جب آپ محبت کی بارش سے اندر تک بھیگ جاتے ہیں

ڈاکٹر خالد سہیل
 
نجانے وہ کون سے ادیب اور شاعر، افسانہ نگار اور دانشور ہیں جو ساری عمر ناقدری اور ناشناسی کے دکھ سہتے رہتے ہیں۔ میرا ذاتی تجربہ ان شاعروں اور ادیبوں سے بہت مختلف ہے۔ میں نے زندگی میں جب بھی تھوڑا سا جینون ادبی کام کیا مجھے میرے حق سے کئی گنا زیادہ داد و تحسین کے تحفے ملے۔ طالب علمی کے زمانے میں احمد فراز، محسن احسان اور عارف عبدالمتین نے ہمت افزائی کی اور جوانی میں کشور ناہید، جوگندرپال اور محمد حسن جیسے اساتذہ نے میری ہمت بندھائی۔ جب نظموں ، غزلوں، افسانوں اور مقالوں کے مجموعے چھپنے شروع ہوئے تو ادبی دوستوں نے بہت سی محبتوں سے نوازا۔ یہ سلسلہ اتنا طویل اور دوستوں کا دائرہ اتنا وسیع ہوا کہ میں نے دوستوں کی مدد سے کینیڈا میں فیملی آف دی ہارٹ کی بنیاد رکھی تاکہ نہ صرف مقامی دوست آپس میں مل سکیں بلکہ ان کی ساری دنیا سے آنے والے ادیبوں اور دانشوروں سے بھی ملاقات ہو سکے۔ اس طرح میں ادبی دوستوں کے درمیان ایک تخلیقی پل بن گیا۔
میرے دوستوں کی محبتوں میں اس وقت اور بھی اضافہ ہوا جب دو سال پیشتر میں نے ’ہم سب، پر لکھنا شروع کیا۔ پندرہ سال کی جدائی کے بعد پچھلے سال پاکستان کے قیام کے دوران وجاہت مسعود سے ملاقات بہت اہم تھی۔ میں ان کے خلوص، ان کی محبت اور اپنائیت سے بہت متاثر ہوا۔ انہوں نے نہ صرف اپنی شریکِ حیات تنویر جہاں سے میری ملاقات کروائی بلکہ اپنے ’ہم سب، کے ہم سفر عدنان کاکڑ اور حسنین جمال کے علاوہ اور بھی بہت سے دوستوں سے تعارف کروایا۔ ان کی محبت میں وہ وارفتگی تھی کہ مجھے یوں محسوس ہوا جیسے میں ان کی محبت کی بارش میں اندر تک بھیگ گیا ہوں۔ جب میں اپنے دو ادبی دوستوں امیر حسین جعفری اور سید عظیم کے ساتھ اسلام آباد گیا تو وہاں میری لینہ حاشر، حاشر ابن ارشاد، وقار احمد ملک، عاصم بخشی اور کئی اور ادیب دوستوں سے ملاقات ہوئی لیکن وقت کی کمی کی وجہ سے تشنگی کا احساس رہا۔
اسی لیے جب نصرت زہرا نے مجھے اسلام آباد کی 16  اور 17 فروری 2019 کی اسلام آباد کی کانفرنس کی دعوت دی تو میرے دل نے سرگوشی کی ’ضرور جائو، چنانچہ میں نے اپنی کراچی کی دوست فرحت زہرا کو فون کیا کہ کیوں نہ ہم دونوں پاکستان جائیں اور دوستوں سے ملیں۔ وہ مان گئیں۔ میں نے سوچا اسی بہانے میں کراچی میں ان کے والد محمد مظاہر، جنہوں نے جارج آرویل کے ناولوں کے اردو میں ترجمے کیے ہیں، سے بھی ملاقات ہوجائے گی اور میں عفت نوید سے بھی مل لوں گا جن سے پچھلے سال ملاقات نہیں ہو سکی تھی۔ میں نے عفت نوید سے درخواست کی وہ اپنے ہاں مدیر اقبال، آرٹسٹ شاہد رسام اور ڈاکٹر شیر شاہ سید کو بھی بلا لیں تا کہ سب سے ایک ہی جگہ ملاقات ہو جائے۔
میں وجاہت مسعود کا اس حوالے سے بھی شکر گزار ہوں کہ انہوں نے ’ہم سب، میں رابعہ الربا اور میرے خواب نامے بھی چھاپے اور ہماری مشترکہ کتاب ’درویشوں کا ڈیرا، کا اپنے قارئین سے بھرپور تعارف کروایا۔
میری نگاہ میں دوستی اور creativity ایک بیج کی طرح ہوتے ہیں۔ اگر کسی بیج کو زرخیز زمین تازہ ہوا، صاف پانی اور سورج کی روشنی ملے تو بیج پہلے پودا پھر درخت بنتا ہے اور پھر میٹھے میٹھے پھل دیتا ہے۔ میری نگاہ میں وجاہت مسعود عدنان کاکڑ اور ’ہم سب، میگزین نے وہ زرخیز زمین تیار کی ہے جہاں لکھاری اور قاری ایک صحتمند مکالمہ کر سکتے ہیں اور ایک دوسرے کی باتوں کو تحمل اور بردباری سے سن سکتے ہیں۔ ایسی فضا کسی بھی معاشرے میں ایک جمہوری فضا قائم کرنےکے لیے بہت ناگزیر ہے۔
  ’ہم سب، کی وجہ سے میں پاکستانی قارئین سے جڑ گیا ہوں ۔ پچھلے سال میں پندرہ سال کے بعد آیا تھا اور اب میں پندرہ مہینوں سے بھی پہلے آ رہا ہوں۔ اسلام آباد کانفرنس کے بعد 18 سے 25 فروری تک لاہور جانے کی خبر جب امیر جعفری نے سلمیٰ اعوان کو سنائی تو ان کا محبت بھرا پیغام آیا کہ وہ بھی ایک محفل کا انتظام کرنا چاہتی ہیں تا کہ میری ملاقات سب ادبی دوستوں سے کروا سکیں۔ یہ سب باتیں اور پیغام اسی محبت کی بارش کے قطرے ہیں جن سے میں اندر تک بھیگ گیا ہوں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ سلمیٰ اعوان سے میں آج تک نہیں ملا لیکن پھر بھی لگتا ہے کہ انہیں طویل عرصے سے جانتا ہوں۔
میں ان محبت، پیار، اپنائیت اور خلوص بھرے دوستوں کی موجودگی میں اپنے آپ کو بہت خوش قسمت انسان سمجھتا ہوں۔
میری خوش بختی کہ 16 فروری کو اسلام آباد کے فیسٹیول میں وجاہت مسعود اور میں ایک ہی پینل میں شامل ہیں۔ اس سیمینار میں میں اپنا مضمون ’ہم اپنا پورا سچ کیوں نہیں لکھ پاتے، سنائوں گا اور پھر وجاہت مسعود کی خدمت میں پیش کر دوں گا تا کہ وہ ’ہم سب، کے قارئین تک پہنچا سکیں۔ اس وقت تک میں آپ دوستوں سے چند ہفتوں کی اجازت چاہتا ہوں۔