منشیات اور گینگز کی دنیا میں پھنسی عالیہ جنھیں بوائے فرینڈ نے بطور ’ڈیلر‘ استعمال کیا


 بظاہر عالیہ عام سی 24 سالہ لڑکی ہیں۔ انھیں فیشن کا شوق ہے اور انسٹاگرام پر پوسٹس کرنا پسند ہے۔ بظاہر وہ خوش نظر آتی ہیں۔ مگر ان کی مسکراہٹ کے پیچھے تشدد کی ایک کہانی ہے اور ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ رجحان نوجوان لڑکیوں میں بڑھتا جا رہا ہے۔

عالیہ کو بچپن میں ٹیڈی بیئر یا چھٹیوں پر فیملی کے ساتھ جانا یاد نہیں ہے۔ اس کی جگہ انھیں سکول سے گھر لوٹنے پر اس بات کا اطمینان ہونا یاد ہے کہ ان کے گھر کی سامنے کی کھڑکی کھلی ہو۔ اس کا مطلب یہ ہوتا تھا ان کے والد تازہ ہوا آنے دے رہے ہیں۔

عالیہ کو اس وقت منشیات کے بارے میں کچھ خاص پتا نہیں تھا۔ انھوں نے یہ سیکھا کہ کھلی کھڑکی کا مطلب ہے کہ والد اچھے موڈ میں ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’اگر کھڑکی بند ہوتی تو اس کا مطلب ہوتا تھا کہ دھواں نہیں ہے اور والد کو وہ نہیں مل رہا جو انھیں چاہیے۔‘

اس وقت کسی کو پتا نہیں تھا کہ جنوبی لندن کے اس گھر میں کیا ہو رہا تھا۔ وہ کہتی ہیں کہ ان کے گھر میں تشدد ہوتا تھا اور کبھی عالیہ بھی اس کا نشانہ بنتی تھیں۔ وہ کہتی ہیں کہ وہ اور ان کی بہن رات کو گلے لگ کر روتے ہوئے سویا کرتی تھیں۔

Aliyah as a child
،تصویر کا کیپشن

عالیہ کا بچپن

کبھی پیسوں کے مسئلے بھی ہوتے تھے اور عالیہ کو یاد ہے کہ کبھی کبھی گھر میں کھانے کو کچھ نہیں ہوتا تھا اور انھیں خالی پیٹ سکول جانا پڑتا تھا۔

ایسے کئی سال گزرنے کے بعد ہی عالیہ اور ان کے بہن بھائیوں کو سوشل سروسز نے گھر سے نکالا تھا۔ عالیہ کہتی ہیں کہ انھیں اور ان کے بہن بھائیوں کو تحفظ فراہم کرنے کے کئی مواقع گنوائے گئے۔ وہ کہتی ہیں کہ انھیں یاد ہے کہ جب حکام ان کے گھر کا دورہ کرتے تو ان کے والدین اپنا بہترین رویہ دکھاتے تھے۔

بچوں میں مجرمانہ رویے کی کنسلٹنٹ کینڈرا ہاؤسمین کہتی ہیں کہ ایسی کہانیوں کا ایک کلاسک رجحان ہے۔ ‘اگر گھر ایک محفوظ جگہ نہیں ہے تو بچوں سے فائدہ اٹھائے جانے کا امکان بڑھ جاتا ہے۔‘ اور ان کی تنبیہ ہے کہ عالیہ جیسی اور بھی بہت ساری لڑکیاں ہیں۔

مگر مشکلات کے باوجود عالیہ نے اپنی زندگی سنوار لی ہے۔

Short presentational grey line

جب عالیہ آٹھ سال کی تھیں تو ایک دن ان کے والد کے دوست والد کی برتھ ڈے منانے کے لیے آئے تھے۔ کسی نے عالیہ کو شیمپین دے دی۔ عالیہ نے وہ بہت زیادہ پی لی اور انھیں الکوحل پوائزننگ کی وجہ سے ہسپتال جانا پڑا۔

یہ عالیہ کے لیے شراب کے غلط استعمال کرنے کی ابتدا تھی۔ وہ کہتی ہیں کہ ’اس کے بعد میں نے شراب پینا شروع کر دی۔ مجھے بس سارا وقت شراب پینے کا شوق تھا۔‘

