قرةالعين خالد
عورت پیدا ہوتی ہے تو بیٹی ہوتی ہے، عورت جوان ہوتی ہے تو کسی مرد کی بیوی بن جاتی ہے، عورت بچے پیدا کرتی ہے تو ماں بن جاتی ہے۔ عورت کی عمر جب ڈھل جاتی ہے تو دادی اور نانی جیسے کردار ادا کر کے چار دیواری کے اندر ہی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے آنکھیں بند کر لیتی ہے کیا عورت کا کردار صرف چولہا سے دولہا تک ہی ہوتا ہے؟ یا عورت کے اور بھی معاشرتی کردار ہیں خیر بات نکلے گی تو دور تک جائے گی۔ افسوس صد افسوس یہ کہنا بے جا نہ ہو گا ک صنف نازک کے ساتھ روز اول سے ہی ہمارے معاشرے میں ایک المیہ رہا ہے جو ہر طبقہ سے جڑا ہوا ہے کہ وہ لڑکی کی پیدائش کو کس طرح قبول کرتا ہے۔
اگر ایک عورت حاملہ ہو تو سب یہ دعا کرتے ہیں کہ خدا کرے بیٹا ہو، اگر بیٹی پیدا ہو تو عورت بد نصیب تصور کی جاتی ہے۔ ہمارے معاشرے میں پیدائش ہی سے عورت کو مردسے کمتر سمجھا جاتا ہے۔ اگر عورت کے حقوق کے حوالے سے بات کی جائے تو ان کا سب سے پہلا اور بنیادی حق تعلیم ہے لیکن ہمارے معاشرے میں خصوصا دیہاتی علاقہ جات میں یہ حق معیوب سمجھا جاتا ہے۔ ہمارے خطے کے مذہب فروش لوگوں نے ہمیشہ عورت کی تعلیم کو شک و شبے کی نگاہ سے دیکھا ہے۔
عورت کیونکہ ہمیشہ سے ہی مرد کے زیرِ سایہ رہی ہے اس لئے اس کی ساری نشوونما ایک ایسے ماحول کے تحت ہوئی ہے جس نے اس کی اپنی شخصیت کے ارتقاءکے لئے کوئی گنجائش نہیں چھوڑی اس لئے کہ جب وہ بچی ہوتی ہے تو اس کا وارث کوئی ہوتا ہے اور جب جوان ہوتی ہے تو کسی دوسرے آقا کی ملکیت بن جاتی ہے۔ ان مالکوں کے حکم کے تحت اس کی ذات، اس کی خواہشات اور ارمان اس طرح کچلے گئے کہ عورت کی حیثیت سے اس نے اپنا اصل وجود اپنی شناخت کھو ڈالی ہے۔ ہماری غیرت، رسم و رواج اور ہمارے ان پڑھ ملاؤں نے مل کر عورت کی تعلیم کے سارے راستے تمام دروازے اور کھڑکیاں تک بند کر دیں، پھر بھی تعلیم کا سلسلہ کہیں چل رہاہے تو بہت ہی پسماندہ ہے۔ لڑکی کی پانچ جماعتیں تو سمجھیں پی ایچ ڈی کے برابر ہیں، اس کے بعد تو گویا ماں باپ نے اپنا تمام فرض پورا کر دیا۔
لڑکیوں کوتعلیم سے دور رکھنے کے لئے کچھ لوگوں نے مذہب کا سہارا لیا اور صرف وہ آیتیں اور احادیث بیان کی گئیں جن میں عورت کو باپردہ گھر میں رہنے کا حکم دیا گیا ہے۔ مگر حضرت محمدﷺ نے یہ بھی کہا ہے کہ پنگھوڑے سے قبر تک علم حاصل کرو، علم طلب کرو چاہے تمہیں چین ہی جانا پڑے، اور تعلیم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد عورت پر فرض ہے۔ لیکن ہمارے معاشرے میں ہمیشہ مرد کو عورت سے بالا تر سمجھا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں ایک مرتبہ ایک خاتون نے حضرت محمدﷺ سے دریافت کیا کہ کیا وجہ ہے کہ خدا نے مرد کو اتنا بڑامرتبہ دیا۔
عورت اتنا کم درجہ کہ آج تک دنیا میں جتنے بھی پیغمبر اور رسول آئے وہ سب مرد ہیں ان میں سے ایک بھی عورت نہیں یہ سن کر حضرت محمد ﷺ نے فرمایا۔ یہ غلط تصور ہے کہ خدا نے مرد کو بلند درجہ عطا فرمایا دنیا میں پیغمبروں کا بھی اگر کسی کے سامنے سر جھکا ہے تو وہ ہے ’ماں‘ اور ماں ’عورت‘ ہی ہے۔ اسلام نے عورت کو کیا مقام دیا۔
