عالمی ادارہِ صحت نے خبردار کیا ہے کہ کوئی بھی حکومت لاک ڈاؤن تب ہی نرم کرے جب چھ بنیادی شرائط پوری کر لے۔
اول وائرس کے عمومی پھیلاؤ کو کنٹرول کر لیا گیا ہو، دوم، صحت کے ڈھانچے اور نظام میں اتنی سکت اور صلاحیت ہو کہ آبادی کے ایک بڑے حصے کی ٹیسٹنگ کے نتیجے میں متاثرہ افراد کو فوری طور پر الگ کر کے ان کو قرنطینہ اور علاج کی سہولت فراہم کی جا سکے۔سوم، اسپتالوں اور معمر و بیمار لوگوں کے لیے مختص نرسنگ ہومز اور ان کی دیکھ بھال کرنے والوں میں وائرس پھیلنے کے امکان کو کم سے کم کرنے کے اقدامات کر لیے گئے ہوں۔
چہارم، تعلیم گاہوں ، دفاتر ، کارخانوں ، بازاروں وغیرہ کے بارے میں اطمینان ہو جائے کہ وہاں ماسک لگانے اور محفوظ فاصلہ برقرار رکھنے کی شرط سختی سے پوری ہو گی۔پنجم، بیرونِ ملک سے آنے والوں کی صحت کی جانچ پڑتال کا موثر نظام قائم ہو چکا ہو۔ششم، عوام کورونا سے متعلق طبی حقائق کے بارے میں نہ صرف باشعور ہوں بلکہ تیزی سے بدلتے حالات سے اپنے روز مرہ کو ہم آہنگ کرنے اور ریاستی اقدامات پر عمل کرنے کے بارے میں حقیقی تعاون پر آمادہ ہوں۔
عالمی ادارہِ صحت کی مذکورہ شرائط پر اب تک صرف چین اور جنوبی کوریا ہی کسی حد تک پورے اترے ہیں۔مگر وہاں بھی جزوی لاک ڈاؤن نافذ ہے۔جب کہ بیشتر امیر صنعتی ممالک بالعموم اور مغربی ممالک بالخصوص مذکورہ شرائط پوری نہ کرنے کے سبب کڑے لاک ڈاؤن سے گذر رہے ہیں۔حتی کہ اٹلی، برطانیہ اور امریکا کی حکومتیں جو وبا کی ابتدا میں غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کرتی رہیں مگر حالات قابو سے باہر ہونے لگے تو انھیں بھی کورونا نے جامع لاک ڈاؤن پر قائل کر لیا۔اٹلی میں پچھلے دو ماہ سے سخت پابندیاں ہیں اور فی الحال غیرمعینہ عرصے کے لیے ہیں۔یہی حال فرانس، اسپین اور بیشتر یورپی یونین کا ہے۔
برطانوی وزیرِ اعظم بورس جانسن جب خود کورونا کے شکار ہوئے تو ان کا اپنا نظریاتی سافٹ وئیر بھی اپ ڈیٹ ہو گیا۔ مریض بننے سے پہلے وہ نیمِ دروں نیمِ بروں گلابی لاک ڈاؤن کے قائل تھے تو بیمار ہونے کے بعد مکمل لاک ڈاؤن کی افادیت کے پرزور وکیل ہو گئے۔پہلے ان کا خیال تھا کہ صحت کا شعبہ زیادہ سے زیادہ نجی ہاتھوں میں ہونا چاہیے اور نیشنل ہیلتھ سروس (این ایچ ایس) کا بجٹ بڑھانا کھلی منڈی کے اصولوں سے لگا نہیں کھاتا۔مگر اب وہ یہ کہتے نہیں تھکتے کہ این ایچ ایس کا شکریہ کہ جس کے ڈاکٹروں اور نرسوں نے ان کی جان بچائی۔
صدر ٹرمپ کی خواہش تو یہ ہے کہ کل کے بجائے آج شام ہی پورے امریکا کو لاک ڈاؤن کے عذاب سے نجات دلا دی جائے تاکہ وہ اپنی صدارتی انتخابی مہم بے فکری سے دوڑا سکیں۔مگر کیا کریں کہ کورونا منہ پھٹ ٹرمپ سے بھی زیادہ منہ زور ہے۔چنانچہ ٹرمپ اپنا غصہ کبھی اسے چینی وائرس کہہ کر نکالتے ہیں۔کبھی خود کو حاذق حکیم سمجھ کر طبی فتوی صادر کرتے ہیں کہ ملیریا کا علاج کرنے والی کلوروکین جادوئی دوا ہے اور اگر بھارت نے کلوروکین دینے سے انکار کیا تو وہ جوابی کارروائی کریں گے۔
کبھی امید بھرا اعلان کرتے ہیں کہ بارہ اپریل کو ایسٹر سنڈے تک حالات اتنے بہتر ہو جائیں گے کہ تمام چرچ عبادت گزاروں سے بھرے ہوئے نظر آئیں گے۔آج بارہ اپریل گذرے بھی سات دن ہو چکے ہیں اور سب سے زیادہ متاثرہ ریاست نیویارک نے لاک ڈاؤن پندرہ مئی تک بڑھا دیا ہے مگر ٹرمپ آج بھی کہہ رہے ہیں کہ میں امریکا کو مرحلہ وار کھولنے کا روڈ میپ لانے والا ہوں۔