عالیہ بتاتی ہیں کہ 13 سال کی عمر تک وہ شراب پر انحصار کرنے لگی تھیں۔ ‘شراب پینا ایک مسئلہ بن گیا تھا۔ میں اس لیے شراب پی رہی تھی کیونکہ مجھے ڈپریشن تھا۔‘

ان کے والدین کی شادی ختم ہو رہی تھی اور ان کے والد گھر چھوڑ کر چلے گئے۔ آہستہ آہستہ ان کا گھر ایک ٹریپ ہاؤس بن گیا یعنی ایک ایسا گھر جہاں منشیات اور ہتھیار رکھے جاتے ہیں اور ڈیلر یہاں ملاقاتوں کے لیے آتے ہیں۔

عالیہ کو یاد ہے کہ ایک دفعہ انھیں ایسے میں اکیلا چھوڑ دیا گیا تھا۔ وہ کہتی ہیں کہ ’میں دس سال کی تھی۔ میرے گھر میں بہت سارے منشیات ڈیلر بیٹھے ہوئے تھے۔ ایک بچی ہونے کی وجہ سے انھیں لگا کہ یہ سب ان کا قصور ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ’مجھے پتا نہیں تھا کہ میں نے کیا غلط کیا ہے۔‘

ایک شخص جو اس ٹریپ ہاؤس کا متواتر دورہ کرتا تھا، ایک دن اسے لگا کہ کوئی مسئلہ ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ‘اس نے حقیقی معنوں میں میرا خیال کیا۔‘ وہ عالیہ کا خیال رکھتا تھا اور ان کا دوست بن گیا اور آج بھی وہ عالیہ کے ساتھ رابطے میں ہے۔

’میرے خیال میں اس نے ایک بچی کو دیکھا جس کے والدین اپنی ذمہ داری ادا نہیں کر رہے تھے اور اس نے بس تھوڑی سی سپورٹ دی، جہاں وہ دے سکتا تھا۔‘

Aliyah

اور اگرچہ عالیہ سوشل سروسز کی نظر میں تھیں پھر بھی انھیں ایسے حالات میں رہنے دیا گیا۔ عالیہ کو حکام کا رویہ سمجھ نہیں آتا۔ وہ کہتی ہیں کہ ’حکام نے بہت ساری چیزوں پر غور نہیں کیا۔ اگر آج کے دور میں ایسا ہو رہا ہوتا تو وہ فوراً بچے کو لے جاتے۔‘

آخرکار جب عالیہ 12 سال کی تھیں تو انھیں ایک فوسٹر گھر میں منتقل کیا گیا۔ مگر اس وقت تک وہ ایک ایسی بچی بن چکی تھیں جن کے بہت سارے مسائل تھے۔

عالیہ کہتی ہیں کہ تین سال کے دورانیے میں وہ تقریباً 20 فوسٹر گھروں میں رہیں۔ وہ ان گھروں سے بھاگ جاتی تھیں اور سڑکوں پر سوتی تھیں۔ وہ اتنی شراب پیتی تھیں کہ بےہوش ہو جائیں۔ سکول میں بھی ان کا رویہ خراب تھا۔ وہ چیزیں توڑتی تھیں اور دوسرے بچوں کو ہراساں کرتی تھیں۔

یہ بھی پڑھیے

وہ کہتی ہیں کہ انھیں ایسا لگتا تھا کہ ان کے پاس باہر نکلنے کا کوئی راستہ نہیں ہے۔ وہ بتاتی ہیں کہ وہ ایسے جی رہی تھیں کہ جیسے بس انھیں زندہ بچنا ہے اور انھوں نے کئی بار خود کو نقصان پہنچایا اورخود کشی کی بھی کوشش کی۔

اپنے سے بڑی عمر کے لوگوں کے ساتھ گھلنے ملنے کی وجہ سے وہ جرائم، تشدد اور منشیات کی دنیا میں پہنچ گئیں۔ عالیہ نے چوری کرنا شروع کردی، لوگوں کو مارنا پیٹنا، اور ان کو لوٹنا شروع کر دیا۔ ان کے پچپن کے زخموں نے انھیں ایک تباہ کن راستے پر ڈال دیا تھا۔

