آدمی اپنی زبان تلے پوشیدہ ہے۔ حضرت علی سے منسوب یہ قول ہم سب نے سنا ہے۔ اور یہ بھی سنا ہو گا کہ زبان کا گھاؤ تلوار کے گھاؤ سے زیادہ گہرا ہوتا ہے۔ اور یہ بھی سنا ہو گا کہ پہلے تولو پھر بولو۔ اور یہ بھی سنا ہو گا کہ جو تم آج کہو گے وہ کل لوٹ کر تمہاری طرف آئے گا۔
اور یہ بھی سنا ہو گا کہ لوگوں سے احسن طریقے سے بات کرو۔ اور یہ بھی سنا ہوگا کہ لفظ ایک منہ زور گھوڑا ہے، لگام ڈھیلی ہوئی نہیں اور تم منہ کے بل گرے نہیں۔ اور یہ بھی سنا ہوگا کہ خاموشی عالم کا زیور اور جاہل کا پردہ ہے۔ اور یہ بھی سنا ہوگا کہ خاموشی گفتگو کی مرشد ہے۔
آپ میں سے بہت سوں نے شاید مرحوم عرفان خان کی ہندی فلم ’مقبول‘ دیکھی ہو۔ اس فلم کا مرکزی خیال شیکسپئیر کے ڈرامے میکبتھ سے لیا گیا ہے۔ ایک منظر میں مافیا ڈان پنکھج سنگھ پیٹ کے ہلکے ایک کارندے کو طلب کر کے پوچھتا ہے پان کھاتے ہو؟ سہما ہوا کارندہ نفی میں سرہلاتا ہے۔ پنکھج سنگھ اس کی گردن میں ہاتھ ڈال کر منھ کھول کر ایک گلوری ٹھونستے ہوئے کہتا ہے ’میاں پان کھایا کرو، منھ بند رہتا ہے۔‘
کہنے کا مطلب یہ ہے کہ آج جو ہمارے خان صاحب تابڑ توڑ مشکلات میں گھرے ہوئے ہیں، اس کا سب سے بڑا سبب ڈیڑھ انچ کا وہ لوتھڑا ہے جو خدا نے ہر ایک کو اس لیے عطا کیا ہے کہ اسے انتہائی احتیاط سے استعمال کیا جائے اور ’بولو تاکہ پہچانے جاؤ‘ کا تقاضا پورا ہو سکے۔
بولنا تو سب جانتے ہیں، مگر کب نہیں بولنا اور کتنا بولنا ہے، اسے آپ آرٹ کہیں یا سائنس لیکن یہ ایسا وصف ہے جسے سنبھالنے کے لیے مسلسل ریاض اور خود آگہی درکار ہے۔
اور جو خود کو عام کے بجائے خاص سمجھتے ہیں اور جن کی روزی روٹی ہی عوامی زندگی سے جڑی ہوئی ہو ان پر تو لازم ہے کہ زبان کی حفاظت اپنے سے بھی زیادہ کریں۔
ایک جملہ، بس ایک جملہ انسان کو اچھے بھلے مسخرے میں بدلنے اور اس کے اگلے پچھلے تمام سنجیدہ جملوں کو بلیک کامیڈی میں رنگنے کے لیے کافی ہے۔
آپ بعد میں بھلے ہر ایک کو پکڑ پکڑ کر بتاتے رہیں کہ بھائی صاحب میرا یہ مطلب نہیں وہ مطلب تھا، یا میری بات کو میڈیا نے توڑ مروڑ کے پیش کیا، یا آپ نے میرا یہ جملہ سیاق و سباق سے ہٹ کر پکڑ لیا۔ پر وہ جو کہتے ہیں کہ لبوں سے نکلی بات اور کمان سے نکلا تیر واپس نہیں ہوتے۔
بھٹو صاحب وضاحتیں کرتے کرتے چلے گئے کہ ’اُدھر تم، اِدھر ہم‘ کا نعرہ اُنھوں نے نہیں لگایا اور پوری بات کو سیاق و سباق سے ہٹ کے ان سے منسوب کیا گیا مگر یہ فقرہ آج بھی ان کے ساتھ چپکا ہوا ہے۔
