ماحولیاتی تبدیلی: گلاسگو میں جاری عالمی کانفرنس کوپ 26 کو دنیا کی ’آخری‘ اُمید کیوں کہا جا رہا ہے؟

 

سکاٹ لینڈ کے شہر گلاسگو میں اس وقت دنیا بھر سے حکومتی نمائندگان موجود ہیں اور یہ لوگ یہاں کانفرنس آف پارٹیز (کوپ) 26 نامی کانفرنس میں شرکت کے لیے آئے ہیں۔

کوپ 26 کا مقصد دنیا کو درپیش ماحولیاتی چیلنجز کا سدِباب کرنا ہے اور اس کانفرنس کے صدر آلوک شرما نے کہا ہے کہ کوپ 26 دنیا کے درجہ حرارت میں اضافے کو ڈیڑھ ڈگری سینٹی گریڈ تک محدود کرنے کی 'آخری بہترین اُمید' ہے۔

سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اگر ہمیں بدترین ماحولیاتی تبدیلیوں سے بچنا ہے تو ہمیں عالمی درجہ حرارت میں اضافے کو ڈیڑھ ڈگری سینٹی گریڈ تک محدود رکھنا ہوگا۔

چھ سال قبل پیرس میں عالمی رہنماؤں نے اس مقصد پر اتفاق کیا تھا اور اب اس پر پیشرفت کا جائزہ لیا جا رہا ہے اور مزید اہم اعلانات بھی متوقع ہیں۔

اس کانفرنس اور ماحولیاتی تبدیلیوں کے بارے میں ہم مزید کیا جانتے ہیں؟

ماحولیاتی تبدیلی دنیا کے سب سے اہم مسائل میں سے ہے۔

اگر ہمیں عالمی درجہ حرارت میں اضافے کو روکنا ہے تو حکومتوں کو گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج پر سختی سے قابو پانا ہوگا۔ گلاسگو میں ہونے والی یہ کانفرنس وہ موقع ہے جہاں تبدیلی کے اعلانات متوقع ہیں۔

ممکنہ طور پر امریکہ اور چین سمیت آلودگی پھیلانے والے دیگر ممالک یہاں اہم وعدے کریں گے جبکہ غریب ممالک کے لیے اس حوالے سے امداد کے بھی اعلانات کیے جا سکتے ہیں۔

ہم سب کی زندگیوں پر اس سے فرق پڑے گا۔ یہاں لیے گئے فیصلے مستقبل میں ہماری ملازمتوں، ہم اپنے گھروں کو کیسے گرم و ٹھنڈا رکھتے ہیں، ہم کیا کھاتے ہیں اور کیسے سفر کرتے ہیں، اس سب پر اثر انداز ہوں گے۔

موسمیاتی تبدیلی

،تصویر کا ذریعہREUTERS

ماحولیاتی تبدیلیاں کتنی خطرناک ہو سکتی ہیں؟

عالمی ادارہ موسمیات (ڈبلیو ایم او) کا کہنا ہے کہ سخت ترین موسم یعنی انتہائی گرمی کی لہریں اور تباہ کُن سیلاب اب معمول بن چکے ہیں۔

سنہ 2021 کی سٹیٹ آف کلائمیٹ رپورٹ میں ماحولیاتی تبدیلی کے اشاروں کا تذکرہ کیا گیا ہے جن میں بڑھتے درجہ حرارت، شدید موسمی حالات، سمندری سطحوں میں اضافے اور سمندروں کی صورتحال شامل ہیں۔

اس میں کہا گیا ہے کہ دنیا 'ہماری آنکھوں کے سامنے تبدیل ہو رہی ہے۔'

سنہ 2002 سے اب تک 20 سالہ اوسط درجہ حرارت صنعتی دور کے آغاز سے پہلے کے مقابلے میں ایک ڈگری سینٹی گریڈ زیادہ گرم ہونے والا ہے۔