Aliyah as a teenager

جلد ہی ان کی ایک پہچان بن گئی۔ جب بھی ان کے گینگ میں کوئی غلط کام کرتا تو عالیہ سے کہا جاتا کہ وہ ان کو جا کر جسمانی سزا دے۔

وہ کہتی ہیں کہ کئی سالوں تک انھوں نے دوسروں کو تکلیف دی۔ ‘یہ سب اس لیے تھا کہ میرے ماضی میں جو ہوا اس سب کا مجھ پر اثر ہو رہا تھا۔‘

’مجھ سے میرا بچپن چھینا گیا اور اس کے بعد چیزیں اور زیادہ خراب ہوگئیں۔‘

یہی وجہ ہے کہ عالیہ جرائم سیکھنے کے لیے ایک بہترین امیدوار تھیں۔ آخر عالیہ کو ایک ایسا شخص ملا جس کی عمر 20 سال سے زیادہ تھی۔ اس نے عالیہ کو یہ تاثر دیا کہ ان دونوں کا محبت کا رشتہ ہے۔ عالیہ کہتی ہیں کہ ’میرا خیال تھا کہ میں اس سے عشق کرتی تھی۔‘

مگر حقیقت اس کے برعکس تھی۔ ’وہ مجھ سے منشیات فروخت کرواتا تھا۔ مجھے سمجھ نہیں آئی کہ وہ میرا فائدہ اٹھا رہا تھا۔‘ آخر کار ان کا رشتہ ختم ہو گیا۔

لندن میں سماجی کارکن ریٹا جیکبز کہتی ہیں کہ انھوں ںے یہ ’بوائے فرینڈ ماڈل‘ کے ذریعے بچیوں کا فائدہ اٹھایا جانا بہت دیکھا ہے اور اب یہ اور بھی عام ہوتا جا رہا ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ لڑکیوں کو یہ سمجھ نہیں آتی کہ ان کا فائدہ اٹھایا جا رہا ہے اور وہ سمجھتی ہیں کہ ہم اس رشتے میں ہیں مگر اصل میں ان کے پارٹنر مجرم ہوتے ہیں۔‘

عالیہ کی جرائم کی تربیت انٹرنیٹ پر نہیں ہوئی۔ مگر آن لائن چائلڈ سیفٹی پالیسی آفیسر حینا ریوشن کہتی ہیں کہ آج کے دور میں ٹیکنالوجی نے بچیوں سے ناجائز فائدہ اٹھانے کو اور بھی آسان کر دیا ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ انٹرنیٹ تک متواتر رسائی کی وجہ سے یہ تربیت اب بہت تیزی سے کی جا سکتی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ شروع میں ایسے لوگ دوست بنتے ہیں اور جلد ہی بات تصاویر شیئر کرنے تک پہنچ جاتی ہے۔

Short presentational grey line

14 سال کی عمر میں عالیہ اپنے فوسٹر ہوم سے بھاگ گئیں۔ وہ مختلف دوستوں کے گھروں میں رہ رہی تھیں۔ انھیں معلوم تھا کہ ان کی رپورٹ کی جا چکی ہے اس لیے وہ باہر نہیں جا سکتی تھیں۔

مگر تنہائی آخر ان سے سہی نہ گئی۔ انھوں نے خود کو پولیس کے حوالے کر دیا۔ انھیں ایک یوتھ ریفرل آرڈر دیا گیا اور پہلی مرتبہ انھیں ایک کیئر ہوم بھیجا گیا۔

انھیں اس وقت پتا نہیں تھا مگر یہ پہلا موقع تھا جب ان کی زندگی بدل رہی تھی۔

15 سال کی عمر میں جب وہ وہاں پہنچیں تو انھوں نے ایسا رویہ رکھا جیسے وہ بالکل خوفزدہ نہیں ہیں مگر اندر سے وہ شدید ڈری ہوئی تھیں۔

