کیسا لگے اگر کوئی ماہرِ لسانیات کسی آٹو مستری سے کہے کہ تم جس طرح انجن کھول رہے ہو یہ نرا اناڑی پن ہے میں تمھیں انجن کھول کے دکھاتا ہوں ذرا دھیان سے دیکھنا۔
اور اس ماہرِ لسانیات پر کیا گزرے گی جسے کوئی آٹو مستری یہ کہے کہ گرائمر کے بنیادی اجزا کیا ہوتے ہیں؟ میں تمھیں ان کی مشق کرواتا ہوں۔
اس پنواڑی کو آپ کیا کہیں گے جو کسی پولیس والے کو بتائے کہ بندوق کیسے صاف کی جاتی ہے اور کھول کر جوڑی کیسے جاتی ہے اور اس پولیس والے کو کیا کہیں گے جو کسی پنواڑی کو بتائے کہ میاں تمھیں تو پان لگانے کا بھی سلیقہ نہیں۔ ذرا پرے ہونا میں لگا کر بتاتا ہوں۔
اگر ڈاکٹر پرویز ہود بائی سے میں کبھی پوچھوں کہ آپ نے بھلے ایم آئی ٹی سے طبیعات میں پی ایچ ڈی کر رکھی ہو مگر کیا آپ کو کسی نے یہ بھی بتایا کہ ایلیمنٹری فزکس اور اپلائیڈ فزکس میں کیا فرق ہے؟ سوچیے ڈاکٹر صاحب پر کیا گزرے گی۔
یا کوئی کسان کسی جنرل سے کہے مائی باپ کندھے پر تو بڑے فیتے شیتے لگائے ہوئے ہیں مگر آپ لوگوں کو ٹینک تو ڈھنگ سے چلانا آتا نہیں۔
میں پچھلے تیس برس سے کھیت میں ٹریکٹر چلا رہا ہوں آپ کہیں تو ٹینک کو ٹھیک طرح سے چلانے کا طریقہ سکھاؤں؟
یا کوئی ایم بی بی ایس کسی عالمِ دین کو چیلنج کر دے کہ مفتی صاحب آپ نے علومِ شریعہ پڑھتے پڑھاتے عمر گزار دی اور سینکڑوں فتاویٰ بھی صادر فرمائے۔ میں تو تب مانوں جب آپ دعاِ قنوت زبانی بغیر اٹکے سنا دیں۔
کوئی بھی فقہی معاملات میں ڈاکٹروں کی رائے کو مستند نہیں سمجھتا اور سمجھنا بھی نہیں چاہئے۔ البتہ طبی معاملات میں ماہرینِ فقہہ کی رائے کو ہم میں سے بیشتر لوگ حتمی سمجھتے ہیں۔
ہمیں یقین ہے کہ عام آدمی کو وہ عقلِ سلیم عطا نہیں کی گئی جو علما کو ودیعت ہوئی ہے۔ لہذا طبی، انتظامی یا قانونی ماہرین سمیت کوئی بھی ہما شما اگر کسی عالمِ دین کے ہر کہے کی پیروی نہیں کرتا یا اپنی رائے دینے کی جرات کرتا ہے یا سوال اٹھاتا ہے تو وہ دراصل خدا کا نافرمان ہے۔
اگر فرامین خداوندی کی توجیہہ کا یہی معیار ہے کہ مستند ہے میرا فرمایا ہوا۔ تو پھر کھل کے کہیے کہ ایران، ترکی، خلیجی ریاستیں، شمالی افریقہ کے ممالک، بنگلہ دیش، ملائیشیا اور انڈونیشیا سمیت بیسیوں مسلمان ممالک، حکومتیں، علما اور رعایا خدائی احکامات سے غافل ہیں۔
اگر وہ اچھے مسلمان ہوتے تو اس وقت خلق کو اجتماعی عبادت سے روکنے کے بجائے گھروں میں رہ کر عبادت کی ہدایت کیوں دیتے۔