اس کے علاوہ سنہ 2021 میں عالمی سطح سمندر میں بھی سب سے زیادہ اضافہ دیکھا گیا ہے۔

موسمیاتی تبدیلی

،تصویر کا ذریعہGETTY IMAGES

مگر ڈیڑھ ڈگری ہی کیوں؟

یہ بات عام طور پر معلوم ہے کہ انسانی سرگرمیوں نے دنیا بھر کے ماحول کو متاثر کیا ہے۔ ہماری صنعتی ترقی اور ایندھن جلانے سے پیدا ہونے والی گرین ہاؤس گیسز مثلاً کاربن ڈائی آکسائیڈ گرمی کو زمین کی فضا میں ہی پھانس لیتی ہیں جس سے دنیا گرم ہونے لگتی ہے۔

سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ صنعتی دور سے پہلے کے مقابلے میں عالمی درجہ حرارت کے اضافے کو ڈیڑھ ڈگری سینٹی گریڈ تک محدود رکھنے سے ہم بدترین ماحولیاتی اثرات سے بچ سکتے ہیں۔ مگر ہم پہلے ہی 1.1 ڈگری سینٹی گریڈ کی حد عبور کر چکے ہیں، چنانچہ فوری اور مؤثر اقدامات کی ضرورت ہے۔

پیرس میں کیے گئے معاہدے میں فیصلہ کیا گیا تھا کہ درجہ حرارت میں اضافے کو دو ڈگری سینٹی گریڈ سے 'کہیں نیچے' محدود کیا جائے گا اور ڈیڑھ ڈگری تک محدود کرنے کی کوشش کی جائے گی۔

مگر دنیا اس ہدف کے حصول کے راستے پر نہیں ہے۔

موجودہ منصوبوں کے باعث ہم کچھ دہائیوں میں ہی ڈیڑھ ڈگری سینٹی گریڈ کی حد پار کر جائیں گے اور صدی کے اختتام سے قبل یہ اضافہ 2.7 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ جائے گا۔

سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اگر اب بھی ہمیں ڈیڑھ ڈگری سینٹی گریڈ کے ہدف کو حاصل کرنا ہے تو سستی کے لیے بالکل بھی وقت نہیں ہے۔ کچھ دیگر سائنسدانوں کے خیال میں اب بہت دیر ہو چکی ہے اور یہ ہدف حاصل نہیں ہو پائے گا۔

موسمیاتی تبدیلی

،تصویر کا ذریعہGETTY IMAGES

ڈیڑھ ڈگری، دو ڈگری اور تین ڈگری گرم دنیا کیسی ہو گی؟

اگر آپ کسی دن باہر نکلیں تو درجہ حرارت میں آدھے ڈگری سینٹی گریڈ کا فرق شاید آپ کو محسوس بھی نہ ہو مگر اس کے ہمارے عالمی ماحول پر بہت بڑے اور ممکنہ طور پر تباہ کُن اثرات ہو سکتے ہیں۔

انیسویں صدی کے اختتام پر دنیا جتنی گرم تھی، اب اس سے 1.1 ڈگری سینٹی گریڈ زیادہ گرم ہو چکی ہے اور اس کے اثرات پوری دنیا پر محسوس کیے جا رہے ہیں۔

تو ایسے میں کیا ہو گا؟

اگر عالمی درجہ حرارت کو سنہ 2100 تک صنعتی دور سے پہلے کے مقابلے میں ڈیڑھ ڈگری سینٹی گریڈ تک محدود رکھا گیا تو قطبی علاقوں میں موجود برف کی تہیں اور گلیشیئرز پگھلنا جاری رکھیں گے۔

مگر اس سطح تک محدود رکھنے کا فائدہ یہ ہو گا کہ ہم بڑے پیمانے پر آنے والے سیلابوں کی شدت کم کر سکیں گے اور سطحِ سمندر میں اضافے کے باعث کروڑوں لوگوں کو بے گھر ہونے سے بچا سکیں گے۔

اس کے علاوہ ہم دنیا بھر میں پانی تک رسائی کے لیے جدوجہد کر رہے لوگوں کی تعداد 50 فیصد تک کم کر سکیں گے۔

