سائنسدان جنھوں نے دریافت کیا کہ ہمارا جسم سورج کی گرمی یا کسی عزیز کے پر جوش انداز میں گلے لگنے کو کیسے محسوس کرتا ہے اس سال کے نوبیل انعام برائے طب کے حقدار قرار پائے ہیں۔
ڈیوڈ جولیس اور آرڈم پیٹاپاؤشین کا تعلق امریکہ سے ہے اور انھوں نے لمس یعنی چھونے اور درجۂ حرارت پر تحقیق کرکے یہ انعام مشترکہ طور پر جیتا ہے۔
انھوں نے یہ معلوم کیا کہ ہمارا جسم اعصابی نظام میں طبعی احساس کو برقی پیغام میں کیسے تبدیل کرتا ہے۔
ان کی تحقیق سے درد کے علاج میں نئی راہیں کھل سکتی ہیں۔
حرارت، ٹھنڈ اور لمس ہماری بقا اور ہمارے گرد و پیش کا تجربہ کرنے کے لیے لازمی ہے۔
لیکن ہمارا بدن یہ عمل کسیے سر انجام دیتا ہے یہ بات اب تک حیاتیات کے بڑے معموں میں سے ایک تھی۔
نوبیل پرائز کمیٹی کے ٹامس پرلمین نے کہا: ’یہ بہت اہم اور بڑی دریافت تھی۔‘
یونیورسیٹی آف کیلیفورنیا، سان فرانسسکو، کے پروفیسر ڈیوڈ جیولیس نے سرخ مرچ کے کھانے کی وجہ سے ہونے والے جلن دار درد پر تحقیق کے دروان یہ سائنسی سراغ پایا۔
انھوں نے سرخ مرچ کے ایک کیمیائی جز کیپسائسِن پر، جو مرچ میں گرمی کا احساس پیدا کرتا ہے، تجربات کیے۔
انھوں نے ہمارے اعصابی نظام کے اندر اس رسپٹر یا خلیے کا پتہ لگایا جو کیپسائسِن کا اثر قبول کرتا ہے۔
مزید تحقیق سے معلوم ہوا کہ مذکورہ رسپٹر حرارت سے متاثر ہوتا ہے اور ’تکلیف دہ درجۂ حرارت‘ پر فعال ہو جاتا ہے۔ مثال کے طور پر ایسا اس وقت ہوتا ہے جب آپ کا ہاتھ گرم چائے سے جل جائے۔
اس دریافت کی روشنی میں کئی دوسرے ٹمپریچر سنسرز یا حرارت کو محسوس کرنے والے خلیوں کا پتہ چلا۔ پروفیسر جولیس اور پروفیسر آرڈم پیٹاپاؤشین نے ایک ایسے سینسر کا پتہ لگایا جو ٹھنڈ کا پتہ لگاتا ہے۔
A day to be thankful: this country gave me a chance with a great education and support for basic research. And for my labbies and collaborators for partnering with me. So glad @NancyAHong captured this "touching" moment. #PIEZO https://t.co/Os6ROB29RK
— Ardem Patapoutian (@ardemp) October 4, 2021
Twitter پوسٹ کا اختتام, 1
اس دوران پروفیسر پیٹاپاؤشین سکرِپس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ میں ڈِش کے اندر رکھے ہوئے خلیات پر بھی تجربات کر رہے تھے۔
ان تجربات کے نتیجے میں ایک دوسرے رسپٹر کا پتہ چلا جو چھونے یا طبعی قوت کے استعمال سے بیدار ہو جاتا ہے۔
اگر آپ ساحل پر چل رہے ہوں تو آپ کے پیروں تلے آنے والی ریت کا احساس ان رسپٹرز کی مدد سے آپ کے دماغ تک پہنچتا ہے۔
لمس اور حرارت کے ان سینسرز کی دریافت کے بعد سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ ان کا ہمارے جسم اور بعض بیماریوں میں وسیع کردار ہے۔
حرارت کا پہلا سینسر جسے ٹی آر پی وی1 کا نام دیا گیا ہے پرانے درد اور ہمارا جسم کے درجۂ حرارت کو برقرار رکھنے کی صلاحیت سے متعلق ہے۔ لمس یا ٹچ رسپٹر کا کردار پیشاب کرنے کے عمل سے لے کر بلڈ پریشر تک ہے۔
پرائز کمیٹی کا کہنا ہے کہ دونوں کے کام نے ’ہمیں یہ سمجھنے میں مدد دی کہ حرارت، ٹھنڈ اور میکانیکی یا جسمانی قوت اعصابی نظام کے اندر تحریک کیسے پیدا کرتی ہے جس کی مدد سے ہم اپنے اردگرد کے ماحول کو سمجھ پاتے ہیں۔‘
کمیٹی نے مزید کہا کہ ’یہ علم کئی طرح کی بیماریوں جیسا کہ پرانے درد کا علاج دریافت کرنے کے لیے کام میں لایا جا رہا ہے۔‘
دونوں کو مشترکہ طور پر 1,150,000 ڈالر کی رقم انعام میں ملے گی۔