مانسہرہ میں ایک دس سالہ بچے کے ساتھ مدرسے کے منتظم کی مبینہ بد فعلی کے واقعے نے ایک بار پھر ہماری توجہ معاشرے کے بیمار جنسی رویوں کی طرف مبذول کرائی۔ نہ یہ سانحہ نیا ہے نہ اس کی تفصیلات نئی۔ میں نے جب سے ہوش سنبھالا، اخبارات میں اس نوعیت کی خبریں پڑھتی چلی آ رہی ہوں۔ صرف اخبارات ہی میں کیا، زبانی کلامی، سرگوشیوں میں مسجدوں میں پڑھنے والے بچوں، پان سگریٹ کی دکانوں، ورکشاپوں، بسوں کے اڈوں پر پھرنے والے ’چھوٹوں‘، فیکٹریوں میں کام کرنے والے لڑکوں اور بچوں کے بارے میں یہ ہی سنا کہ یہ سب کسی نہ کسی عمر میں جنسی زیادتی کا شکار ہوتے ہیں۔ یہ ایک کھلا ر…
آمنہ مفتی گذشتہ ہفتے ادب کا نوبل انعام پانے والے دو ادیبوں کے نام کا اعلان ہوا تو پاکستان کا ہر لکھنے والا ایسے خفا ہو گیا جیسے یہ انعام اسی کو ملنا تھا۔ حد یہ کہ وہ برگزیدہ ادیب جنھوں نے عمر بھر سوائے انجمن ستائش باہمی چلانے کے اور لابی لابی کھیلنے کے کچھ نہ کیا وہ بھی بڑ بڑا رہے ہیں کہ بھئی یہ یورپ سے باہر نکل کر کیوں نہیں دیکھتے؟ ہم بھی تو پڑے ہیں راہوں میں۔ اب بات یہ ہے کہ اگر یہ انعام ان دو ادیبوں کو نہ دیا جاتا اور کسی اور کو دے دیا جاتا تب بھی یہ لوگ اسی قدر خفا ہوتے۔ تب تاویل کچھ اور دی جاتی۔ حد یہ ہے کہ اگر یورپ کی حد سے دور ب…
آمنہ مفتی Twitter پرسوں رات ایک سہیلی نے خبر دی کہ محسن عباس کی بیگم فاطمہ سہیل نے ان پر تشدد کا الزام لگایا ہے اور چند گھنٹوں میں ہی یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی جسے آج کی زبان میں وائرل ہونا کہتے ہیں۔ جتنے منھ اتنی باتیں، لیکن فاطمہ کے چہرے اور ہاتھ کے نیل کچھ اور ہی داستان سنا رہے تھے۔ وہ خواتین (اور یہاں کون ہے جس نے بند کمروں کے پیچھے طمانچے کھا کے اپنی شادی نہیں بچائی؟) جو بد قسمتی سے گھریلو تشدد سے آگاہ ہیں۔ ان نشانات کو بخوبی پہچان گئیں ہوں گی۔ یہ کلائی مروڑنے کے نیل اور یہ گال پر ابھرے تین انگلیوں کے نشان۔ محسن عباس کا کہنا ہے کہ…
آمنہ مفتی بزرگوں سے (جن میں سے اب کوئی باقی نہیں رہا) سنا کہ گئے وقتوں میں ٹھگ لوٹا ہوا مال دیگوں میں بھر کے زمین میں گاڑ دیا کرتے تھے۔ کہنے والے یہ بھی کہتے تھے کہ ایسا کرتے ہوئے وہ آٹے کا سانپ بنا کر دیگ کے ڈھکن پر بٹھا دیا کرتے تھے۔ یوں وہ دیگ ناگ دیوتا کی حفاظت میں چلی جاتی تھی۔ اب چونکہ یہ لوٹ کا مال ہوتا تھا تو ٹھگوں کو بھی ہضم نہیں ہوتا تھا۔ وہ بد نصیب ٹھگی کرتے قانون اور دوسرے ٹھگوں سے بچتے بچاتے ہی مر مرا جایا کرتے تھے۔ زمین کا مال زمین ہی میں دبا رہ جاتا تھا۔ کچھ ایسی ہی کہانیاں بحری قزاقوں کے بارے میں بھی مشہور ہیں کہ فلاں فلاں جگہ …
آمنہ مفتی مصنفہ و کالم نگار اس پوسٹ کو شیئر کریں فیس اس پوسٹ کو شیئر کریں وٹس اس پوسٹ کو شیئر کریں اس پوسٹ کو شیئر کریں شیئر تصویر کے کاپی رائٹ GETTY IMAGES Image caption متوسط طبقہ چاہے جہاں مرضی چھپ جائے، ڈالر لے یا سونا خریدے، وہ بچ نہیں سکتا بجٹ کی نحوست سر پہ منڈلا رہی ہے ۔ تاریخ نہایت بے حیائی سے خود کو دہرا رہی ہے ۔ اس خطے کی بدنصیبی رہی ہے کہ اس پر اکثر و بیشتر شرابی، افیمی، نا اہل، کند ذہن، کٹھ پتلی حکمران مسلط رہے ہیں۔ ان حکمرانوں کے پیچھے ہمیشہ ہی کچھ طاقتیں ہوا کرتی تھیں۔ یہ طاقتیں وہی تھیں جنھیں اب تاریخ کے کچھ طالب علم لٹیرے ا…
Social Plugin