رفعت اللہ اورکزئی
بی بی سی اردو
پاکستان کے سرکاری تعلیمی اداروں میں عام طورپر موسیقی کو بطور مضمون پڑھانے کا ہمیشہ سے فقدان رہا ہے اور بالخصوص قدامت پسند سمجھے جانے والے صوبہ خیبر پختونخوا میں موسیقی کی حوصلہ افزائی تو کیا موسیقی کے کسی آلے پر تحقیق کا کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا تھا۔
لیکن اب پہلی مرتبہ خیبر پختونخوا کے ایک تعلیمی ادارے میں پاکستان اور افغانستان میں پشتو لوک موسیقی کا شہنشاہ سمجھے جانے والے آلہِ ساز رباب پر تحقیقی کام ہوا ہے۔ یہ اعزاز پشاور کے ایک نوجوان طالب علم سعد حیدر کو حاصل ہوا ہے جو خود بھی رباب بجانے کے ماہر ہیں۔
صوبے کے کسی تعلیمی ادارے میں یہ اپنی نوعیت کی پہلی ایسی کوشش ہے جس میں میوزک کے ایک آلے کو تحقیق کا موضوع بنایا گیا۔
پشاور کے علاقے وزیرباغ سے تعلق رکھنے والے سعد حیدر نے حال ہی میں گورنمنٹ سپیرئیر سائنس کالج پشاور سے مطالعہ پاکستان کے مضمون میں بی ایس کی ڈگری حاصل کی ہے جس میں رباب پر تحقیق ان کی ڈگری کا حصہ تھا۔
23 سالہ سعد حیدر نے اس مختصر لیکن پہلی باقاعدہ تحقیق میں نہ صرف رباب کا تاریخی پس منظر معلوم کرنے کی کوشش کی ہے بلکہ یہ بھی ثابت کیا ہے کہ یہ ساز صدیوں سے پشتونوں کے پاس رہا ہے اور اسے امن کا ساز بھی کہا جاتا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ اس تحقیق کا موضوع ہے کہ ‘رباب بطور آلہ موسیقی اور بالخصوص پشتون معاشرے میں اس کا استعمال کیا ہے۔‘
انھوں نے بتایا کہ ’میں نے اپنی تحقیق میں دو سوالات رکھے تھے کہ رباب کا پشتون معاشرے میں کردار کیا ہے اور پشتو موسیقی میں اسے کیسے استعمال کیا جارہا ہے۔’
ان کا کہنا ہے کہ تحقیق میں یہ بات سامنے آئی کہ رباب کا پشتون معاشرے میں برسوں سے انتہائی مثبت کردار رہا ہے اور آج تک اس آلے کا کوئی مصنوعی ساز تیار نہیں کیا جاسکا ہے۔
انھوں نے کہا کہ رباب کو بجانے کے لیے اس کا ماہر ہونا ضروری ہے کیونکہ مصنوعی طریقے سے اس ساز کو نہیں بجایا جاسکتا اور نہ ہی کسی مصنوعی آلے سے اس ساز کی آواز نکالی جاسکتی ہے۔
موسیقی پر تحقیق کرنے والے اکثر ماہرین کا خیال ہے کہ رباب عربی زبان کا لفظ ہے جو دو الفاظ سے نکلا ہے ‘روح اور باب’ یعنی روح کا دروازہ۔
تاہم بعض تحقیق کاروں کا دعوی ہے کہ یہ ساز سب سے پہلے عربوں کے معاشرے میں رائج ہوا اور بعد میں پشتونوں نے اس ساز کو اپنا لیا۔ لیکن سعد حیدر نے اپنی تحقیق میں اس دعویٰ کو رد کیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ دنیا میں رباب کے جتنے بھی بڑے بڑے ماہر گزرے ہیں ان سب کا تعلق افغانستان یا پاکستان سے رہا ہے اور ان میں کوئی بھی سرزمینِ عرب سے نہیں تھا۔
انہوں نے کہا کہ پشتو زبان کے تمام نامور اور عظیم شعراء رحمان بابا، خوشحال خان خٹک، احمد شاہ ابدالی اور پیر روخان نے اپنی شاعری میں تواتر سے رباب کا ذکر کیا ہے جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ ساز صدیوں سے پشتونوں کے پاس رہا ہے۔
ان کے مطابق رباب میں ایک تار جسے ‘ شاہ تار’ کہا جاتا ہے اور یہ تار پشتو زبان کے عظیم شاعر پیر روخان نے رباب کا حصہ بنایا تھا۔
انہوں نے مزید کہا کہ رباب سازی میں جس درخت کی لکڑی استعمال کی جاتی ہے وہ پاکستان اور افغانستان کے علاقوں میں پایا جاتا ہے جبکہ عرب ممالک بیشتر ریگستانوں پر مشتمل ہے جہاں اس درخت کا کوئی وجود ہی نہیں۔
پشتونوں کے بارے میں عام طورپر کہا جاتا ہے کہ یہ موسیقی کو تو پسند کرتے ہیں لیکن موسیقاروں اور فنکاروں کو اچھی نظر سے نہیں دیکھتے ہیں۔ لیکن رباب شاید واحد ساز جسے پشتونوں کے معاشرے میں بھی برا نہیں سمجھا جاتا ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ حجروں میں اس ساز کو چھوٹے بڑے سب اکھٹا ہوکر سننا پسند کرتے ہیں۔
سعد حیدر کا کہنا تھا کہ انہیں رباب پر تحقیق کا خیال اس وقت آیا جب شدت پسندی کے باعث گلوکاروں اور فنکاروں پر حملوں کا سلسلہ شروع ہوا اور کئی بڑے بڑے گلوکار پشاور چھوڑ کر دیگر ممالک میں آباد ہوگئے۔
ان کے بقول ‘ میں خود بھی رباب بجاتا ہوں اس لئے اسکی ضرورت محسوس کی اس پر تحقیق کی جائے تاکہ اس کا تاریخی پس منظر بھی معلوم ہوں اور دیگر تحقیق کاروں کےلیے ایک مثال بھی قائم ہو جائے تاکہ موسیقی کے آلات پر تحقیق کا ایک سلسلہ شروع ہوجائے۔’
سعد حیدر نے کہا کہ ‘ رباب بجاتے ہوئے میں اکثر سوچتا ہوں کہ یہ تو امن کا ساز ہے اور جہاں پر امن کی بات ہو تو وہاں احساسات اور جذبات بھی بڑے مثبت اور امن کے ہوتے ہیں، اس لئے اسے بجاتے ہوئے میں بڑا فخر محسوس کرتا ہوں۔