آمنہ مفتی
بجٹ کی نحوست سر پہ منڈلا رہی ہے ۔ تاریخ نہایت بے حیائی سے خود کو دہرا رہی ہے ۔ اس خطے کی بدنصیبی رہی ہے کہ اس پر اکثر و بیشتر شرابی، افیمی، نا اہل، کند ذہن، کٹھ پتلی حکمران مسلط رہے ہیں۔
ان حکمرانوں کے پیچھے ہمیشہ ہی کچھ طاقتیں ہوا کرتی تھیں۔ یہ طاقتیں وہی تھیں جنھیں اب تاریخ کے کچھ طالب علم لٹیرے اور باقی ہیرو سمجھتے ہیں۔
ان طاقتوں کا ایک ہی مقصد تھا، گزری ہوئی صدیوں میں بھی، آج بھی ہے اور یقیناً آنے والی صدیوں میں بھی رہے گا۔ وہ مقصد کسی سے پوشیدہ نہیں۔ یہ جنگجو لوگ، کوئی بھی ترقیاتی کام کرنے سے معذور تھے۔
تجارت، زراعت، صنعت و حرفت، سب ان کے وحشت بھرے دماغوں میں نہیں سماتے تھے۔ ان دماغوں میں سماتی تھی تو صرف انسان کی بنیادی جبلت بھوک۔ اسی ازلی اور ابدی بھوک کو مٹانے کے لیے وہ ان لوگوں پہ پل پڑتے تھے جنھوں نے سالہا سال کی محنت سے گھر تعمیر کیے، بستیاں بسائیں، پکوان ایجاد کیے، رسوم و رواج بنائے، تہذیب کو ترقی دی۔
دنیا کی تاریخ پہ نظر ڈالیں تو مفتوح اقوام کا جرم اس کے سوا کیا ہوتا تھا کہ انھوں نے اپنے وسائل کو درست طریقے سے استعمال کر کے اپنی زندگیوں کو سہل بنا لیا تھا۔ اس ترقی کی بو پا کے قابیل کی اولادیں، تیر، تلوار، توپیں لے کر ان پہ چڑھ آئیں۔
یوں کبھی مذہب کے نام پہ، کبھی حرمت کے بہانے سے تو کبھی عقائد کی درستی کے لیے، ان امیر علاقوں کے حکمرانوں کو گرایا گیا۔ یوں جنگ کا نام دے کر اصل میں عوام کو لوٹا گیا۔
زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں ، بھٹو صاحب کی نیشنلائزیشن پالیسی نے نوزائیدہ پاکستان کے سرمایہ کاروں کی کمر ایسی توڑی کہ آج تک معیشت بحال نہ ہو سکی۔ ڈی نیشنلائزیشن نے یہ ثابت کر دیا کہ وہ پالیسی غلط تھی۔ لیکن اس وقت روس میں آئے انقلاب کا خواب آشوب چشم کی طرح پھیلا ہوا تھا۔
'روٹی ، کپڑا اور مکان' کے نعرے سے مسمرائز ہوئے عوام ،آج بھی ننگے، بھوکے اور بے گھر ہیں۔
ہوا صرف یہ کہ سرمایہ کاروں کی ایک پوری نسل ڈوب گئی اور اگلی نسل کو یہ سیکھ ملی کہ اس ملک میں سرمایہ لگانے والوں کا انجام کچھ اچھا نہیں ہوتا۔
ذرا زیادہ پیچھے چلے جاتے ہیں یعنی چند سو سال تو مطالعہ پاکستان کے اوراق سے ایک جلیل القدر مسلمان بادشاہ، 'گھنی مونچھوں تلے مسکراتے لب لیے' میرے عزیز ہم وطنو! کہتا نظر آتا ہے۔
مطالعہ پاکستان ہی میں مرقوم ہے کہ یہ درویش بادشاہ، شاہ ولی اللہ دہلوی کے خط کے جواب میں بیرنگ ہی تشریف لائے تھے اور ان کا ڈاک خرچ دیتے دیتے دلی لٹ گئی۔
بزرگوں سے سنا ہے کہ احمد شاہ اور ان کے بھی بزرگ نادر شاہ جب دلی پہ وارد ہوئے تو ان کی فوج نے ایسی لٹ مچائی کہ لوگوں کے گھروں کے چولہے توڑ کے اور تکیوں، صدریوں کے غلاف پھاڑ کے اشرفیاں نکال لیں۔ کسی کے کان میں سونے کا تار بھی نہ بچا۔
ہم نے یہ پڑھا کہ احمد شاہ ابدالی، مرہٹوں کا فتنہ دبا کے مسلمان حکومت مضبوط کر کے چلے گئے۔ انھیں ہندوستان ایسا بھایا کہ ایک نہ دو پورے سات بار تشریف لائے۔
