سوشل میڈیا کے احباب استاذی ظفر عمران اور عزیزم عدنان خان کاکڑ کے مابین لسانیاتی مباحث سے واقف ہوں گے۔ یہ خادم بھی کبھی اپنی نیم پُختہ معلومات کا بگھار اس میں شامل کرتا ہے۔ ظفر عمران صاحب اردو املا میں محترم شکیل عادل زادہ کے پیرو ہیں اور اس کے قائل ہیں کہ ممکنہ حد تک الفاظ کو توڑ کر لکھنا چاہیئے کہ تلفظ اور قرات میں غلطی نہ ہو۔ یہ یوں یاد آیا کہ کئی سال گزرے جب خادم کو پے در پے وطن بدری کے بیچ اسلام آباد میں قیام کا کچھ وقفہ میسّر آیا۔
آوازہ ہوا کہ مقتدرہ قومی زبان کے دفتر میں کوئی کتب میلا لگا ہوا ہے، تو کتابوں کے نشے کی طلب کشاں کشاں وہاں لے گئی۔ کئی اشاعتی اداروں نے عارضی دکانیں سجا رکھی تھیں۔ یہ خادم ایک جگہ کھڑا عنوانات پر نظر دوڑا رہا تھا کہ پیچھے کھڑے ایک نوجوان طالب علم اور اس سے بھی کم عمر دکان دار کے بیچ گفتگو کان میں پڑی۔ طالب علم کسی کتاب کی تلاش میں تھا۔ دکان دار اسے بتا رہا تھا کہ اسی موضوع پر مرتضی [ظفر عمران صاحب کے نزدیک مرتضا] علی خان “مکیش” کی کتاب مل جائے گی۔
اس خادم سے رہا نہیں گیا اور مڑ کر فہمائش کی کہ مولانا کا تخلص “مے کش” تھا۔ ساتھ ہی ازراہِ تفنن یہ بھی اضافہ کیا کہ ویسے تو مے کشی بھی کوئی اچھی عادت نہیں مگر نام درست لینا چاہیئے۔ قریب کھڑے ایک صاحب نے جو غالبا کہیں مدرس تھے، ایک دم لقمہ دیا کہ “جناب، یہ تو اس پر منحصر ہے کہ یہاں کون سی مے مراد ہے”۔ یقین جانیے کہ دل باغ باغ ہوگیا کہ معاشرے میں سخن فہمی باقی ہے، ہر چند کہ کم ہے۔
عزیزم علی آفتاب سعید “پٹاری” نامی سوشل میڈیا پلیٹ فارم سے ایک ہفتہ وار مختصر نشریہ پیش کرتے ہیں جس میں مزے مزے کی باتوں کے بیچ ابھرتے ہوئے فن کاروں کے نئے گانوں کا تعارف کروایا جاتا ہے۔ ایک دو ہفتے قبل انہوں نے محمد سمیع نامی نوجوان فن کار کی گائی ہوئی حضرت جگر مراد آبادی کی غزل “یہ ہے میکدہ یہاں رند ہیں یہاں سب کا ساقی امام ہے” متعارف کروائی۔ نوجوان کے گلے میں نور ہے اور سوائے اس کے کہ انہوں نے ایک دو مصرعوں کو اپنی دانست میں “عام فہم” بنانے کی نیت سے تحریف کا شکار بنایا، دل چسپ پیشکش تھی۔ البتہ افسوس ناک حیرت کا جھٹکا یو ٹیوب پر اس ویڈیو کے شروع میں بزبان انگریزی لگائے گئے ایک عدد اعتذار نامے کو دیکھ کر ہوا جس میں اس پیشکش میں شامل اشعار، خصوصا مذہبی نوعیت کے استعارات سے لا تعلقی کا اظہار کیا گیا تھا۔
