شادی دو لوگوں کا مسئلہ ہے

رابعہ الرَبّاء

”ارے یار تم میرے بھائی کی شادی پہ بلا شبہ کپڑے مت پہننا، مجھے کو ئی اعتراض نہیں ہو گا“

بینا کھلکھلا کے ہنس پڑیں ”او سچی۔ “

”رابعہ شادی اصل میں دو لو گوں کا مسئلہ ہے جسے ہم نے سوسائٹی کا مسئلہ بنا دیا ہے۔ تین دن بعد ہاتھ میں طلاق کے پیپرز ہو تے ہیں۔ تو بھی ہم الزام دوسروں کو دیتے ہیں“

”بینا جی یہی تو میں دیکھتی ہو ں کہ آپ کسی بھی شادی پہ چلے جائیں اگر دلہن پیاری ہے تو آدھے لڑکے دل میں حسرت لئے دیکھ رہے ہو تے ہیں کہ ’کاش۔ ، کچھ سوچ رہے ہو تے ہیں مجھے کیوں نا مل سکی، اور اگر دولہا ہر اعتبار سے مناسب ہے تو یہی عالم شادی میں موجود لڑکیو ں اور عورتوں کا ہو تا۔ “ کاش۔ “ ”اگر مجھے پہلے پتا لگ گیا تو آج میرا داماد ہو تا“ “ اف دو ٹکے کی بھی نہیں تھی یہ لڑکی اور نصیب دیکھو“حسرتوں، تمناؤں، رشک کا بو جھ دونوں شادی ہال سے ہی بیڈ روم تک لے کر آتے ہیں۔ اور مس انڈرسٹینڈنگ سے سوسائٹی کا حصہ بن جاتے ہیں“

”رابعہ نظرلگ جاتی ہے۔ ان لو گو ں کو اس نمود و نمائش میں یہ سمجھ نہیں آتا کہ یہ خود عذاب ساتھ لے کر جا رہے ہیں۔ کچھ چیزوں کا وجود نہیں ہو تا۔ مگر اثر رکھتی ہیں۔ لیکن اس سب میں بد امنی کا ماحول پیدا ہو چکا ہو تا ہے۔ خیر تم بتاؤ تم کہاں غائب ہو؟ “

”بینا جی، میں بھی بس وہاں جہاں سے مجھ کو میری بھی خبر نہیں آتی۔ یہ دوسروں کی شادیوں والی غلطیوں میں مصروف اور شامل ہوں۔ اللہ ہر ہفتے شادی، وہی گوسپس، وہی چم چم کرتے جوڑے۔ مرد فائدے میں ہیں۔ ایک ہی سوٹ کے ساتھ نئی ٹائی سے کا م چل جاتا ہے“

بینا کھلکھلا کر ہنسنے لگی ”ارے یار نہیں، اب تو بہت پارلر، ڈیزائنرز ٹائپ مرد بھی عام ہو گئے ہیں“

دونوں کو ہنسننا منع تھا مگر ہنسننا ضروری ہو گیا۔

”سوری ٹو سے، بینا جی، میری ڈکشنری میں ان کو مرد نہیں کہتے“

” رابعہ یہ ڈکشنری کسی کو دکھا نہ دینا۔ دنیا بہت ظالم ہے لڑکی۔ یار ہم نے شادی کو بہت فضول رسموں سے بھر دیا ہے۔ شاپنگز، لمبے چوڑے رسم ورواج، بھاری بھرکم کپڑے، نا صرف دولہا دولہن کے بلکہ شرکت کر نے والو ں کے بھی۔ ڈھیر سارے کھانے، بہت سی نمائش، خاندان میں ایک شادی ہوتی ہے۔ اور تیاری ہر گھر میں ہو رہی ہو تی ہے۔ ویسٹ آف ٹائم ہے۔ “


”بینا جی میں یہی تو سوچتی ہو ں کہ اگر ہم اتنی محنت اور سرمایہ کاری کہیں اور کر لیں تو یقین کریں مریخ سے آگے سفر کر سکتے ہیں۔ ہم مذہب کی ہر بات یاد رکھتے ہیں، جو ہمارے مفاد کی ہے۔ اور جو سب کے مفاد کی ہے اس کو بھول جاتے ہیں“

”رابعہ بات اس سے بھی آگے نکل چکی ہے۔ ہم نے مذہب کو بس ٹول بنایا ہوا ہے۔ اپنی خواہش کا مذہب، اپنی مرضی کا مذہب، چار شادیو ں کا مذہب، کثیر بھوکے بچو ں کا مذہب، نہیں یار ایسا نہیں ہو تا زندگی بہت قیمتی ہے۔ یو ں کچھ بھی حاصل نہیں ہو تا۔ خیر پانے کے لئے خیر دینی پڑتی ہے۔ خیر تقسیم کرنی پڑتی ہے“