موسمیاتی تبدیلی

،تصویر کا ذریعہGETTY IMAGES

دو ڈگری سینٹی گریڈ پر دنیا بہت سوں کے لیے ناقابلِ برداشت ہو جائے گی۔

گرم سمندروں میں موجود مرجان کی تمام چٹانیں برباد ہو جائیں گی اور سیلاب پہلے سے کہیں زیادہ شدید ہو جائیں گے۔

بڑی تعداد میں جانور اور پودے اپنا قدرتی ماحول کھو دیں گے اور کئی دیگر لوگ ڈیڑھ ڈگری سینٹی گریڈ کے مقابلے میں زیادہ گرمی کا سامنا کریں گے۔

تین ڈگری اور اس سے زیادہ گرمی کا ہمارے سیارے پر تباہ کُن اور خوفناک اثر ہو گا اور بیسیوں کروڑ لوگ سطحِ سمندر میں اضافے کی وجہ سے اپنی رہائش کھو دیں گے۔

گلاسگو میں کوپ 26 کے صدر آلوک شرما نے کہا کہ 'ہم جانتے ہیں کہ ہمارا مشترکہ سیارہ ابتری کی جانب جا رہا ہے اور ہم مل کر اس مسئلے کو حل کر سکتے ہیں۔'

'ہمیں مطلوبہ حل تیار کرنے کے لیے فوراً کام کرنا ہوگا۔ یہ کام آج سے شروع ہو گا۔ یا ہم ساتھ کامیاب ہوں گے یا ساتھ ناکام۔'

موسمیاتی تبدیلی
،تصویر کا کیپشن

آلوک شرما اس کانفرنس کو دنیا کی آخری بہترین اُمید قرار دے رہے ہیں

تاہم یہ مسئلہ صرف سائنسی نہیں بلکہ اس میں سیاسی عمل دخل بھی ہے۔ حکومتیں بسا اوقات اپنی پالیسیاں ویسی نہیں ترتیب دیتیں جو کہ سائنسدانوں کے مطابق ماحولیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے ضروری ہیں۔

یہاں تک کہ امریکہ کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے ملک کو پیرس معاہدے سے الگ کر لیا تھا کیونکہ اُن کے مطابق یہ ’غیر منصفانہ‘ تھا۔

تاہم صدر جو بائیڈن نے امریکہ کو واپس اس معاہدے میں شامل کر لیا ہے۔

اس کے علاوہ تیل اور گیس پیدا کرنے والے اور اس ایندھن پر منحصر کئی ممالک کی جانب سے مزید اقدامات کی توقع کی جا رہی ہے۔

غریب ممالک کو درپیش مشکلات

دنیا کے ترقی پذیر اور غریب ممالک کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج میں دنیا کے ترقی یافتہ ممالک اور خطوں مثلاً چین، امریکہ، روس اور یورپی ممالک سے کہیں پیچھے ہیں مگر وسائل کی کمی اور عموماً گرم علاقوں میں واقع ہونے کی وجہ سے اُن کو بھی بدتر حالات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

سنہ 2009 میں ترقی یافتہ ممالک کے رہنماؤں نے اعلان کیا تھا کہ وہ ہر سال ترقی پذیر ممالک کو ماحولیاتی تبدیلی سے نمٹنے میں مدد دینے کے لیے 100 ارب ڈالر دیں گے۔

مگر یہ ہدف اب بھی حاصل نہیں ہو سکا ہے اور اس کانفرنس کی میزبان برطانوی حکومت کا کہنا ہے کہ یہ ہدف 2023 تک بھی حاصل ہوتا نظر نہیں آ رہا۔

کئی ممالک کے لیے یہ سب سے بڑا مسئلہ ہے اور غریب ترین ممالک گلاسگو میں کچھ اقدامات کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

اُن کا کہنا ہے کہ جو ممالک ماحولیاتی تبدیلی کے سب سے زیادہ ذمہ دار ہیں، اُنھیں ہی اس سے نمٹنے کے لیے سب سے زیادہ پیسے دینے چاہییں۔