چنانچہ دینی حمیت کا تقاضا ہے کہ سعودی عرب کو پاکستانی علما براہِ راست یا ریاستِ پاکستان کے توسط سے ایک عرضداشت بھیجیں کہ اے خادمِ حرمین مسجد الحرام اور مسجد نبوی سمیت تمام عبادت گاہوں کو کھولو، عمرے کو یکسر روکنے کے بجائے چھ فٹ کے فاصلے سے مناسک ِ عمرہ کی تکمیل کی پابندی کرواؤ، نمازِ جمعہ اور تراویح کے اجتماعات کی احیتاطی تدابیر کے ساتھ اجازت دو اور فریضہِ حج کی تیاریاں مت روکو ۔
ورنہ ہم علماِ پاکستان سمجھیں گے کہ تمہارا ایمان کمزور ہے اور تم شریعت کی بنیادی تعلیمات و احکامات سے بھی نابلد ہو اور خدا کے غضب سے ڈرنے کے بجائے ایک گھٹیا سے وائرس سے ڈر رہے ہو۔
مگر ہم سب جانتے ہیں کہ شاہ سلمان بن عبدالعزیز ہوں کہ سعودی مفتیِ اعظم کہ جامعہ الازہر کے مفتیِ اعظم یا آیت اللہ خامنہ ای۔ کسی کو ایسی کوئی عرضداشت نہیں بھیجی جائے گی۔ اور سب جانتے ہیں کہ کیوں نہیں بھیجی جائے گی۔
ہم سب کو کتنا ارمان ہے کہ عالمِ اسلام کسی بھی مسئلے پر متحد کیوں نہیں ہوتا۔ اگر مسلمان ریاستوں، حکومتوں اور علما کو کوورنا بھی متحد نہیں کر سکتا تو اور کون سی قیامت اس ناممکن کو ممکن بنا پائے گی؟
وبا اور آگ میں کیا فرق ہے۔ کیا آپ آگ کے سامنے کھڑے رہتے ہیں یا اس سے بچنے اور بجھانے کی تدبیر کرتے ہیں۔ کیا کوئی وبا ایسی بھی ہوتی ہے جو ہندو یا مسلمان اور متقی و بدکار میں تمیز کر سکے؟
عقل بھی اللہ تعالی کی عظیم نعمتوں میں شامل ہے۔ اس نعمت کا شکر ادا کرنے کا عملی طریقہ یہ ہے کہ اسے زیادہ سے زیادہ استعمال کیا جائے نہ کہ طاق پر دھر دیا جائے۔
چونکہ علماِ کرام نے ریاستِ پاکستان کو قائل کر لیا ہے کہ مساجد میں مشروط عبادت میں کوئی حرج نہیں لہذا اب کاروباری طبقات نے بھی دباؤ بڑھا دیا ہے کہ اگر دینی اجتماعات کا انعقاد درست ہے تو رزقِ حلال کی خاطر کاروبار و تجارت کھولنے میں کیا قباحت ہے۔
چنانچہ ایک کے بعد ایک فصیل گرتی جا رہی ہے۔ اب کورونا ہی کوئی شرم کر لے تو کر لے۔
ویسے آپس کی بات ہے کورونا اتنا جان لیوا نہیں جتنی اس کی دہشت بنا دی گئی ہے۔ اصل سفاک وائرس ریاکار کمزوری کا ہے۔ یوں بھی ایک کمزور ریاست غریب کی جورو ہے۔
ہاں یاد آیا حکومت اور علماِ کرام کے مابین مساجد میں عبادت بحال کرنے کا جو 20 نکاتی معاہدہ ہوا ہے اس کے چھٹے نکتے میں درج ہے کہ پچاس برس سے زیادہ عمر کے لوگ مساجد اور امام بارگاہوں میں نہ جائیں۔
صدرِ مملکت عارف علوی سمیت جن علماِ کرام نے اس معاہدے کی ضمانت دی ہے ان سب کی عمر 50 سے اوپر ہے۔