حضوراکرم ﷺ کی اس بات سے بالکل واضح ہو جاتا ہے اور ویسے بھی عورت کو مرد پر ایک ہی برتری حاصل ہے کہ مرد کبھی ’ماں‘ نہیں بن سکتا، اور نہ کبھی ماں کے پاک جذبات سے واقف ہو سکتا ہے جو قربانی، ہمدردی، محبت اور انسانیت کی بنیاد ہے۔
ہمارے ہاں عورتوں کو تشدد جیسے مسائل کابھی سامنا کرناپڑتاہے خواہ وہ تشدد جسمانی ہو یا جنسی۔ ہمارے ہاں لوگ تشدد کو مذہب، قانون اور رواجوں کے تقدس کا لباس پہنا دیتے ہیں۔ ہمارے سماج میں آج تک کسی نے یہ نہیں سوچا کہ عورت بھی مرد کی طرح انسان ہے اور اس کے بھی حقوق مرد کے مساوی ہیں۔
ہمارے معاشرے میں عورت کو فروسودہ رسموں کا بھی شکار ہو جاتی ہیں۔ ہمارے سماج میں دوسرے کی عزت کو گندا کرنے کا الزام لگے ہوئے مرد کو، یا اپنے نکاح والے شوہر کے علاوہ کسی اور سے جنسی تعلق رکھنے یا ’مالک‘ کو اس طرح کے تعلق کاشک پڑنے والی عورت کو سیاہ یا سیاہ کار کہتے ہیں۔ سیاہ کاری یا غیرت کے نام پر قتل کی اس فرسودہ رسم نے جس طرح انسانیت اور انسانی حقوق کی دھجیاں بکھیری ہیں اس کی مثال کہیں نہیں ملتی۔ اس ناپاک رسم کے تحت جس طرح ملکیت ہتھیائی جا رہی ہے، پرانی دشمنیاں نبھائی جارہی ہیں، اور ماضی قریب میں اس گندی رسم نے جس طرح عورت کی بے بسی کو کچلا ہے۔
اس کے بعد آج کے ’مہذب انسان‘ کا حقیقی وحشیانہ روپ کچھ اور نکھر کر سامنے آیا ہے یہ ’مہذب انسان‘ جو معاشرے میں طاقتور مرد کی شناخت رکھتا ہے جب چاہے عزت اور غیرت کے نام پر عورت کی زندگی چھین سکتا ہے، کوئی روک ٹوک نہیں ہے۔ ہمارے ہاں جو شخص سیاہ کاری کے نام پر جتنے زیادہ قتل کرے گا اسی مناسبت سے زیادہ بہادر اور غیرت مند تصور ہوگا۔ 21 صدی میں بھی ’سیاہ کاری، کارو کاری اور غیرت کے نام پر قتل‘ جیسی فرسودہ رسم و رواج پر عمل کرنا واقعی میں انسانیت کی توہین اور عورت پر ظلم و ستم کی انتہا ہے ہم مختلف شعبہ ہائے زندگی میں انفرادی اور اجتماعی طور پر ترقی کرنا چاہتے ہیں تو مردوں کو چاہیے کہ عوروتوں کے حقیقی وجود، انسانیت، آزادی، برابری اور دیگر حقوق کو تسلیم کریں اور یہ بات اپنے عمل سے ثابت کریں، اور حکومت کو چاہیے کہ شادی، آزادی، ازدواجی زندگی، طلاق۔
گواہی اور دیگر معاملات میں قانونی طور پر عورتوں کو مساوی درجہ دیا جائے اور انہیں تعلیم و روزگار کے زیادہ سے زیادہ مواقع فراہم کر کے مردوں کے برابر لانے کی کوشش کرے، اور خود عورتوں کو چاہیے کہ وہ اپنے شعور کی سطح بڑھا کر اپنے جائز بنیادی انسانی حقوق کے متعلق آگہی حاصل کریں۔ جرات سے کام لے کر حکومت اور مردوں سے اپنے حقوق عملی طور پر منوانے کی بھر پور کوشش کریں اور اس مقصد کے لیے خواتین متحد اور منظم ہو کر باقاعدہ تحریک چلائیں، کیونکہ ہمارے معاشرے کے ”روایتی مرد ’یہ نہیں چاہتے کہ ایک عورت ان کے شانہ بشانہ کام کرے بلکہ ہمارے معاشرے میں عورت کو صرف لذت حاصل کرنے اور جنسی خواہشات کی تکمیل کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