بد گمان کہتے ہیں کہ پنجاب میں فصل پکنے اور جانوروں کے دُدھیل ہوتے ہی احمد شاہ ابدالی کو پنجاب کی یاد ستاتی تھی۔
اس زمانے میں ٹیکس یہ ہی تھا کہ حملہ آور جنس اٹھا اور جانور ہنکال لے جاتے تھے۔ ان کے ہر حملے میں لٹنے والے اہل حرفہ، مزدور اور عام لوگ ہوتے تھے جنھیں اس وقت رعایا اور آج عوام کہا جاتا ہے۔
اسی زمانے کی ایک بولی زبان زد عام ہے کہ 'کھادا پیتا لاہے دا، باقی احمد شاہے دا'۔
تاریخ کا یہ ہے کہ کچھ زیادہ متنوع موضوعات اس کے پاس نہیں، صرف نام بدل دیتی ہے۔ کھیل ایک ہی ہے۔ 'حکمران ظالم اور چور تھا اس لیے فلاں نے اقتدار پہ قبضہ کر لیا، خزانہ خالی تھا۔ کچھ لوگوں نے شورش کی ان سے خراج لیا گیا ۔۔۔۔۔'
اور یوں یہ کھیل جو بظاہر بادشاہوں، بادشاہوں کی لڑائی ہوتا ہے آخر کار اس کا انجام عوام کے لٹنے پر ہوتا ہے۔
نئی حکومت، پرانی کرپٹ حکومتوں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے بعد آئی اور ایسی آئی کہ آتے ہی چھا گئی۔ ڈیم فنڈ سے شروع ہونے والا انقلاب، ایف بی آر کی صورت آپ کے بنک اکاونٹ اور اثاثوں کی تفصیلات جانتا پھر رہا ہے۔
سونے اور ڈالر کی قیمت میں ہوش ربا اضافے نے ثابت کر دیا ہے کہ لوگ اپنا ٹھوس سرمایہ، نیم مائع شکل میں تبدیل کر رہے ہیں، اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ لوگ کسی آفت کے لیے ذہنی طور پہ تیار ہیں۔
سرمایہ کار کا اعتماد اٹھنے سے بیروزگاری پھیل رہی ہے۔ زمین کی قیمت گر گئی ہے، اشیائے خوردونوش گراں ہیں، بیروزگاری، بے گھری اور ابتری گلیوں میں راہ روکے کھڑی ہے۔
بجٹ کی جھلیکیوں، وزیر اعظم کے لہجے، بار بار کیے جانے والے خطابات اور 'چھوڑوں گا نہیں' کے نعروں سے جو تصویر سامنے آ رہی ہے وہ یہ ہی ہے کہ تاریخ خود کو دوہرا رہی ہے۔
اب یہ بے ادبی تو میں نہیں کر سکتی کہ کہوں ،احمد شاہ ابدالی کا ظہور ہو چکا ہے۔ مگر حالات کچھ اور ہی کہانیاں سنا رہے ہیں۔
متوسط طبقہ، چاہے جہاں مرضی چھپ جائے، ڈالر لے یا سونا خریدے، وہ بچ نہیں سکتا۔
سیاہ دھندے والے اپنا سیاہ سرمایہ لے کے کسی پتلی گلی سے کہیں کے کہیں نکل جائیں گے۔ ٹیکس کی اس چکی میں پسے گا وہ، جس نے بچوں کی شادی اور تعلیم کے لیے پس انداز کیا، بڑھاپے کے لیے اندوختہ کیا۔
بچت کی راہ اختیار کرنے والا اور ٹیکس دینے والا طبقہ جو مبینہ طور پہ سینتیس طرح کے ٹیکس پہلے ہی ادا کر رہا ہے اب مزید نچوڑا جائے گا۔
یہ وہی لوگ ہیں جو صدیوں سے حملہ آوروں کی بھوک کے آگے بکریوں کی طرح کٹتے آئے ہیں۔ ٹیکس کا نام ذرا مہذب ہے، چندے میں ذرا زیادہ لوچ ہے، لیکن برہنہ اور تلخ حقیقت یہ ہی ہے کہ میرے عزیز ہم وطنو! برا وقت آ نہیں رہا ، برا وقت آ چکا ہے۔
چلتے چلتے ماضی کا ایک اور محاورہ سنتے جائیے، 'شامت اعمال ما صورت نادر گرفت' ۔ بات اب بھی سمجھ نہ آئی ہو تو ایف بی آر کے نوٹس ،بجلی اور گیس کے اگلے بل اور بجٹ کی منظوری کا انتظار کیجیے۔