مولوی کو مالی مشکلات ہوں، تو گاؤں کے بڑے چودھری کے گھر کسی سانحے کی بد دعائیں مانگنے لگتا ہے۔ چوں کہ اسے اکثر مالی مشکلات ہوتی ہیں، اس لیے وہ ایسا کرتا رہتا ہے۔ وہ مریض کو ڈاکٹر کے پاس لے جانے کی حوصلہ شکنی اور دم وم کی حوصلہ افزائی بھی اس لئے کرتا ہے کہ مریض بچ گیا تو محنتانہ سمیت شہرت بھی ملے گی، اور گزر گیا اور مال دار ہوا، تو پانچوں گھی میں۔
مولوی، خواجہ سرا کی طرح نہیں ہوتا، جس کی رزق چودھری کی خوشیوں سے وابستہ ہوتا ہے۔ تبھی خواجہ سرا اپنے لئے نہیں چودھری کے گھر کے لئے خوشیاں مانگتا ہے۔ مولوی اور خواجہ سرا کی مالی منفعت چودھری کے یہاں کے غم اور خوشی سے وابستہ ہوتی ہے۔ اس لیے چودھری سے مولوی اور خواجہ سرا کا ایک طرح کا مشترک ناتا ہوتا ہے۔
سانحوں کی منفعت پر مولوی کی اجارہ داری ہے۔ البتہ خوشیوں میں خواجہ سرا اس کا شریکِ منفعت ہوتا ہے۔ اس لیے خواجہ سرا کسی کی خوشی میں ناچ ناچ کر مر بھی جائے، برا ہی ہوتا ہے۔
مرگ انبوہ شاید بہت بڑے انسانی سانحے کو کہتے ہیں۔ تاریخ کی کتب میں بڑے انسانی قاتلوں کو اکثر فاتح اور بادشاہ لکھا جاتا ہے۔ فاتحین اور بادشاہوں کے علاوہ انسانی جانوں کی بڑی دشمن وبا ہوتی ہے۔ لیکن وبا سب انسانوں کی دشمن نہیں ہوتی۔ جس طرح خوشیوں کے موسم میں خواجہ سرا ناچ ناچ کر بے حال ہو جاتے ہیں، لیکن اداس نہیں ہوتے۔ اسی طرح وبا کے دنوں میں گورکن قبریں کھود کھود کر چور ہو جاتے ہیں، مگر اداس نہیں ہوتے۔ کیوں کہ اداس ہوکر جی ہار بیٹھے، تو بھوکے مر جائیں گے۔ گھوڑے اور گھاس کی دوستی نہیں ہو سکتی۔
گورکن بھی دوسروں کی خوشیوں میں ڈھول بجانے والوں جیسا ہوتا ہے۔ ہر کسی کی خوشی میں ڈھول بجانے والے کی اپنی بیٹی کی شادی ہو تو اس کے یہاں کوئی ڈھول بجانے والا نہیں آتا۔ اسی طرح ساری عمر چودھریوں کی قبریں کھودنے والے گورکن کی قبر کھودنے کے لئے کوئی چودھری نہیں آتا۔
وبا کے دنوں میں گورکن بھی مولوی جیسا ہوتا ہے۔ جتنی زیادہ اموات، اتنی زیادہ قبریں، اور جتنی زیادہ قبریں اتنی زیادہ منفعت۔ جیسے جتنی زیادہ اموات، اتنے زیادہ جنازے، فاتحہ، تیجے اور چالیسویں، منفعت ہی منفعت۔ یوں گورکن اور مولوی دونوں ہم پیشہ اور شریکِ منفعت بھائی ہیں۔ اس لئے کبھی کسی نے مولوی سے گورکن کی برائی نہیں سنی ہو گی۔ گورکن مولوی کے تماش بینوں کے لئے پنڈال بناتا ہے۔ خواجہ سرا کی طرح اس کے تماش بین چراتا نہیں۔ تماش بین چرانے کا سیاست دان جتنا برا مانتا ہے، اتنا مولوی بھی۔
