آدمی اپنی زبان تلے پوشیدہ ہے۔ حضرت علی سے منسوب یہ قول ہم سب نے سنا ہے۔ اور یہ بھی سنا ہو گا کہ زبان کا گھاؤ تلوار کے گھاؤ سے زیادہ گہرا ہوتا ہے۔ اور یہ بھی سنا ہو گا کہ پہلے تولو پھر بولو۔ اور یہ بھی سنا ہو گا کہ جو تم آج کہو گے وہ کل لوٹ کر تمہاری طرف آئے گا۔ اور یہ بھی سنا ہو گا کہ لوگوں سے احسن طریقے سے بات کرو۔ اور یہ بھی سنا ہوگا کہ لفظ ایک منہ زور گھوڑا ہے، لگام ڈھیلی ہوئی نہیں اور تم منہ کے بل گرے نہیں۔ اور یہ بھی سنا ہوگا کہ خاموشی عالم کا زیور اور جاہل کا پردہ ہے۔ اور یہ بھی سنا ہوگا کہ خاموشی گفتگو کی مرشد ہے۔ آپ میں سے بہت سوں نے…
آدھوں کو تو ڈھائی برس دیکھنے بھی نصیب نہ ہوئے۔ گنتی کے دو تین کو بمشکل چار سال میسر آئے۔ پانچویں برس کو مکمل طور پر کوئی نہ دیکھ پایا۔ حالانکہ ان میں سے ایک کو دو اور دوسرے کو تین چانس بھی ملے۔ پر ڈھاک کے وہی تین پات ہی رہے۔ اس میں قصور وزرائے اعظم کا ہی ہے۔ پہلے برس انھیں یقین ہی نہیں آتا کہ وہ چیف ایگزیکٹو کی کرسی پر بیٹھے ہیں، اپوزیشن بنچوں پر نہیں۔ دوسرے برس انھیں اپنی وزارتِ عظمی پر ہلکا ہلکا اعتبار آنے لگتا ہے۔ اس اعتبار کے سہارے وہ تیسرے برس ایسے بے ضرر فیصلے اور احکامات جاری کرنے لگتے ہیں کہ جن سے کسی طاقتور کے پر نہ پھڑپھڑانے لگیں۔ …
گذشتہ چند برس سے جب بھی سیاست میں فوجی قیادت کی جلی یا خفی مداخلت کی بحث سر اٹھاتی ہے تو ایک جملہ ضرور سنائی دیتا ہے۔ ’خدانخواستہ فوج کمزور ہوئی تو پاکستان بھی شام، لیبیا، عراق، صومالیہ بن سکتا ہے۔ یہ فوج ہی ہے جس نے اس ملک کو متحد رکھا ہوا ہے۔‘ گرامر کے اعتبار سے یہ جملہ بالکل درست ہے مگر کیا حقائق کے اعتبار سے بھی مستند ہے؟ کسی بھی ناپسندیدہ بحث کو گدلا کرنے کا سب سے آسان نسخہ یہ ہے کہ دلائل کی کمی دھول اڑا کر پوری کی جائے۔ مثلاً اسی ملک میں چند برس پہلے تک منطقی استدلال کے ساتھ مذہبی بحث ہو سکتی تھی۔ آج جیسے ہی آپ نے کوئی بات شروع کی، فو…
شاید آپ کو یاد ہو لگ بھگ دو برس پہلے لاہور میں ایک ماں تین معصوم بچے لے کر فٹ پاتھ پر بیٹھ گئی۔ ان بچوں کے گلے میں پڑے پلے کارڈز پر لکھا تھا ’غربت کے ہاتھوں مجبور برائے فروخت۔‘ اس کے بعد کئی شہروں میں پریس کلب یا مصروف چوک پر ہر چند روز بعد کوئی نہ کوئی مرد یا عورت اپنے بچوں کو ایسے ہی پلے کارڈز پہنا کر سڑک پر لانے لگا۔ شروع شروع میں تو میڈیا نے اس سٹوری کو کوریج بھی دی۔ کوریج بند ہوئی تو یہ بچے اور ان کے والدین بھی کہیں چلے گئے۔ بہت سی بسوں ویگنوں میں ایسے کردار بھی نظر آتے تھے جو سفر شروع ہوتے ہی مسافروں کی گود میں کارڈ پھینکنے لگتے۔…
کیسا لگے اگر کوئی ماہرِ لسانیات کسی آٹو مستری سے کہے کہ تم جس طرح انجن کھول رہے ہو یہ نرا اناڑی پن ہے میں تمھیں انجن کھول کے دکھاتا ہوں ذرا دھیان سے دیکھنا۔ اور اس ماہرِ لسانیات پر کیا گزرے گی جسے کوئی آٹو مستری یہ کہے کہ گرائمر کے بنیادی اجزا کیا ہوتے ہیں؟ میں تمھیں ان کی مشق کرواتا ہوں۔ اس پنواڑی کو آپ کیا کہیں گے جو کسی پولیس والے کو بتائے کہ بندوق کیسے صاف کی جاتی ہے اور کھول کر جوڑی کیسے جاتی ہے اور اس پولیس والے کو کیا کہیں گے جو کسی پنواڑی کو بتائے کہ میاں تمھیں تو پان لگانے کا بھی سلیقہ نہیں۔ ذرا پرے ہونا میں لگا کر بتاتا ہوں۔ …
عالمی ادارہِ صحت نے خبردار کیا ہے کہ کوئی بھی حکومت لاک ڈاؤن تب ہی نرم کرے جب چھ بنیادی شرائط پوری کر لے۔ اول وائرس کے عمومی پھیلاؤ کو کنٹرول کر لیا گیا ہو، دوم، صحت کے ڈھانچے اور نظام میں اتنی سکت اور صلاحیت ہو کہ آبادی کے ایک بڑے حصے کی ٹیسٹنگ کے نتیجے میں متاثرہ افراد کو فوری طور پر الگ کر کے ان کو قرنطینہ اور علاج کی سہولت فراہم کی جا سکے۔سوم، اسپتالوں اور معمر و بیمار لوگوں کے لیے مختص نرسنگ ہومز اور ان کی دیکھ بھال کرنے والوں میں وائرس پھیلنے کے امکان کو کم سے کم کرنے کے اقدامات کر لیے گئے ہوں۔ چہارم، تعلیم گاہوں ، دفاتر ، کار…
Social Plugin