”بینا جی میں آپ سے متفق ہوں۔ مگر ہمارے دامن خیر سے خالی ہیں۔ ہماری نگاہ خیر کے متضاد پہ ہوتی ہے۔ اور ہم وہی تقسیم کرتے ہوئے بھول جاتے ہیں کہ اس کو ہی ہمارے تک پلٹ کر آنا ہے۔ کبھی ہمارے پاس تو کبھی ہماری اولاوں کے پاس۔ مگر بات وہیں آکر رکتی ہے۔ میرے بھائی کی شادی پہ تم نے اتنا ہلکا جوڑا کیو ں پہنا؟ “

بینا کی ہنسی کو کون روک سکتا تھا۔

”رابعہ یہی تو المیہ ہے۔ میں نے شادی پہ ساڑھی پہن لی سب کو ہلکی لگ رہی تھی۔ لوگو ں کا خیال ہے کہ اگر ہم نے سادہ لباس پہنا ہے تو گویا ہم ان کو یا ان کی فیملی کو اہمیت نہیں دے رہے۔ ایسا ہو تا نہیں۔ اگر ہمیں اپنے بچوں کے گھر بسانے ہیں تو اس سوچ کو ختم کر نا ہو گا۔ فطرت کی طرف لو ٹنا ہو گا۔ ورنہ ہم اپنے ہاتھو ں سے اپنے گھرو ں میں آگ لگا رہے ہیں۔ کوئی قصور وارنہیں ہے۔ ہم خود ہیں“

”اور بینا جی یہ آگ گھرو ں سے سوسائٹی تک خود آ جاتی ہے۔ یو نہی ہے نا ں؟ ہم نے یہ مشکل سماج خود تخلیق کیا ہے۔ دنیا کیا کہے گی کے نام پہ۔ اپنی جھوٹی عزت کے نام پہ۔ اگر ہمیں اپنی بیٹی سے سچی محبت ہوتی تو ہم اس کو وہ سب اپنے گھر میں مہیا کرتے، جو اس کے سسرال والو ں کو دیتے ہیں۔ یہ ہما ری عزت کا انوکھا کردار ہے۔ ہم بیٹی کو نہیں، خود کودوسروں کے سامنے سر بلند کر رہے ہو تے ہیں۔ مجبویو ں کے محل ہم نے خود بنائے ہو ئے ہیں۔ اس کے بعد مقدر کا سندر گیت بھی خود ہی گاتے ہیں“

”ہا ں بالکل یو نہی ہے رابعہ۔ “

”بینا جی ہم کیو ں نہیں سمجھ رہے کہ شادی دو لوگوں کا مسئلہ ہے۔ ہم اس کوفلاحی ڈیم کیو ں بنانا چاہ رہے ہیں۔ ہم دو لو گوں پہ اپنی مرضی کیو ں مسلط کر کے ان پہ سماج کا بوجھ ڈال رہے ہیں۔ جب کہ ہم سمجھ بھی رہے ہیں کہ ہم کیا کر رہے ہیں“

”اؤ رابعہ ڈیئر اس کو ہم نے عزت اور انا کا مسئلہ جو بنا لیا ہے۔ ہم نے شادی کو زندگی کا حصہ نہیں تہوار بنا لیا ہے۔ ہم شادی کی مادی تیاری تو کرتے ہیں۔ مگر رویوں کی تیاری نہیں کرتے۔ مگر یار سب باتیں اپنی جگہ تمہاری ایک بات مجھے اچھی لگی۔ جو تم نے اس لڑکی سے اس کے بھائی کی شادی پہ کہی۔ میرے بھائی کی شادی پہ اگر میں بْلا بھی لو ں تو بلا شبہ آپ کپڑے مت پہننا، مجھے کو ئی اعتراض نہیں ہو گا۔ “یار اتنا نیچرل رویہ۔ گویا ہمارا معیار بس لباس فاخرہ ہے۔ دکھاواہے۔

بینا کو ہنسنے و ہنسانے سے کو ن روک سکتا تھا

”لڑکی تم اس سماج کو نہیں سمجھا سکتی کہ شادی دو لوگوں کا مسئلہ ہے۔ اس کو حل کر نے سے آپ اس کو بگاڑ دیتے ہیں، خیر تقسیم کرنے سے، خیر ملتی ہے“ لڑکی یہ سب تمہارا مسئلہ نہیں ہے۔ ان لفظوں کا فتور ہے جو تمہارے ساتھی بن گئے ہیں۔ جو تمہارے اندر کہیں اتنی شان سے رہنے لگے ہیں کہ باہر کی شان و شوکت ماند پڑ گئی ہے۔ “