارے ڈولتے اور اس کے کنارے نرگس اور ٹیولپ کے مزرعوں میں، گلابی رنگت اور سنہرے بالوں والی لڑکیاں، بے فکری اور آزادی سے گھومتیں۔
شال باف، شالیں بنتے، کانچ کے پیالوں میں زعفران بھیگتی اور کشمیری چائے کے سماواروں سے بادیان خطائی کو خوشبو اڑا کرتی ۔
مظفر آباد کے بازاروں میں کانگڑیاں لیے ہندو پنڈت بھی پھرتے۔ وادی میں دفن تاریخ پہ تحقیق ہوتی۔ کشمیری بچے بھی پتھر اچھالنے کی جگہ، گیند اچھالنا سیکھتے۔
کاش ، آزادی کا مطلب ہم سمجھ پاتے، کاش ہم ایک دوسرے سے محبت کرنا سیکھ پاتے، کاش انگریز جاتے جاتے، ہمارے سروں پہ ایک ایسی ضرب لگا جاتا کہ ہم شہاب الدین غوری اور پرتھوی راج چوہان کو بھول کے فقط ، کبیر، کے دوہے گا سکتے۔
کاش ہم، کئی سو سال پہلے مر جانے والے سورماؤں کی سی مونچھیں رکھ کے ایک دوسرے کو دھمکانے کی بجائے، ان ہی صدیوں میں گیت گانے اور پھول اگانے والوں کو یاد رکھ سکتے۔ کاش سیاستدانوں کو لاشوں کی بجائے نظریات پہ سیاست کرنی آجاتی۔ مذہب، رنگ و نسل اور زبان کا تعصب نابود ہو جاتا۔ کاش ہم اپنی گنگا جمنی تہذیب کو یاد رکھتے۔
کاش جو کچھ ہوا اور جو کچھ ہونے والا ہے، کاش یہ سب کچھ نہ ہوتا اور نہ ہو۔ کوئی اس جنگ کو روک لو۔ لائن آف کنٹرول پہ سفید پھریرا لہرا دو۔ کشمیر کا مسئلہ حل کردو۔ ابھی نندن ! اگلی بار آنا تو اپنے جہاز میں بم نہیں پھول بھر کے لانا۔ کاش یہ سبق تمہارا بیٹا سیکھ جائے ۔ کاش تم ہمارے بیٹوں سے دشمنی چھوڑ دو۔ کاش قابیل کی اولاد کی یادداشت کھو جائے، کاش اے کاش !