ایک چٹکلا ایک بار نقل کیا تھا کہ روایت ہے کہ مرزا اسد اللہ خان غالب نے اپنا دیوان چھپوانے سے پہلے برِ صغیر کے نامور عالم دین اور مجاہد آزادی مولانا فضلِ حق خیر آبادی کو دکھایا تھا، جنہوں نے کئی اشعار فنی نقائص کی بنیاد پر قلم زد کر دیئے مگر رندی، سرمستی، تشکک، اخفافِ مشائخ کی بنا پر ایک لفظ بھی نہ کاٹا۔ ہم بہ حیثیت معاشرہ کس قدر جمالیاتی تنزّل اور عدم برداشت کا شکار ہو چکے ہیں، اس کا اندازہ اس ویڈیو کو دیکھ کر ہوا۔ اس خادم کا خیال تھا کہ اردو ادب کی ملایانہ تطہیر کا سودا آزاد کشمیر کے ایک پروفیسر صاحب اور قبلہ اوریا مقبول جان تک ہی محدود ہے، مگر لگتا ہے کہ عدم رواداری کا خوف اس سے کہیں زیادہ سرایت کر چکا ہے۔
اسی ملائیت زدہ معاشرتی جبر کی بازگشت وطن سے آنے والی ان خبروں میں بھی سنائی دیتی ہے کہ پنجاب میں واقع ایک تکنیکی یونیورسٹی کی انتظامیہ نے چودہ فروری کے ویلنٹائن ڈے کو “یوم حجاب” کی قبیل کے طور پر منانے کا سرکاری اعلامیہ جاری کیا ہے۔ چند سال پہلے ایک طلبا تنظیم نے اسی دن “یومِ حیا” منانے کا ڈول ڈالا تھا لیکن غالبا اسے چنداں پذیرائی نہ مل پائی، سو شاید نئی بوتل کا نئے لیبل کے ہم راہ بندوبست کیا گیا ہے۔
یہ خادم اس امر سے بخوبی واقف ہے کہ سوشل میڈیا، موٹر کار، ہوائی جہاز، ٹیلی ویژن، لاوڈ سپیکر، گریگورین کیلنڈر وغیرہ کی طرح، ویلنٹائن ڈے ایک بدیسی ایجاد ہے اور اس کو عالمی پیمانے پر منانے کے پیچھے سب سے اہم عوامل کاروباری ہیں۔ لیکن، یہ خادم ان معاملات میں جبر کا قائل نہیں ہے۔ جو ویلنٹائن ڈے منانا چاہے وہ ویلنٹائن ڈے منائے۔ جو یومِ حیا منانا چاہے وہ بھی آزاد ہو، بہ شرطے کہ ہر کسی کی لاٹھی دوسروں کی ناک سے دور رہے۔ مثلا کل سعودی عرب میں بی بی ماریا کیری کا رقص و موسیقی کا پروگرام منعقد ہوا، جس میں میڈیا کے مطابق سعودی لوگوں نے جوق در جوق شرکت کی۔ اس خادم کے سعودیہ میں مقیم پاکستانی اور عرب احباب میں سے البتہ کسی نے اسے درخور اعتنا نہیں سمجھا۔ موسی بہ دین خود، عیسی بہ دین خود۔۔
یہاں دمشق میں جا بجا مختلف ہوٹلوں اور نائٹ کلبوں کی جانب سے ویلنٹائن ڈے کی خصوصی تقریبات کے اشتہارات لگے ہوئے ہیں۔ آج ایک ایسا ہی اشتہار نظر پڑا سو اسے “ہم سب” کے قارئین کے تفنن طبع کے لیے کیمرے میں قید کر لیا۔ نجانے مذکورہ بالا پاکستانی طلباء تنظیم کے مطالبے کی بازگشت منتظمین تک پہنچی یا محض اتفاق ہے کہ اس پروگرام کے میزبان ودیع الشیخ کے ہم راہ جو دو عفیفائیں رقص و موسیقی کا مظاہرہ کریں گی، ان میں سے ایک کا نام مے فرح جب کہ دوسری کا اسم شریف “حیا الخیامی” ہے۔ ویلنٹائن ڈے کا ویلنٹائن ڈے ٹھہرا اور یومِ حیا کا یوم حیا۔