بزرگوں سے (جن میں سے اب کوئی باقی نہیں رہا) سنا کہ گئے وقتوں میں ٹھگ لوٹا ہوا مال دیگوں میں بھر کے زمین میں گاڑ دیا کرتے تھے۔ کہنے والے یہ بھی کہتے تھے کہ ایسا کرتے ہوئے وہ آٹے کا سانپ بنا کر دیگ کے ڈھکن پر بٹھا دیا کرتے تھے۔ یوں وہ دیگ ناگ دیوتا کی حفاظت میں چلی جاتی تھی۔ اب چونکہ یہ لوٹ کا مال ہوتا تھا تو ٹھگوں کو بھی ہضم نہیں ہوتا تھا۔ وہ بد نصیب ٹھگی کرتے قانون اور دوسرے ٹھگوں سے بچتے بچاتے ہی مر مرا جایا کرتے تھے۔ زمین کا مال زمین ہی میں دبا رہ جاتا تھا۔
کچھ ایسی ہی کہانیاں بحری قزاقوں کے بارے میں بھی مشہور ہیں کہ فلاں فلاں جگہ ڈوبنے والے جہاز پر لوٹ کا یہ یہ مال لدا ہوا تھا۔ زوال پذیر قوموں پر ایک وقت ایسا بھی آتا ہے کہ وہ کمانے دھمانے کی بجائے ایسے دفینوں کی تلاش میں چل نکلتی ہیں۔ 1857 کے غدر کے بعد جب ہندوستان میں مسلم تہذیب، ثقافت اور صنعت و حرفت سب رو بہ زوال تھیں تو لوگ باگ ایسی کہانیاں سنتے اور ان خزانوں کی تلاش میں مارے مارے پھرتے تھے۔
ایسا ہی ایک مبینہ خزانہ ہماری پشتینی حویلی میں بھی دفن تھا اور اس خزانے کی خبر کئی سو سال پہلے مر جانے والے ایک بزرگ کی روح نے کسی خاتون رشتے دار پر حاضر ہو کر دی تھی۔ نکمے، وقت کے مارے لوگ، کسیاں، کدالیں لے کر نکلے اور بتائی گئی جگہ پر کھدائی کی۔ ساری نشانیاں پوری تھیں لیکن زمین میں مٹی کے سوا کچھ نہ تھا۔ نہ چڑیا کے انڈوں کے برابر سچے موتی اور نہ ہی سونے سے بنا ہاتھی کا ہودا۔
ایک اور رشتے دار کے ہاں بھی جنات ساری رات سونے چاندی کی دیگیں ادھر سے ادھر لڑھکاتے پھرتے تھے لیکن تلاش بسیار کے باوجود ہاتھ کسی کے کچھ نہیں آیا۔ دکھ اس بات کا نہیں کہ خزانے مل نہ پائے، دکھ اس بات کا ہے اس ڈوبی ہوئی دولت پر اگلی نسلوں کے مستقبل تک سوچ لیے جاتے تھے ۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ وہی وقت کسی کاروبار میں لگاتے اور چار پیسے بناتے۔
حکومت ایف بی آر کی مدد سے لوٹی ہوئی دولت اور کالے دھن کے پیچھے دوڑ رہی ہے۔ نئے بجٹ میں ذرائع آمدن کے طور پر عوام کو رکھا گیا ہے۔ جو ٹیکس دیتے ہیں ان سے مزید ٹیکس لیا جائے گا جو نہیں دیتے انھیں ایمنیسٹی کی کدال سے اپنی سونے کی دیگیں کھود کے لانے پر بہلایا جا رہا ہے۔ مہنگائی کا جن آزاد ہو چکا ہے۔ یوٹیلیٹی بلز لگژری بن گئے ہیں۔ کاروبار ٹھپ ہے، چل رہا ہے تو صرف خزانے کی دیگوں کے خواب دکھانے کا کاروبار۔
مراد سعید کی تقریر کس کو نہیں یاد جس میں وہ کف اڑاتے ہوئے پاکستان کے مبینہ دو سو ارب ڈالر کا ذکر کررہے ہیں۔ یہ دو سو ارب ڈالر ان کے بیان کے مطابق پچھلے سال ہی خان صاحب کے قدموں میں ڈھیر ہو جانے چاہیے تھے۔ پھر وہ جس کے منہ پہ چاہتے مارتے مگر یہ ہو نہ سکا۔ کرپٹوں کا منہ کالا بھی ہو گیا، تبدیلی بھی آ گئی۔ اب ؟ فرض کرتے ہیں کہ ایف بی آر کوئی جنتر منتر پڑھ کے سارا کالا دھن برآمد بھی کر لیتا ہے تو یہ دھن کب تک چلے گا؟
مثل مشہور ہے بیٹھ کے کھانے سے تو قارون کا خزانہ بھی ختم ہو جاتا ہے۔ یہ پیسہ کے برس چلے گا؟ اس کے بعد کیا ہو گا؟
یہ کالا دھن بنانے والے بھی کشکول لیے ہمارے ساتھ بھیک مانگیں گے۔ روز کا ایک نیا اشقلہ چھوڑا جاتا ہے کبھی بھینسیں بیچی جاتی ہیں، کبھی تیل کے کنووں کے پیچھے دوڑتے ہیں اور کبھی نمک کی کان میں جا کر واویلا کرتے ہیں کہ ارے ہم تو اس سے ہی امیر ہو سکتے ہیں۔
عرض صرف اتنی ہے کہ ملک کی معیشت، دفینوں، خزینوں، سبز باغوں، متوسط طبقے کے خون پسینے اور غیر ملکی بھیک پر نہیں چلتی۔ مبینہ کرپٹ گرفتار ہیں۔ آپ کا معاشی بحالی کا پروگرام کیا تھا اور وہ کہاں گیا؟ آپ کو شاید خزانوں کی کہانیاں سنانے والے موکلوں نے یہ نہیں بتایا کہ یہ کالا دھن کسی کے نصیب کا نہیں ہوتا۔ جب اس کی تلاش کی جائے تو ان پر بیٹھے ناگ انھیں اندر ہی اندر لڑھکا کے کہیں سے کہیں لے جاتے ہیں۔
چلتے چلتے ایک لطیفہ سن لیجے۔ ایک کنجوس چودھری نے اپنے کسی کامے کو خوش ہو کر انعام دیا اور کہا، ’جا اوئے کرمیا! تجھے وہ بھینس دی جو پچھلے سال سیلاب میں بہہ گئی تھی۔ ان کے مصاحب نے فٹ کان میں کہا کہ چودھری صاحب، وہ بھینس تو مل بھی سکتی ہے آپ وہ کٹی دیں جو کل مر گئی ہے۔‘
تو صاحبو! یہ لوٹا ہوا مال، وہی مردہ کٹی ہے جو زندہ نہیں ہو سکتی۔ معیشت کی بنیاد سچ پر رکھیے، ہم آپ کے جذباتی اور ڈنگ ٹپاو فیصلوں کے نہیں درست اور اچھے فیصلوں کے منتظر ہیں۔