وسعت اللہ خان
کل بھی کراچی میں زمین اسی طرح تپ رہی تھی جیسے آج تپ رہی ہے۔ کل بھی میں اسی زیرِ تعمیر موڑ سے گزرا جہاں آتی جاتی گاڑیوں کے ٹائروں کی دھول آج بھی اس دو ڈھائی سال کی بچی کے منہ پر پینٹ کی طرح جمی ہوئی تھی جس کی ماں مسلسل ہاتھ پھیلائے کھڑی تھی۔
جیسے اس زیرِ تعمیر موڑ پر ایک عرصے سے پڑے پتھر، مسلسل اٹھتی گرد، ٹوٹے فٹ پاتھ کا کنارہ پڑے ہیں۔ بالکل ویسے ہی یہ بچی اور اس کی ماں اس منظر کا حصہ ہیں۔ اگر یہ انسان ہوتے تو اسی جگہ نیم ایستادہ نہ رہنے دیے جاتے۔
آج گرمی شاید کل سے زیادہ تھی کیونکہ یہ ننگے سر بچی کبھی اپنی دونوں ہتھیلیاں تپتے سورج سے بچنے کے لئے سر پر رکھ رہی تھی، کبھی ہٹا رہی تھی۔ گرم زمین سے بچنے کے لیے کبھی پنجے اٹھا رہی تھی اور کبھی پنجے زمین پر رکھ کے ایڑیاں بچا رہی تھی۔
مگر میں اس بچی کی ماں کا ذکر کیوں نہیں کر رہا؟ کیونکہ اس کے پیروں میں چپل ہے، کیونکہ اس نے چادر سے اپنا منہ اور سر لپیٹا ہوا ہے لہذا اس کے چہرے کے تاثرات کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔ بس اس کا ہاتھ مستقل پھیلا ہوا تھا اور نگاہ بچی پر تھی۔
اب آپ پوچھیں گے کہ بھکارن ہے تو کیا ہوا ماں بھی تو ہے؟ اور یہ کیسی ماں ہے جس نے خود تو اپنا سر چادر سے ڈھانپا ہوا ہے اور پاؤں میں چپل ہے مگر اپنی دو ڈھائی سال کی بچی کو ننگے پاؤں ننگے سر اس تپتی زمین پر کھڑا کر رکھا ہے؟
پہلی بات تو یہ ہے کہ میں یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ اس بچی اور اس عورت میں رشتہ کیا ہے؟ ہو سکتا ہے ماں بیٹی کا ہو، ہو سکتا ہے کوئی رشتہ ہی نہ ہو۔ مگر جسے آپ بچی کے ساتھ ظلم و زیادتی سمجھ رہے ہیں وہ اس عورت کا بزنس ماڈل بھی تو ہو سکتا ہے؟ جتنی بھی تھوڑی بہت خیرات مل رہی ہے شاید اس ننگے سر، ننگے پاؤں تپتی زمین پر کھڑی بچی پر آتے جاتوں کے ترس کے طفیل ہی مل رہی ہو۔
کیا اس بچی کے اور بھی بہن بھائی ہوں گے، باپ ہوگا؟ ہو سکتا ہے ہوں یا نہ ہوں۔ ہو سکتا ہے وہ بھی کہیں آس پاس بھیک مانگ رہے ہوں۔ ممکن ہے باپ یا کوئی چچا، ماموں اس بچی کا سرپرست ہو اور اسی نے انھیں بھیک مانگنے پر لگایا ہو اور ساری آمدنی خود رکھ لیتا ہو یا سب کی بھیک جمع کر کے اپنے ہاتھ سے تقسیم کرتا ہو۔
یہ بھی ممکن ہے کہ یہ بچی اور اس کی ماں تنہا ہوں مگر ایسے کسی گروہ کا حصہ ہوں جو کسی ٹھیکیدار کے لئے کام کرتا ہو کہ جس کا بزنس ہی بھیک منگوانا ہو، کچھ بھی ممکن ہے۔
مگر کچھ خوش قسمت بچے بھی تو ہیں۔ جیسے وہ بچے جن کی مائیں (یا جو کوئی بھی ہیں) ان بچوں کو کندھے سے لگا کر یا گود میں لٹا کر بھیک مانگتی ہیں۔ یہ سپیشل بچے ہیں۔ نہ روتے ہیں نہ حرکت کرتے ہیں۔ گویا سانس لیتی ننھی منی لاشیں جنھیں نشہ آور دوا دے کر مسلسل سلایا جاتا ہے۔ جاگتے رہیں گے تو شاید روئیں، تنگ کریں اور کارِ بھیک میں مداخلت بھی کریں۔ بے سدھ پڑے رہتے ہیں تبھی تو ان بے نام پتلوں کو دیکھ کر آتے جاتے لوگ اپنے بٹوے یا جیب میں ہاتھ ڈالنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔
مگر اس میں خاص کیا ہے؟ انہونا کیا ہے؟ کچھ بھی تو نہیں۔ پر مجھے کیوں لگ رہا ہے کہ موڑ پر کھڑی عورت ہی ریاست ہے؟ اس عورت کے ساتھ کھڑی ننگے پاؤں ننگے سر دو ڈھائی سال کی بچی یا کسی اور بھکارن کے کندھے سے چپکی ننھی سی زندہ لاش اور کروڑوں محتاج گمناموں میں کیا بنیادی فرق ہے؟
یہ سب ایک ہی بزنس ماڈل کا ہی تو حصہ ہیں۔ جس کی مسکین صورت بنیاد محرومی یا پسماندگی شو کیس کر کے ترس ابھارنے کی کوشش پر رکھی گئی ہے۔ تاکہ فرد ہو کہ ادارہ کہ ملک، جو بھی دیکھے اپنی جیب میں ہاتھ ڈالنے پر مجبور ہو جائے اور زندگی کا ایک اور دن کسی طور نمٹ جائے۔
شام تک اکھٹی ہونے والی بھیک میں سے کس کو کتنا حصہ ملے گا کہ کم ملے گا یا بطور سزا نہیں ملے گا۔ اب تو اتنی عادت ہو گئی ہے کہ لگتا ہے بھیک کے سکے اچھالنے والا نہیں بلکہ بانٹنے والا ہی اپن کا بھگوان ہے۔