ضیا الحق نے بس یہ کہا تھا کہ آئین بارہ صفحے کی کتاب ہے میں جب چاہے اسے پھاڑ سکتا ہوں۔ آج جب بھی ضیا کا نام آتا ہے تو یہ فقرہ بھی کانوں میں گونجنے لگتا ہے۔
پرویز مشرف نے یہی تو کہا تھا کہ خواتین غیر ملکی شہریت کے لیے بھی ریپ کروا لیتی ہیں۔ یہ فقرہ تاریخ کا حصہ بن گیا۔ مگر ضیا اور مشرف نے کبھی بھی اپنی رائے پر افسوس کا اظہار نہیں کیا، کیونکہ آمر تو آمر ہوتا ہے۔
تازہ ترین واقعہ سندھ کے وزیرِ ثقافت سردار شاہ کا ہے۔ ایک تقریب میں شاہ عبداللطیف بھٹائی کی عظمت بیان کرتے ہوئے اُنھوں نے جو بات کہی اس کا بنیادی مفہوم یہ تھا کہ بھٹائی ایک معمولی خاندان کے چشم و چراغ تھے، ایک عام سے مولوی کے بیٹے، کیا اوقات تھی اس کی، مگر اس نے سندھی سماج کی سوچ بدل دی۔
یہ بھی پڑھیے
اب یار لوگ اس میں سے بس یہ فقرہ لے اڑے کہ بھٹائی کی کیا اوقات تھی۔ اصل بات بیچ میں کہیں رہ گئی اور منتری جی کو وضاحت پیش کرنی پڑ گئی۔
جہاں دشمن آپ کی ایک ایک حرکت اور لفظ کے پیچھے ایکسرے پلانٹ لے کر گھوم رہے ہوں وہاں آپ کو آدھی توانائی زبان کی دیکھ بھال پر صرف کرنی پڑتی ہے۔
اگر آپ کو یہ ہنر آتا ہے تو پھر آپ اپنے اردگرد بھی ایسے لوگ اکٹھے کرتے ہیں جنھیں کب منہ کھولنا ہے کب بند رکھنا ہے کی عادت ہو۔ اگر آپ خود ہی اس ہنر سے نابلد ہوں تو پھر آپ کے اردگرد بھی پیٹ کے ہلکوں کا ایسا جمِ غفیر لگ جاتا ہے کہ آپ اگر چپ رہنا بھی چاہیں تو وہ اپنی چٹر پٹر سے آپ کی معنی خیز خاموشی کا حساب کتاب برابر کر دیتے ہیں۔
آج خان صاحب جس جس شے کو ملک دشمنی، سازش اور ریاستی رٹ کی پامالی قرار دے کر حرام بتا رہے ہیں، کل تک ان تمام حرکتوں کو حلال سمجھ کر ان کی تبلیغ کر رہے تھے۔
بدقسمتی یہ ہے کہ یہ سب ماضی اور حال ویڈیوز کی شکل میں موجود ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ اب وہ جس بات کو بھی قابلِ مذمت سمجھتے ہیں مخالفین اس کے بالکل برعکس خان صاحب کے گذشتہ مؤقف کی ویڈیو سوشل میڈیا پر ڈال دیتے ہیں۔
یوں سربراہِ حکومت کو اپنی بات وزن دار بنانے کے لیے جس اخلاقی برتری کی ضرورت ہوتی ہے وہ پل بھر میں پانی ہو جاتی ہے۔
اپنے کیے کا کوئی علاج نہیں، مگر عوامی زندگی میں آنے کی خواہش مند نئی نسل کے لیے اس پورے سیاسی باب میں بہت سے سبق پوشیدہ ہیں۔ اگر وہ یہی سیکھ جائیں کہ کیا نہیں کہنا اور کب نہیں کہنا تو آدھے سے زائد شخصی مسائل سے چھٹکارا مل سکتا ہے۔
ذاتی زبان پر تب تک گرفت ممکن نہیں جب تک لسان پر دسترس نہ ہو۔ ضرورت ہے کہ شاہ محمود قریشی اپنے لسانی گیان کے بھنڈار میں سے تھوڑا سا تبرک باس اور کابینہ کو بھی بانٹیں۔