وبا کے دنوں میں خواجہ سرا سہما اور افسردہ ہوتا ہے۔ سہما اس لیے کہ اتنے نیک اور متقی لوگ اتنی زیادہ تعداد میں مرتے رہتے ہوتے ہیں۔ ایسے میں خواجہ سرا مر گیا تو کون نہلائے گا؟ کون جنازہ پڑھائے گا اور کون دفنائے گا؟ وبا کے دنوں میں مولوی سانحوں کی دعائیں مانگتا ہے نہ گورکن فارغ ہوتا ہے۔ جس پیشے پر بھی بہار آ جائے اس کے ماہرین کی مانگ بڑھ جاتی ہے۔ ڈاکٹروں کو دیکھیں۔ کیسے اپنے جاں بلب مریضوں کو ہفتوں اور مہینوں بعد تک معائنے کی تاریخیں دیتے رہتے ہیں۔ ایسے میں کوئی مریض جلد بازی دکھاتے مرے تو اس کی بلا سے۔
وبا کی وجہ سے لوگ یکے بعد دیگرے مرنے لگتے ہیں۔ مرنے والوں پر ان کے پس ماندگان روتے نہیں، بس سہمے سہمے سے ہوتے ہیں۔ مرحومین کے لئے بخشش کی دعاووں کی بجائے اپنے تحفظ کی دعائیں زیادہ مانگتے ہیں۔ بد قسمتی سے وبا کے دنوں میں مرنے والوں کے ساتھ ان کی محبتیں بھی مر جاتی ہیں۔ محبت اتنی عام چیز ہے کہ صرف عام دنوں میں ہی کی جا سکتی ہے۔
وبا کے دنوں میں لوگ وبا سے مرتے ہیں اور گل فروش بھوک سے۔ محبت مر جائے تو پھول خرید کر کون قبروں پر ڈالتا ہے؟ وبا میں مرنے والوں کی قبروں کی مٹی پھولوں کے انتظار میں خشک ہو جاتی ہے۔ گل فروش وبا کے دنوں کی محبت کی طرح بد قسمت ہوتا ہے۔ البتہ مولوی اور گورکن کی طرح کفن فروش کا کاروبار، وبا کے دنوں میں خوب چمکنے لگتا ہے۔ انسان بھی عجیب ہے۔ زندہ ہو تو پانچ گز کپڑا درکار ہوتا ہے، مر جائے تو چالیس گز۔ جب کہ زیادہ کپڑوں کی زیادہ ضرورت زندوں کو ہوتی ہے۔ آج جس طرح موت کے کاروبار پر مولوی کی اجارہ داری ہے۔ پچھلے زمانوں میں بزاز بھی وہی کرتا تھا۔ اس لیے مردے کو کتنے کپڑے کی ضرورت ہے، طے ہو چکا ہے۔
اقتدار کے سینے میں دل نہیں دماغ ہوتا ہے۔ دماغ بنیا ہے، سود وزیاں میں لگا رہتا ہے، عاشق نہیں کہ محبت کرے۔ دماغ محبت میں دُکھتا ہے دھڑکتا نہیں۔ اس لئے اقتدار کا دماغ محبت بھرا نہیں خواہش بھرا ہوتا ہے۔ یہ خواہش اقتدار کو محفوظ، طویل اور دوامی بنانے کی ہوتی ہے۔ یہ خواہش کبھی نہیں چاہتی کہ مارچ آئے تو کوئی مارچ بھی ہو۔ اقتدار کی خواہش، سانحوں کو منافع بخش مواقع (اپرچونٹیز) میں تبدیل کرنا چاہتی ہے۔
ہم سایہ ملک میں کوئی سانحہ ہو تو اقتدار کا دماغ سوچتا ہے کہ اگر ایسا سانحہ میرے یہاں ہو، تو اس سے کیا سیاسی منفعت حاصل کی جا سکتی ہے؟ کیا اس سے مہنگائی اور بے روزگاری کے ہاتھوں تنگ اور بے چین عوام کی توجہ حکومتی نا اہلی اور عدم کارکردگی سے ہٹائی جا سکتی ہے؟ حزب اختلاف کو حاصل ہوتی ہوئی اتحاد کو پارہ پارہ کیا جا سکتا ہے؟ کیا اس سانحے کو کسی بارڈر سے اپنے یہاں لایا جاسکتا ہے؟ کیا کسی اجتماعی کوشش سے ملک میں پھیلایا جا سکتا ہے؟ کیا اپنے مخالف کے مخالف فرقہ یا مسلک کے کسی مفتی یا مولوی کے ذریعے اس کو مزید طول دیا جا سکتا ہے؟
