ایک ایسا معاشرہ جہاں ہر وقت عورت پر ظلم، جبر کی کہانیاں منظر عام پر آ رہی ہوں، جہاں کی ہر عورت اعلٰی تعلیم یافتہ اور انتہائی پسماندہ بھی۔
کیا سیاستدان، کیا بیوروکریٹ، کیا پروفیسر، کیا سرکاری پرائیوٹ نوکریوں میں افسر یا ماتحت، کیا اسٹوڈنٹ، کیا خاتون خانہ اور کیا گھر میں کام کرنے والی ماسی، ہر کسی کے پاس سنانے کے لئے مردوں کے ظلم اور اپنی مظلومیت کی کہانیاں ہیں۔
ایسے معاشرے میں اللہ پاک نے میری زندگی سے وابستہ ہر مرد کو ہی میرے لئے بہترین بنایا۔ الحمدللہ۔
باپ نے ساری زندگی بہت محنت کر کے، ہمارے سکھ آرام اور خوشی کہ لئے کمایا۔ آج میں سوچوں تو حیران ہو جاتی ہوں کہ پینتیس سال پہلے سخت سردی کے دنوں میں صبح چار بجے اٹھ کر جامشورو کالونی سے پھاٹک تک تقریباً تین کلومیٹر پیدل چل کر، پبلک ٹرانسپورٹ لے کر کسی طرح صبح آٹھ بجے سول اسپتال بدین پہنچنا، اور دو بجے ڈیوٹی ختم کر کے اسی طرح شام چھ بجے گھر پہنچنا۔
باپ کی سخت محنت، محبت اور حوصلہ ہی تھا کہ ہم سب بہن بھائیوں نے اچھی سہولتوں کے ساتھ اچھے ماحول میں آسودہ زندگی گزاری، بہترین تعلیم حاصل کی۔
بھائی تو ماشاءاللہ اتنا بے مثال۔ پچیس، تیس سال پہلے غیر ملکی چینلز، موبائل فونز، انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا سے پہلے کا پاکستان، اور پھر حیدر آباد جیسا چھوٹا اور پسماندہ شہر۔
بھائی تو ماشاءاللہ اتنا بے مثال۔ پچیس، تیس سال پہلے غیر ملکی چینلز، موبائل فونز، انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا سے پہلے کا پاکستان، اور پھر حیدر آباد جیسا چھوٹا اور پسماندہ شہر۔
بھائی نے وہاں بھی ہمیں ہر جائز شوق پورا کرنے دیا۔ اس زمانے میں بھی ہم شاعری اور لٹریچر خریدتے تھے، بھائی کے ساتھ گھومنے جاتے تھے، ہوٹلنگ کیا کرتے تھے، گھر میں کسی کی بھی سالگرہ ہوتی، بھائی نہ صرف کیک خود لے کر آتے بلکہ کھانے پر کہیں باہر لے کر جاتے سب کو، چھوٹی چھوٹی خوشیوں کو اہتمام سے مناتے۔
بھتیجا تو ماشاءاللہ اتنا سمجھدار اور ذمہ دار، رشتوں کو سنبھالنے اور نبھانے سے واقف۔ کہ میری شادی کے اتنے سالوں بعد بھی باقاعدگی سے سندھڑی آموں کی پیٹیاں حیدر آباد سے لاہور پہنچتی ہیں۔
اور شادی ہوئی تو اللہ نے ساتھ دینے والا، مسائل سمجھنے والا اتنے دھیمے مزاج کا شوہر دیا۔ اگر مجھے ڈاکٹر بنانا میرے والد کا کمال تھا تو میری پروفیشنل گرومنگ کا زیادہ کریڈٹ میرے شوہر کو جاتا ہے۔ انہوں نے نہ صرف مجھے ہمت، حوصلہ اور میرا ساتھ دیا۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ مجھے پڑھنے کے لئے قائل کیا، اور سبجیکٹ سلیکٹ کرنے میں بھرپور ساتھ دیا۔
اور اگر آج میں کسی چھوٹے سے میٹرنٹی ہوم میں روٹیشن ڈیوٹی کرتی میڈیکل افسر کے بجائے، ٹیچنگ انسٹیٹیوٹ میں اسسٹنٹ پروفیسر ہوں تو اس کا سارا کریڈٹ میرے شوہر کو جاتا ہے۔
اور اس سب کے ساتھ، خوبصورت ماحول، صحت مند اولاد، پرسکون گھر، ایک چھوٹی سی دنیا بسانے میں ہر طرح کا ساتھ دیا۔ الحمدللہ۔
میں کیوں نہ اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کروں، کہ جس نے مجھے ہر روپ میں بہترین مردوں سے نوازا۔ اور میری زندگی میں شامل ہر مرد کو نہ صرف میرے لئے بلکہ خود سے وابستہ ہر رشتے کے لئے بہترین بنایا۔ الحمدللہ