آدھوں کو تو ڈھائی برس دیکھنے بھی نصیب نہ ہوئے۔ گنتی کے دو تین کو بمشکل چار سال میسر آئے۔ پانچویں برس کو مکمل طور پر کوئی نہ دیکھ پایا۔ حالانکہ ان میں سے ایک کو دو اور دوسرے کو تین چانس بھی ملے۔ پر ڈھاک کے وہی تین پات ہی رہے۔
اس میں قصور وزرائے اعظم کا ہی ہے۔ پہلے برس انھیں یقین ہی نہیں آتا کہ وہ چیف ایگزیکٹو کی کرسی پر بیٹھے ہیں، اپوزیشن بنچوں پر نہیں۔
دوسرے برس انھیں اپنی وزارتِ عظمی پر ہلکا ہلکا اعتبار آنے لگتا ہے۔ اس اعتبار کے سہارے وہ تیسرے برس ایسے بے ضرر فیصلے اور احکامات جاری کرنے لگتے ہیں کہ جن سے کسی طاقتور کے پر نہ پھڑپھڑانے لگیں۔
چوتھے برس تک ان کے اردگرد کا حلقہِ گرگانِ باران دیدہ یقین دلا چکا ہوتا ہے کہ حضور کسی کے احسان کے سبب اس منصبِ جلیلہ پر فائز نہیں ہوئے بلکہ اپنی قابلیت اور عوامی مقبولیت کے بل پر اس کرسی پر رونق افروز ہیں۔
اور ایک دن کسی کمزور لمحے میں اس مظلوم کو واقعی یقین ہو جاتا ہے کہ ’جدھر دیکھتا ہوں ادھر میں ہی میں ہوں‘۔ اور پھر یہ اعتماد اس سے وہ وہ فیصلے کروا دیتا ہے جن کی تمنا اس کے پیشروؤں کو بھی دھول چٹوا چکی ہے۔
اور پھر وہ ان اصلاحات و اختیارات پر ہاتھ مار دیتا ہے کہ جن کی طرف اسے نگاہ اٹھا کر بھی نہیں دیکھنا چاہیے اور پھر اس کے ساتھ وہی ہوتا ہے جو آدم کے ساتھ ہوا تھا۔
وہ بھول جاتا ہے کہ جس کرسی پر بٹھایا گیا ہے وہ کاغذ پر بھلے بااختیار آئینی عہدہ ہو مگر عملاً یہ ایک نمائشی سی ای او (چیف ایگزیکٹو آفیسر) کی آسامی ہے۔ ایسا سی ای او جو قابلیت و ذہانت و روشن دماغی کی سائنس لڑانے کے بجائے مروت، لچکداری اور پروٹوکولی شان و شوکت پر صابر و شاکر رہنے پر قانع ہو۔
نیز اپنے نام پر کہیں اور لیے گئے فیصلوں پر نہ صرف بلا حجت دستخط کر سکتا ہو بلکہ ان فیصلوں کو دنیا کے سامنے اپنا بنا کر پیش کرنے اور ان کا دفاع کرنے کی بھی اہلیت رکھتا ہو ( گویا بجے بھی اور بے آواز بھی ہو)۔
وسعت اللہ خان کے دیگر کالم پڑھیے
اگر اب بھی سمجھ میں نہیں آ رہا تو پھر وزارتِ عظمی کے تمام ممکنہ خواہش مندوں کو اس منصب سے جڑی ذمہ داریاں ازبر کرنے کے لیے افتخار عارف کو ضرور پڑھنا چاہیے۔
وہ میرے نام کی نسبت سے معتبر ٹھہرے
گلی گلی میری رسوائیوں کا ساتھی ہو
کرے کلام جو مجھ سے تو میرے لہجے میں
میں چپ رہوں تو میرے تیوروں کا ساتھی ہو
وہ خواب دیکھے تو دیکھے میرے حوالے سے
میرے خیال کے سب منظروں کا ساتھی ہو
مصنوعی ذہانت کی ٹیکنالوجی اور روبوٹ سازی اس نہج پر تو پہنچ چکت ہے کہ چین میں دو برس قبل ژن ہوا نیوز ایجنسی نے پہلے دو خوبرو اور سمارٹ و خوش لباس روبوٹک ٹی وی نیوز کاسٹر متعارف کروا دیے جو ہو بہو انسانی لب و لہجے میں خبریں سنا سکتے ہیں۔
امید ہے کہ جلد ہی ہر عہدے کے لیے موزوں روبوٹس کی پیداوار اب محض چند برس کے فاصلے پر ہے۔ اس کے بعد آئینی اختیار و دائرہ کار کا بحثی ٹنٹا بھی ختم ہو جائے گا۔ مگر مجھے وہم ہے کہ ہم جیسے ملکوں میں اختیاراتی چھیچھا لیدر شائد تب بھی جاری رہے۔
فرض کریں اگر کسی نے بطور وزیرِ اعظم کام کرنے والے روبوٹ کی پروگرامنگ بدل دی اور اس نے بھی انسانوں کی طرح ناپسندیدہ فیصلے کرنے شروع کر دیے تو کیا ہو گا؟
یا کسی ہیکر نے آئینی روبوٹ کی پروگرامنگ ہی کرپٹ کر دی تو کیا ہو گا؟ کیا اس کے خلاف بھی کرپشن ریفرنس فائل ہوگا یا اس روبوٹ کو ورکشاپ میں بھیج کے مناسب مرمت کی جائے گی؟ یا پھر وہ بھی سکریپ کر دیا جائے گا؟