جب اقتدار کا دماغ خود کو محفوظ اور دوامی بنانے کے لئے فیصلہ کرتا ہے۔ تو کسی بارڈر سے سانحے کو اندرون ملک لانے کے لئے ختم بخاری کی ضرورت پڑتی ہے، نا اسے اجتماعی کوشش سے پھیلانے کے لئے کسی طارق بن زیاد کی ضرورت ہوتی ہے، اور نہ اسے طول دینے کے لئے چاند سے کوئی مفتی اتار لانا پڑتا ہے۔ بس کسی دیرینہ دوست، شاہ کے مصاحب بنے کسی مبلغ یا کسی شہرت پسند جبہ و دستار والے کی مدد درکار ہوتی ہے۔ پوچھا جاتا ہے کہ جب دو مہینے یہ سانحہ دو طرف منڈلا رہا تھا تو آپ کیا کر رہے تھے؟
سانحے کو اپرچونیٹی میں تبدیل کرنے کی خواہش ہو تو تذبذب، ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھے رہنا، میٹینگیں، کمیٹیاں، مونیٹرنگ، غور و فکر اور سانحے کو ختم کرنے والوں پر مشیروں اور وزیروں کے زبانی کلامی حملوں کے سائن بورڈ جلتے بجھتے رہتے ہیں۔ اس لئے جو ابھی تک سوچتے ہیں، فیصلہ نہیں کر سکے وہ سیاست کرتے ہیں، اور سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا۔ اقتدار کا کوئی رشتہ دار بھی نہیں ہوتا اس لیے وہ قوم کو عوام سمجھتا ہے۔ یعنی عام، معمولی لوگ، جو کثرت میں ہونے کی بجائے وبا کے دنوں میں کثرت سے مرتے ہیں۔ جن کے مرنے پر گورکن، کفن فروش، تابوت فروش اور بعض مولویوں کی خوشیوں کا دار و مدار ہے۔
وبا سے پہلے خواجہ سرا خوشی میں ناچ رہے تھے اور مولوی سانحوں کی بد دعائیں مانگ رہے تھے۔ اب خواجہ سرا سہمے اور افسردہ ہیں، جب کہ بعض مولوی حکومتی اقدامات کے پر پرزے اڑا رہے ہیں۔ خوش اور خوش حال ہیں، فارغ نہیں ہیں۔ کیوں نا اس دفعہ خواجہ سراوں کے سب سے زیادہ متقی کی اقتدا میں، ان کی صفوں میں بیٹھ کر، ان کے ساتھ دو رکعت نمازِ تحفظ پڑھی جائے، اور رحمان و رحیم سے گڑ گڑا کر اپنی غلطیوں، کوتاہیوں، گناہوں، جرائم اور مظالم کی معافیاں، اور اس وبا سے تحفظ کی دعائیں مانگی جائیں۔ ہماری خوشیوں سے خواجہ سراوں کی خوشیاں اور رزق وابستہ ہے۔ یہ وبا جاری رہی تو ہم مرتے رہیں گے۔ اور ہم مرتے رہیں گے تو افسردہ اور بے چارے خواجہ سرا بھوکے مر جائیں گے، گل فروشوں کی طرح۔ اس لیے خواجہ سراوں اور گل فروشوں کی زندگی کی خاطر دو رکعت نمازِ امن کی اجازت چاہیے۔