یوں تو گھریلو ملازمین پر کیے گئے تشدد کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں لیکن تحقیق میں آپ عام اور کثرت میں پائے جانے والے رویے کو ہی زیر بحث لاتے ہیں۔ ایسی بحث میں ہمارامقصداور ہدف جذبات اور ایک طرف رکھتے ہوئے معروضی مطالعہ ہوتا ہے۔
فرائیڈ سگمنڈ رویوں کا مطالعہ کرتے وقت ، رویوں کے پیچھے شعور لاشعور جیسی قدرے غیر سائنسی محرکات کو دیکھتے ہیں جس پر آپ ہزار بحث کریں لیکن فرائیڈ کی کامیابی ہی یہی ہے کہ اعلی بخت کے دیے گئے نظریات ، سائنس کے کنٹرول ماحول میں بھی نتیجہ خیز ثابت ہوتے ہیں۔
فرائیڈ نے انسان کے پیچیدہ نفسیاتی مدافعتی نظامات کاخیال پیش کیا۔ اس خیال پر ان کی بیٹی نے بہترین کام کیا۔ فرائیڈ نے انسانی رویوں کو سامنے رکھتے ہوئے ‘ڈسپلیسمنٹ’ کا نظریہ دیا جس میں کوئی فرد کسی خطرے کے پیش نظر انا کے تحفظ کے لیے نیا اور قدرے کمزور ‘شکار’ تلاش کر لیتا ہے۔ یوں تو یہ نظریہ بادی النظر میں وسیع ہے لیکن ہمارے موضوع سے متعلق اس کی ایک شکل غصے کی ‘ڈسپلیسمنٹ’ ہے۔
آسان الفاظ میں جب بھی آپ کو کسی ایسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑتا ہے جہاں کوئی طاقتور آپ سے جارح رویہ رکھے لیکن آپ کمزور ہونے کی وجہ سے اسے کچھ کہہ نہ سکیں۔ ایسی صورتحال میں انا زخمی ہوتی ہے اور ہمارے نفسیاتی مدافعتی نظامات کا مقصد اس انا کی حفاظت ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر آپ کے باس نے آپ کی بے عزتی کردی (شاید باس خود بھی آسان ہدف کی تلاش میں تھا) تو ایسے میں اعلیٰ عقل آپ کے سامنے یاداشت سے مواد لیکر آپ کو انتہائی قدم سے باز رکھتی ہے کیونکہ مقابلہ کرنے کی صورت میں اس کے نتائج آپ کے حق میں منفی ہو سکتے ہیں۔ اب نفسیاتی مدافعتی نظام کے پاس ایک ہی صورت بچتی ہے کہ غصہ (منفی توانائی) کے اخراج کے لیے کمزور شکار تلاش کیا جائے۔یہ تلاش کچھ ایسی مشکل ثابت نہیں ہوتی بلکہ دفتر سے واپس آتے ہوئے کسی غریب مزدور ، بے بس جانور،گھر میں بیوی ، ملازم یا بچوں کی شکل میں ہدف باآسانی مل جاتا ہے۔ منفی توانائی کا اخراج ہو جاتا ہے اور انا سرخرو ہو جاتی ہے۔
غصے کی ڈسپلیسمنٹ کا رویہ پسماندہ معاشروں میں کہیں زیادہ نظر آتا ہے۔ ایسے معاشرے جہاں انصاف میسر نہ آسکے ، جہاں آزادی اظہار رائے پر پابندی ہو، جہاں جبر ہو ، مشقت اور ظلم ہو۔ آپ نے نوٹ کیا ہو گا کہ کسی قدرتی آفت یا کسی ایسی صورتحال جس میں قانون و انتظامیہ مفلوج ہو جائیں ،تو ہجوم کے لوٹ مار اور تشدد کے رویے سامنے آتے ہیں۔ مثال کے طور پر آسیہ بی بی کی رہائی کے بعد جو ویڈیوز سامنے آئیں جن میں بے بس اور کمزور موٹر سائیکل کو آگ لگانے سے پہلے توڑا جا رہا ہے ۔جہاں ایک کمزور بچے کی ریڑھی سے کیلے لوٹے جا رہے ہیں ۔ جہاں عام شہری جو انتظامیہ کے وقتی مفلوج ہونے کی وجہ بے بس ہیں اور وہ اسی معاشرے کے کچھ اور افراد کے لیے غصے کی ڈسپلیسمنٹ کا آسان ہدف بن گئے ہیں ان کو مارا پیٹا جا رہا ہے ان کی گاڑیوں کو آگ لگائی جا رہی ہے۔
آپ کو اس رویے کے مناظر سیاحتی مقامات جیسے مری وغیرہ میں بکثرت نظر آئیں گے ۔ کسی آسان اور کمزور ہدف کے ہاتھ آتے ہی ویمپائرز کے دانت کیوں نکل آتے ہیں۔ اکیلی عورت یا جتے ہوئے گدھے کی بے بسی پر آوازیں کستا یہ ہجوم اپنی انفرادی زندگیوں میں یکسر مختلف ہوتا ہے۔ سانحہ سیالکوٹ میں ہجوم نے دو بھائیوں کے ساتھ جو کچھ کیا تھا آپ کو یاد ہی ہو گا۔ آپ ہجوم کے کسی ایک فرد کو مطالعہ کے لیے منتخب کریں اور اس سے تنہائی میں بات کریں تو وہ آپ کو مذہبی تعلیمات اور اخلاقی حدود پر بات کرتا کسی اور سیارے کی مخلوق لگے گی۔