ملاوی کے صدر لزاروس چکویرا نے بی بی سی افریقہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ 'یہ کوئی خیرات نہیں ہے۔ ادائیگی کریں یا ہمارے ساتھ ہی ختم ہو جائیں۔'

موسمیاتی تبدیلی

،تصویر کا ذریعہREUTERS

اُنھوں نے کہا کہ 'جب ہم اپنا وعدہ پورا کرنے کا کہتے ہیں تو یہ کوئی خیراتی کام نہیں، بلکہ یہ صفائی کی فیس ادا کرنے جیسا ہے۔ اگر آپ ہمارا گھر کہلانے والی زمین کو اس حالت تک لانے میں شامل ہیں تو آئیں اسے مل کر صاف کریں لیکن آپ کو اس کے لیے ذمہ دار بننا پڑے گا۔'

’کبھی کبھی لوگوں کو غصہ دلانا پڑتا ہے‘

سوئیڈن سے تعلق رکھنے والی نوجوان ماحولیاتی کارکن گریٹا ٹونبرگ نے ماحولیاتی کارکنوں کی جانب سے سڑکیں بلاک کرنے کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ 'کبھی کبھی آپ کو لوگوں کو غصہ دلانا پڑتا ہے۔'

مگر اُن کا کہنا تھا کہ یہ یقینی بنانا ضروری ہے کہ کسی کو نقصان نہ پہنچے۔

گریٹا ٹونبرگ نے ماحولیاتی تبدیلی کے خلاف احتجاج کے طور پر سکول جانا بند کیا تھا اور اب اُن کا یہ اقدام دنیا کے کئی ممالک میں ایک باقاعدہ مہم بن چکا ہے۔

موسمیاتی تبدیلی

،تصویر کا ذریعہPA MEDIA

گریٹا گلاسگو تک ٹرین میں پہنچیں کیونکہ ٹرینوں کو ہوائی جہاز کے مقابلے میں ماحول کے لیے کم نقصان دہ تصور کیا جاتا ہے۔

سنہ 2019 میں سپین میں ہونے والی کوپ 25 میں شرکت کے لیے گریٹا امریکہ سے سپین تک ایک کشتی میں آئی تھیں اور پرواز کر کے پہنچنے سے انکار کر دیا تھا۔

Presentational grey line

کیا کوپ 26 واقعی دنیا کو بچا پائی گی؟

ڈیوڈ شکمین، سائنس ایڈیٹر، بی بی سی نیوز

بظاہر چیزیں ایک سادہ سی وجہ کے باعث اتنی حوصلہ افزا نہیں لگ رہیں، اور وہ یہ کہ گذشتہ 25 کوپ کانفرنسیں بھی عالمی درجہ حرارت میں اضافے کا سبب بننے والی گرین ہاؤس گیسز کا اخراج روکنے میں ناکام رہی ہیں۔

تین دہائیوں سے جاری گفت و شنید کے باوجود ہمارا سیارہ صنعتی دور سے پہلے کے مقابلے میں 1.1 ڈگری سینٹی گریڈ گرم ہو چکا ہے۔

مگر رواں سال کی کانفرنس سے حقیقی پیش رفت کی معمول سے زیادہ اُمیدیں وابستہ ہیں۔

ایسا اس لیے بھی ہے کیونکہ اب خطرات ترقی یافتہ ممالک کے دروازے تک پہنچ چکے ہیں۔

رواں سال جرمنی میں سیلابوں کے باعث 200 افراد ہلاک ہوئے، سرد ترین ممالک میں سے ایک کینیڈا میں ہیٹ ویو آئی اور یہاں تک کہ سائیبیریائی آرکٹک میں بھی موسم گرم رہا۔

اور سائنسدان اس حوالے سے واضح مؤقف رکھتے ہیں کہ اگر ہم نے تباہ کُن درجہ حرارت سے بچنا ہے تو سنہ 2030 تک کاربن کے اخراج کو نصف کرنا ہوگا۔

ڈیوڈ شکمین گذشتہ 20 برس سے ماحولیاتی تبدیلی پر رپورٹنگ کر رہے ہیں اور یہ اُن کی 10 ویں کوپ سربراہی کانفرنس ہے۔