پہلے دن ہی ایک سٹاف ممبر نے قوانین واضح کیے۔ انھیں ایک مخصوص وقت کر گھر لوٹنا تھا۔ ہر روز تمام رہائشیوں کو مل کر کھانا کھانا تھا۔

عالیہ کہتی ہیں کہ اس سٹاف ممبر نے بس اپنے قوانین واضح کر دیے تھے اور مجھے اس وقت اس کی ضرورت تھی۔ عالیہ کو پہلی مرتبہ نظم و ضبط کا سامنا تھا۔ ’مجھے یہ بہت پسند آیا۔ مگر میں یہ ظاہر نہیں کر سکتی تھی کیونکہ مجھے کسی کا اعتبار نہیں تھا۔‘

عالیہ کا اس گھر میں آغاز کچھ اچھا نہیں تھا۔ بدتمیزی کرنا اور دیکھنا کہ وہ بات کو کہاں تک لے جا سکتی ہیں، ان کا معمول تھا۔ ’میں انھیں ٹیسٹ کر رہی تھی مگر ساتھ میں مدد بھی مانگ رہی تھی۔ مجھے ایک فیملی چاہیے تھی، میں کسی کو گلے لگا کر رونا چاہتی تھی۔ وہاں مجھے روینہ نامی خاتون ملی۔‘

Note from Rowena to Aliyah

روینہ عالیہ کی سماجی کارکن تھیں۔ یہ رونیہ کی پہلی نوکری تھی۔ عالیہ کو یہ سمجھ آئی کہ کچھ بھی ہو جائے روینہ ان کی ساتھی ہیں اور ان کی مدد کریں گی۔ یہ وہ پہلا موقع تھا جب انھیں لگا کی کوئی ان کا اعتبار کرتا ہے۔

فائدہ اٹھائے جانے کے اثرات عالیہ جیسی لڑکیوں پر کئی سالوں تک رہتے ہیں۔ بہت سی لڑکیاں ان سے فرار حاصل نہیں کر پاتیں۔ مگر عالیہ ایسا کر پائیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ’اس گھر نے مجھے ٹون ڈاؤن کیا۔ میری ذات گمشدہ نہیں رہی۔‘

16 سال کی عمر میں وہ اس گھر سے روانہ ہوئیں۔ انھیں پتا چلا کہ وہ حمل سے ہیں۔ اس خبر نے انھیں جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ وہ کہتی ہیں کہ میں نے اپنے بچے کو اس سب سے نہیں گزرنے دینا تھا جس سے میں گزری۔

Aliyah with her daughter

سات سال پہلے ان کی بیٹی پیدا ہوئی۔ ان کا حمل مشکل تھا مگر ان کا ماننا ہے کہ اس تجربے نے ان کی زندگی بدل دی۔ ’اگر میری بیٹی نہ ہوتی تو آج میں یہاں نہ ہوتی۔ اس نے مجھے بچا لیا۔‘

عالیہ کہتی ہیں کہ ’وہ آج سات سال کی ہے مگر اس نے وہ سب نہیں دیکھا جو سات سال کی عمر میں نے دیکھا تھا۔ میں اس کے لیے خدا کا ہر روز شکر ادا کرتی ہوں۔‘

آج عالیہ اپنی بیٹی کے ساتھ جہاں رہتی ہیں اسے وہ صرف ایک مکان نہیں بلکہ ایک گھر کہتی ہیں۔‘

ان کی عام سی زندگی ہے۔ عالیہ کام کرتی ہیں، شاعری کا شوق رکھتی ہیں اور سوشل ورکر بننے کی تعلیم حاصل کرنے والی ہیں تاکہ وہ ایسے ہی بچوں کی مدد کر سکیں جیسے روینہ نے ان کی مدد کی تھی۔

’میں ابھی بھی ایک سفر پر ہوں۔ اپنی بچی کا خیال رکھتی ہوں۔ میں ایک ماں ہوں۔ میرے پاس ایک گھر ہے۔ میں جہاں رہتی ہوں وہ برادری ہر روز مجھے مسکرا کر دیکھتی ہے۔ میں ٹھیک ہو گئی ہوں۔ میں اب ایک بہت بہتر جگہ پر ہوں۔‘