جہاں تک گھریلو ملازمین پر تشدد کا معاملہ ہے تو وہ زیادہ تر ڈسپلیسمنٹ کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ اگر ایسے تشدد میں مرد ملوث ہے یاعورت دونوں کے لیےجبر کی شکل مختلف ہو سکتی ہے لیکن نتیجہ ایک ہی نکل رہا ہے ۔ خاتون کے لیے ساس کا غصہ اپنے بچوں پر نکالنا بہرحال ایک آسان کام ہے۔ مرد کے لیے دفتر کا غصہ ، ملازم بچے پر نکالنا سکون آور اقدام ہے۔ ہمارے معاشرے میں خواتین پر جبر کی جتنی پیچیدہ شکلیں ہیں اتنی ہی ڈسپلیسمنٹ کی صورت میں خواتین کے غیر منطقی رویے ہیں جن پر عموما ‘ذہین مرد حضرات’ پیچ و تاب کھاتے دیکھے گئے ہیں ۔
میں اگر آپ سے کھل کر بات کروں تو معاشرتی جبر کے تناظر میں پاکستان مجھے ایک انتہائی خطرناک ملک نظر آتا ہے جو آتش فشاں کے دہانے پر کھڑا ہے۔ اس ہجوم کو ایک ٹرگر کی شکل میں وحشی ہونے سے روکنے میں شاید کوئی تدبیر کارگر ثابت نہ ہو سکے گی۔ ہجوم کی نفسیات میں کسی رویے کا باقاعدہ وبا کی شکل اختیار کرنا ایک الگ موضوع ہے۔ ایسی ‘وبا’ ایسے ملک میں پھیلنے میں زیادہ وقت نہیں لیتی جہاں جبر کے طویل سائے حکمرانی کرتے ہوں اور طویل سایوں کا ماخذ (سورج ہی کہہ لیں) جامد ہو۔
ڈسپلیسمنٹ کے اس رویے کو دو طریقوں سے روکا جا سکتا ہے۔ ایک طریقہ تو خوف ہے ۔ قانون اور انتظامیہ کے حرکت میں آنے کا خوف۔ اس خوف کی وجہ سے لوگ آسان ہدف کو آسانی سےمنفی توانائی کے اخراج کا ذریعہ نہیں بنا سکتے۔ یہ طریقہ بے شک مثالی نہیں لیکن ‘قانون کا خیال’ خود بھی کونسا ایسا مثالی ہے۔ یہاں قانون سے میری مراد مثالی قانون ہے جو معاشرے کی تمام سطحوں کے لیے یکساں ہیں۔
ایسا قانون نہیں کہ سانحہ ساہیوال میں دن دیہاڑے گواہوں کی موجودگی میں گولیاں چلانے والے اپنے اقدام سے انکاری ہو جائیں تاکہ قانون ہی ان کو بچانے کے لیے کچھ راہ ہموار کر سکے۔ ایسا قانون مزید ڈسپلیسمنٹ کے رویے میں اضافے کا باعث بنتا ہے ۔ (اب آپ سمجھ سکتے ہیں میں پاکستان کو ایک خطرناک ملک کیوں کہہ رہا ہوں)
دوسرا طریقہ ، علم و آگہی کی جانب جا نکلتا ہے جس میں فرد کی انسانی تعصبات و پیچیدہ نفسیاتی مدافعتی نظامات سے آگہی شامل ہے۔ ایسا ہر طریقہ جو علم و آگہی کی جانب اشارہ کرتا ہو اس پر میں ایک پیراگراف لکھ کر اور آپ اس پیراگراف کو پڑھ کر اپنا وقت کیوں ضائع کریں۔بلکہ اس وقت کا بہترین مصرف یہ ہو سکتا ہے کہ منفی توانائی کے اخراج کے لیے کوئی آسان سا ہدف ڈھونڈیں۔
اگر یہ مضمون آپ نے مکمل پڑھ لیا ہے تو آخر پر آپ کے لیے دو سوال چھوڑ کر جا رہا ہوں۔۔۔
اگر آپ نے بچوں کو جانوروں سے ڈرایا نہیں ہے لیکن آپ دیکھ رہے ہیں کہ وہ کچھ بے ضرر سے جانوروں کے حوالے سے خوف میں مبتلا ہیں تو ایسا کیوں ہے؟ کہیں وہ طاقتور جانور آپ تو نہیں؟ آپ کی طاقت کے خوف سے بچوں نے خوف کی ڈسپلیسمنٹ تو نہیں ڈھونڈ لی؟
کیا آپ نے غور کیا ہے کہ ہمارے ہاں چھوٹے بچوں اور بچیوں کے ساتھ ریپ کے اتنے زیادہ واقعات کیوں پیش آتے ہیں؟ کہیں یہ غصے اور ناآسودہ جنسی خواہش کا آمیزہ تو نہیں جس نے ڈسپلیسمنٹ کے لیے آسان ترین ہدف ڈھونڈ لیا ہو؟