گذشتہ ہفتے ادب کا نوبل انعام پانے والے دو ادیبوں کے نام کا اعلان ہوا تو پاکستان کا ہر لکھنے والا ایسے خفا ہو گیا جیسے یہ انعام اسی کو ملنا تھا۔
حد یہ کہ وہ برگزیدہ ادیب جنھوں نے عمر بھر سوائے انجمن ستائش باہمی چلانے کے اور لابی لابی کھیلنے کے کچھ نہ کیا وہ بھی بڑ بڑا رہے ہیں کہ بھئی یہ یورپ سے باہر نکل کر کیوں نہیں دیکھتے؟ ہم بھی تو پڑے ہیں راہوں میں۔
اب بات یہ ہے کہ اگر یہ انعام ان دو ادیبوں کو نہ دیا جاتا اور کسی اور کو دے دیا جاتا تب بھی یہ لوگ اسی قدر خفا ہوتے۔ تب تاویل کچھ اور دی جاتی۔ حد یہ ہے کہ اگر یورپ کی حد سے دور بہت ہی دور یعنی پاکستان تک آ کے کسی دیسی ادیب کو بھی دے دیتے تب بھی خفا ہی ہوتے بلکہ کچھ زیادہ ہی خفا ہو تے۔
ہماری بات پر اعتبار نہیں تو ڈاکٹر عبدالسلام جنھیں فزکس کا نوبل انعام ملا اور ملالہ یوسفزئی کا نام لے کر دیکھ لیجیے ایسے بھنائیں گے بلکہ اہل کراچی کے محاورے میں بالکل بھنوٹ ہو جائیں گے۔
ایوارڈ یافتگان کا تعلق یورپ سے ہونے کے علاوہ دوسرا اعتراض یہ کیا جا رہا ہے کہ بھیا ہم نے تو کبھی ان ادیبوں کے نام بھی نہیں سنے۔ عرض یہ ہے کہ ان لوگوں نے تو بہت سے پاکستانی ادیبوں کے نام بھی نہیں سن رکھے، کیا اس سے ان کے ادبی قد پر کوئی فرق پڑتا ہے؟
سچ یہ ہے کہ ان دونوں ادیبوں کے بارے میں سوائے اس کے کسی کو بھی کچھ خاص معلوم نہیں کہ ان میں سے ایک پولش شاعرہ اور ناول نگار ہیں جبکہ دوسرے صاحب آسٹرین ڈرامہ نگار اور ناول نگار ہیں۔
کچھ عادت سی بن گئی ہے اعتراض برائے اعتراض کی۔ اس پر یہ کہ اگر اپنے ہاں کسی کے کام کو کوئی بین الاقوامی سطح پر سراہ دے تو بے چارہ رنگ لگا چڑا بن کے رہ جاتا ہے، سب ہی ٹھونگ ٹھونگ کر کھا جاتے ہیں۔
ہم ایسا کیوں کرتے ہیں؟ وجوہات بے شمار ہیں۔ ہمیں ایسا نہیں کرنا چاہیے اس کی بھی کئی تاویلیں ہیں۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ بے شک کوئی بھی ایوارڈ کسی شخصیت کے لیے تکریم کی سند نہیں۔ دوسری بات یہ کہ کسی بھی ایوارڈ کی صورت میں کسی شخصیت کے کارناموں کو جو خراج تحسین پیش کیا جاتا ہے اس سے بھی انکار ممکن نہیں۔ تیسری اور سب سے اہم بات کوئی بھی ایوارڑ کبھی بھی مکمل غیر جانبدار نہیں ہو سکتا۔
خاص کر ادب میں، ہر ایوارڈ کے پیچھے ذہن سازی کا ایک مخصوص ایجنڈا کارفرما ہوتا ہے۔ کبھی یہ ایجنڈا واضح ہوتا ہے اور کبھی پوشیدہ۔ مثال کے طور پر آج کل خواتین کے حقوق وغیرہ جیسے معاملات پر زیادہ نظر اٹھتی ہے۔ یہ کوئی بہت بری بات بھی نہیں کیونکہ بہر حال مقصود انسانی معاشرے کی بہتری ہی ہے۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہر ایوارڈ کے پیچھے کوئی نہ کوئی لابی کارفرما ہو تی ہے چاہے یہ نوبل انعام ہو یا محلہ کمیٹی کا کرایا ہوا تقریری مقابلہ۔ خود ہمارے ہاں ہی ایک آدھ ایوارڈ جو آج بھی موجود ہے اس پہ کیا کیا الزامات نہیں لگتے اور ان الزامات کے درست یا غلط ہونے کا مجھ سے زیادہ آپ کو علم ہے۔
آخری اور سب سے اہم بات کسی بھی ایوارڈ کے حصول کے لیے اصل شے اس ایوارڈ کے لیے نام جمع کرانا ہے۔ میرے خیال میں تو یہ ہی بنیادی بات ہے۔ لابی کا ہونا اور کسی خاص نظریے کی طرف جھکاؤ ہونا تو بہت بعد میں آتا ہے۔
کیا ہمارے ہاں سے کوئی ادارہ یا فرد یہ نام جمع کراتا ہے؟ سوئیڈش اکیڈمی کے جاری کردہ اصولوں کے مطابق یہ نام سوئیڈش اکیڈمی یا اسی طرح کی کوئی دوسری اکیڈمی، انگریزی ادب کے پروفیسرز، ادبی ادارے کے صدر، پہلے نوبل پا لینے والے لوگ یا وہ لوگ جن کو سوئیڈش اکیڈمی نامزدگی کے لیے خط لکھے بھیج سکتے ہیں۔