اگر ٹرمپ کی یہی ذہنی حالت رہی تو خدشہ ہے کہ کچھ ہی عرصے بعد وہ اس شخص میں بدل جائیں گے جو راوی کے پل یا کراچی کے صدر میں اکثر مل جاتا ہے اور ہر کسی کو آواز لگاتا ہے ’’ بھائی صاحب میں مانگنے والا نہیں ہوں ایک منٹ میری بات تو سن لیں ’’ اور راہگیر جو اس شخص کو ایک مدت سے جانتے ہیں بچتے ہوئے گذر جاتے ہیں۔
مشرقِ وسطی میں ایران اگرچہ سب سے زیادہ متاثرہ ملک ہے مگر وہاں آج بھی قومی لاک ڈاؤن نہیں کیونکہ حکومت کہتی ہے کہ ہم تو کئی برس سے بین الاقوامی لاک ڈاؤن کی زد میں ہیں۔دوسرا بڑا متاثرہ ملک ترکی ہے جہاں اردوان حکومت نے آہنی لاک ڈاؤن نافذ کر رکھا ہے۔سعودی عرب میں اگرچہ متاثرہ افراد کی تعداد نسبتاً کم ہے مگر شاہی حکومت نے سخت لاک ڈاؤن نافذ کر رکھا ہے اور مکہ ، مدینہ ، جدہ اور ریاض میں تو مکمل کرفیو ہے۔متحدہ عرب امارات اور کویت میں بھی یہی حالات ہیں۔مگر یہ وہ ممالک ہیں جو ایک کڑا اور طویل لاک ڈاؤن برداشت کرنے کی معاشی سکت رکھتے ہیں۔
مصیبت ترقی پذیر ممالک کی ہے جو عالمی ادارہِ صحت کی سفارشات کی روشنی میں لاک ڈاؤن کریں تو مرتے ہیں نہ کریں تو مرتے ہیں۔ترقی پذیر ممالک میں سب سے کڑا لاک ڈاؤن اس وقت بھارت میں ہے اور اس کے اثرات ان ہائی ویز پر دیکھے جا سکتے ہیں جہاں ٹرانسپورٹ بند ہونے کے نتیجے میں لاکھوں افراد پیدل سیکڑوں کلومیٹر چل رہے ہیں، بھوک پیاس کا سامنا کر رہے ہیں۔
یہ ہجرت انیس سو سینتالیس سے بڑی ہجرت کہی جا رہی ہے۔ایسے مسائل سے توجہ ہٹانے کے لیے کوئی نہ کوئی قربانی کا بکرا بھی چاہیے لہذا مسلمانوں کو وائرس پھیلانے والا گروہ بتایا جا رہا ہے۔ علاقے چھوڑنے پر مجبور کیا جا رہا ہے اور مودی جی کی آبائی ریاست گجرات کے سب سے بڑے شہر احمد آباد کے سول اسپتال میں تو ہندو اور مسلمان مریضوں کے وارڈز تک الگ کر دیے گئے ہیں۔
پاکستان میں کورونا کی وبا باقی دنیا کے موازنے میں آج بھی اتنا سنگین مسئلہ نہیں۔پاکستان میں غذائی قلت نہیں ہے۔اگر تقسیم کا نظام بہترہو جائے تو پاکستان میں بھک مری کا امکان بھی فی الحال بہت کم ہے۔مگر جو عنصر کورونا سے موثر انداز میں نپٹنے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بنا ہوا ہے وہ کسی ایک مقتدر مرکز کا نہ ہونا اور اس کے نتیجے میں قوتِ نافذہ کی کمزوری ہے۔مرکز کنفیوز ہے ، صوبے اپنے اپنے زمینی حقائق اور سوجھ بوجھ کے اعتبار سے چل رہے ہیں۔
چونکہ دھشت گردی سے نپٹنے کے زمانے کے برعکس ریاستی یونٹ اور ادارے ہی ایک صفحے پر نہیں لہذا کاروباری و مذہبی مفاداتی گروہ بھی اپنی اپنی چلا رہے ہیں اور عوام کورونا کے محاصرہ زدہ چوراہے پر کھڑے سوچ رہے ہیں کہ کس کی مانیں کس کی نہ مانیں یا پھر اپنی من مانی کریں۔
ہر کوئی اسے وائرس سمجھ رہا ہے۔کوئی نہیں سمجھ رہا کہ یہ ایک حملہ ہے جس کا جنگی انداز میں مقابلہ کرنا ہے اور یہ کوئی بھارت پاکستان کی سترہ روزہ جنگ نہیں بلکہ بقا کی طویل لڑائی ہے اور ایسے دشمن سے ہے جس کا مقابلہ کوئی روایتی ہتھیار نہیں کر سکتا۔
کورونا مارے نہ مارے ہم خود کو مارنے پر یقیناً تلے بیٹھے ہیں۔
بشکریہ روزنامہ ایکسپریس