عورت پاؤں کی جوتی ہے کیا؟

وسیم جبران

شعرا توعورت کو کائنات کا حسن قرار دیتے ہیں لیکن شاعری کی دنیا سے باہر اپنے معاشرے پر نگاہ ڈالیں تو عورت کی تذلیل کے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔ کبھی لباس کی وجہ سے عورت کی ملامت کی جاتی ہے کبھی گھر سے نکلنے اور کام کرنے پر برا بھلا کہا جاتا ہے۔ ملازمت پیشہ خواتین پر تہمتیں لگائی جاتی ہیں۔ کوئی عورت کو ناقص العقل کہتا ہے تو کوئی فتنہ قرار دیتا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ گالیوں میں بھی عورت کی ہی تذلیل کی جاتی ہے۔

ایسا نہیں ہے کہ یہ بے عزتی عام عورت کا نصیب ہے بلکہ عورت خواہ کتنے ہی بلند مقام پر کیوں نہ پہنچ جائے اسے ذلیل کرنے والے کوئی نہ کوئی موقع ڈھونڈ ہی لیتے ہیں۔ محترمہ فاطمہ جناح جنہیں مادر ملت کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ان کے ساتھ کیا گیا سلوک بھی ہم میں سے اکثر کو یاد ہو گا۔ ان کا قصور کیا تھا؟ شاید عورت ہونا ہی جرم بن گیا جو انہیں غلیظ گالیاں دی گئیں۔

محترمہ بے نظیر بھٹو کی مخالفت کرنے والوں نے ان کی کردار کشی کی مذموم حرکت کے ساتھ ساتھ ان کی قابل اعتراض تصاویر تک بنا ڈلیں۔ جعلی تصویریں بنانے والے اپنی طرف سے شاید ہر عورت کو یہ پیغام دینا چاہتے تھے کہ ہمارے مقابل مت آؤ وگرنہ ہم تمہیں اسی طرح بے عزت کریں گے۔

شہر ہوں یا مضافاتی علاقے اور گاؤں ہوں۔ عورت کو عزت کہیں نہیں ملتی۔ کوئی پنچایت بیٹھے تو پنچ مرد ہی ہوتے ہیں۔ عورت میں اتنی عقل کہاں کہ کوئی فیصلہ کر سکے۔ البتہ اکثر فیصلوں کا خمیازہ عورت کو ہی اٹھانا پڑتا ہے کبھی ستر سالہ بوڑھے کی بیوی بن کر اور کبھی اپنی جان کا نذرانہ دے کر۔

سچ تو یہ ہے کہ اس سلوک کے پیچھے ایک مائنڈ سیٹ ہے جو عورت کو پاؤں کی جوتی سمجھتا ہے۔ ایسے مائنڈ سیٹ کے حامل افراد سے جب عورت کا احترام کرنے کی بات کی جائے تو وہ آگ بگولہ ہو کر پوچھتے ہیں کہ کیا جوتی سر پہ رکھ لیں۔ جوتی پاؤں میں پہنی جاتی ہے سر پہ نہیں رکھی جاتی۔ چناں چہ بحث بے نتیجہ رہتی ہے۔

میں عورت کی عظمت اور بڑائی کی مثالیں ہرگز نہیں دوں گا۔ میرا موقف تو فقط اتنا ہے کہ عورت بھی انسان ہے۔ ایک انسان ہونے کی حیثیت سے وہ تمام انسانی حقوق کی حق دار ہے۔ ایک انسان اپنی مرضی کے مطابق تعلیم حاصل کرنا چاہتا ہے، اپنی پسند کے مشاغل اپنانا چاہتا ہے، اپنی آرزوؤں اور تمناؤں کے مطابق زندگی بسر کرنا چاہتا ہے تو کیا کسی دوسرے انسان کو اس پر اعتراض ہو گا؟

یقیناً کوئی اعتراض نہیں ہو گا مگر صرف اس صورت میں جب پہلا انسان ایک مرد ہو جبکہ عورت ہونے کی صورت میں فوری طور پر اسے انسانیت کی کیٹیگری سے خارج کر دیا جائے گا۔ عورت یہ نہیں کر سکتی، عورت وہ نہیں کر سکتی جیسے اعتراضات لگا دیے جائیں گے۔

ایسے میں اگر کسی عورت نے آواز بلند کی تو اسے ناہنجار، باغی، بد کردار اور فاحشہ جیسے القابات سے نوازا جائے گا۔ کیوں کہ عورت تو انسان ہوتی ہی نہیں ہے۔ پاؤں کی جوتی سر پر تو نہیں رکھ سکتے۔

ایسے ’دانشور‘ بھی موجود ہیں جو کہتے ہیں کہ عورت اپنی عزت خود کرواتی ہے۔ یعنی عورت اگر کسی بھیڑ یا بکری کی طرح ان کے اشاروں پر چلے تو ٹھیک ہے اس کی عزت ہو گی۔ عزت بھی یہ ہو گی کہ بس یہ بیان دیا جائے گا یہ اچھی عورت ہے۔ جہاں اس نے اپنے انسان ہونے کا ثبوت دیا وہیں معتوب ٹھہرے گی۔

عورت کو اپنی پراپرٹی سمجھنے والے یہ برداشت نہیں کر سکتے کہ وہ ان کے برابر کی انسان کہلائے۔ وہ ہر لحظہ اسے کمتر ثابت کرنے کے خبط میں مبتلا رہتے ہیں۔ انہوں نے اخلاقیات کے اپنے ہی معیار بنا رکھے ہیں۔ یہ مدعی بھی خود ہوتے ہیں، وکالت بھی خود کرتے ہیں اور فیصلے بھی خود ہی سناتے ہیں۔ ملزم کو صفائی کا موقع اکثر تو دیتے نہیں لیکن اگر دیں بھی تو کسی دلیل اور حوالے کے بغیر ہی اس کاموقف رد کر دیتے ہیں۔

کب ایسا وقت آئے گا جب ہر انسان کی عزت ہو گی۔ ہر انسان کا احترام کیا جائے گا۔ صنفی پہلو کو نظر انداز کرتے ہوئے ہر انسان کو انسان سمجھا جائے گا۔ کسی کو شملہ اور کسی کو جوتی نہیں سمجھا جائے گا۔ شعور کی اس منزل تک پہنچنے کے لئے ہمیں اور کتنی صدیاں درکار ہیں؟