کیا ہمارے ہاں یہ سب ادارے اور افراد موجود نہیں؟ کیا کبھی ایک بار بھی کسی ادیب کا نام جمع کرایا گیا؟ میرے ناقص علم میں یہ بات نہیں اور اگر ایسا ہوا ہے تو اصول و ضوابط کے مطابق اگلے 50 سال تک تو مجھے علم ہو بھی نہیں سکتا۔
اردو کی کیفیت یہ ہے کہ یہ بڑے شہروں سے مراجعت کر کے مضافات میں چلی گئی ہے۔ یوں بھی اردو کا مزاج مجلسی ہے۔ اس زبان کے قاری سے زیادہ سامع ہیں، نثر سے زیادہ یہ غزل کی زبان ہے اور غزل مشاعرہ مانگتی ہے۔
مشاعرہ کا شاعر فوری داد کے جال میں پھنس کر مقبول عام موضوعات تک محدود ہو جاتا ہے۔ نئے موضوعات اور نئے خیالات کم ہی برتے جاتے ہیں۔
نثر کا معاملہ یوں ہے کہ اردو میں کتب بینی کا کوئی اتنا رواج نہ پہلے تھا نہ اب ہے۔ جو قاری ہیں ان کا جھکاؤ ایک مخصوص طرز تحریر اور چند موضوعات کی طرف ہے۔ پس لکھنے والے جو سیانے ہیں اردو کی بجائے انگریزی میں نثر لکھ رہے ہیں۔
اردو نثر نگاروں کی ایک پوری پیڑھی غائب ہے۔ شاعری کا حال تو بیان ہو چکا مگر جو دال دلیہ ہے وہ بھی کچھ ایسا برا نہیں گوارا ہی ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ میزوں پر بیٹھے بیٹھے بتے ملانے اور دلی دکھانے کی بجائے عملی اقدامات کیے جائیں۔
اردو کے عصری ادب کے ترجمے کے بغیر بات نہیں بنے گی۔ ہمارا ادیب آج لکھ بھی رہا ہے، زندگی گزارنے کو کوئی اور پیشہ بھی اپنائے ہوئے ہے، اپنی کتاب کی اشاعت بھی جان جوکھوں میں ڈال کرکراتا ہے، پھر مفت تقسیم بھی کرتا ہے نقادوں کو اپنی گرہ سے چائے پلا کر ان کی الٹ سلٹ تنقید بھی سنتا ہے۔
یہ سب ادیب کی ذمہ داری نہیں۔ ادیب کی ذمہ داری کتاب ترجمہ کرانا بھی نہیں، ادیب کی ذمہ داری ملکی اور بین الاقوامی سطح پر اپنے کام کو پہنچانا بھی نہیں تو پھر یہ ذمہ داری کس کی ہے؟
ادھر ادھر دیکھنے کی بجائے اپنی ذمہ داری کو سمجھیے۔ نہ ہی ادب کسی ایوارڈ کے لیے تخلیق کیا جاتا ہے اور نہ ہی ایوارڈ کسی تخلیق کے معیار کا تعین کرتا ہے مگر اتنا ضرور ہے کہ ہر برس جب ادب کے سب سے بڑے ایوارڈ کا اعلان ہوتا ہے تو دل میں یہ خیال ضرور آتا ہے کہ اس بار بھی کوئی اردو ادیب نہیں؟ کیونکہ ہم تو یہ ہی سوچتے رہے ہیں کہ
اردو ہے جس کا نام ہمی جانتے ہیں داغ
سارے جہاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے
پھر دھیان آتا ہے کہ یہ دھوم اردو زبان کی نہیں داغ دہلوی کی زبان کی تھی۔
سرکاری ادارے ٹھہرے چکنے گھڑے، ان سے سر پھوڑنے کی بجائے حلقہ ارباب ذوق یا انجمن ترقی پسند مصنفین ہی اپنی مدد آپ کے تحت اردو ادب کے تراجم پر توجہ مرکوز کر لیں تو میں سمجھتی ہوں کہ ہمارا عصری ادب پوری دنیا تک پھیل سکتا ہے۔
یہ ہی وہ دو ادارے ہیں جو جنگ، امن، کرفیو، مارشل لا اور ہر طرح کے حالات میں بغیر کسی حکومتی سر پرستی کے مسلسل چل رہے ہیں اور ہر ہفتے ان کے تحت ہونے والے تنقیدی اجلاس سے کم سے کم یہ بات تو سامنے آتی ہے کہ فی ہفتہ شاعری، نثر اور تنقید کا ایک ایک جز تو لکھا ہی جا رہا ہے۔
تراجم کی روایت بھی شروع ہو گئی تو مجھے پوری امید ہے کہ شاعروں کی طرح ہم اس صنف میں بھی خود کفیل ہو جائیں گے اور ہر برس جھولی پھیلا کر یورپ کے قلم میں کیڑے پڑنے کی بدعائیں کرنے کی بجائے سر اٹھا کر فہرست میں اپنے ادیبوں کے نام تلاش کیا کریں گے اور نام نہ پا کر جھولی پھیلایا کریں گے۔
میرے خیال میں یہ زیادہ بہتر صورت حال ہے۔ کسی سیانے نے کہا ہے کہ عشق کر کے ناکام رہنا بہتر ہے عشق نہ کرنے سے تو ترجمہ کر کے مقبول نہ ہونا بہتر ہے ترجمہ نہ ہو کے مقبول نہ ہونے سے۔ ترجمے کو فروغ دیجیے خیال کی روشنی پھیلنے دیجیے۔