شمیمہ بیگم کے ڈچ شوہر چاہتے ہیں کہ ان کی اہلیہ اور بچہ ہالینڈ میں رہیں

شمیمہ بیگم
PA
سنہ 2015 میں دولت اسلامیہ میں شمولیت اختیار کرنے والی شمیمہ بیگم کے شوہر جو کہ ہالینڈ کے شہری ہیں، کہتے ہیں کہ ان کی خواہش ہے کہ شمیمہ ان کے ساتھ ہالینڈ میں رہیں۔
یاگو ریڈیک نے 15 سال کی عمر میں دولت اسلامیہ کے زیر انتظام علاقے میں آنے والی شمیمہ بیگم کے ساتھ شادی کی تھی۔ اس وقت یاگو ریڈیک کی عمر 23 سال تھی۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے یاگو ریڈیک نے تسلیم کیا کہ وہ دولت اسلامیہ کے لیے لڑا کرتے تھے مگر اب وہ اپنی اہلیہ اور نوزائیدہ بیٹے کے ساتھ گھر واپس لوٹنا چاہتے ہیں۔
یاگو ریڈیک
BBC
شمیمہ بیگم کے شوہر 27 سالہ یاگو ریڈیک اس وقت شمال مشرقی شام میں قائم ایک کرد حراستی مرکز میں زیر حراست ہیں
27 سالہ یاگو ریڈیک اس وقت شمال مشرقی شام میں ایک کرد حراستی مرکز میں زیر حراست ہیں۔
ہالینڈ واپس لوٹنے پر انھیں ایک دہشت گرد تنظیم کا حصہ رہنے پر چھ سال قید کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
بی بی سی مشرق وسطی کے نمائندے کوینٹن سمرول کو دیے گئے انٹرویو میں یاگو ریڈیک نے کہا کہ انھوں نے دولت اسلامیہ کو رد کر دیا تھا اور تنظیم کو چھوڑنے کی کوشش بھی کی تھی۔

ہمارے نمائندے کو انھوں نے بتایا کہ انھیں رقا میں تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور انتہا پسندوں نے ان پر الزام لگایا کہ وہ ہالینڈ کے جاسوس ہیں۔
شمیمہ بیگم جو اب 19 سال کی ہیں اپنے شوہر کے ساتھ باغوز نامی شہر سے فرار ہوئیں۔ جب دولتِ اسلامیہ میں خلافت ختم ہو رہی تھی تو اس علاقے کو دولت اسلامیہ کا مشرقی شام میں آخری ٹھکانا تصور کیا جاتا تھا۔
یاگو ریڈیک نے اپنے آپ کو شامی جنگجوؤں کے حوالے کر دیا جبکہ شمیمہ بیگم اپنے نوزائیدہ بیٹے جارہ کے ہمراہ شمالی شام میں قائم ال ہول پناہ گزین کیمپ میں آ گئیں۔
معلومات کے مطابق شمیمہ بیگم اب کسی نامعلوم مقام پر منتقل ہو چکی ہیں۔
یاگو ریڈیک نے بی بی سی کو یہ بھی بتایا کہ انھیں ایک 15 سالہ لڑکی کے ساتھ شادی میں کچھ غلط نہیں لگا کیونکہ اس میں ’شمیمہ بیگم کی مرضی‘ شامل تھی۔
شمیمہ بیگم سے پہلی ملاقات کے حوالے سے انھوں نے بتایا کہ وہ ان سے رقا میں قائم خواتین کے ایک مرکز میں ملے تھے اور ابتدائی ملاقات میں انھیں ان میں کوئی دلچسپی نہیں تھی کیونکہ وہ بہت کم عمر تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ ’سچ بتاؤں تو میرا ایک دوست آیا جس نے مجھے کہا کہ ایک لڑکی ہے جو شادی کی خواہشمند ہے، مجھے اس کی عمر کی وجہ سے اس میں دلچسپی نہیں تھی مگر میں نے پھر بھی پیشکش قبول کر لی۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ وہ ظاہری طور پر ایک ’اچھی دماغی حالت میں تھیں۔‘
ہالینڈ کے شہر آرنہم سے تعلق رکھنے والے یاگو ریڈیک اس بات پر اصرار کرتے ہیں کہ ’یہ ان کی اپنی مرضی تھی۔‘ انھوں نے شادی کی خواہش ظاہر کی جس پر مجھے مدعو کیا گیا۔‘
انھوں نے تسلیم کیا کہ ’وہ بہت کم عمر تھیں، بہتر ہوتا اگر وہ تھوڑا انتظار کر لیتیں‘ اور مزید کہا کہ ’مگر انھوں نے انتظار نہیں کیا اور شادی کا انتخاب کیا اور میں نے ان سے شادی کو منتخب کیا۔‘
شمیمہ بیگم
BBC
شمیمہ بیگم کا کہنا ہے کہ وہ دولت اسلامیہ کی ‘پوسٹر گرل’ نہیں بننا چاہتی تھی
برطانیہ نے شمیمہ بیگم کی شہریت اس بات پر منسوخ کر دی کہ وہ بنگلہ دیش کی شہریت کے لیے اہل ہیں کیونکہ ان کی والدہ بنگلہ دیشی شہری ہیں۔
البتہ بنگلہ دیش کی وزارت خارجہ نے کہا ہے کہ شمیمہ بیگم بنگلہ دیشی شہری نہیں ہیں اور انھیں ملک میں داخلے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
گذشتہ ماہ شمیمہ بیگم کے خاندان نے سیکریٹری داخلہ کو مطلع کیا تھا کہ وہ ان کی شہریت منسوخ کیے جانے کے فیصلے کو چیلنج کریں گے۔
ساجد جاوید کو لکھے گئے ایک خط میں جو بی بی سی کی نظر سے گزرا ہے، کہا گیا تھا کہ وہ ’انھیں اتنی آسانی سے چھوڑ‘ نہیں سکتے اور شمیمہ بیگم کے نوزائیدہ بچے کو برطانیہ لانے کے لیے حکومت کو معاونت فراہم کرنی چاہیے۔
لیبر پارٹی کے سربراہ جیرمی کوربن کا کہنا ہے کہ شمیمہ بیگم کا ’حق ہے کہ وہ برطانیہ واپس لوٹیں‘۔ انھوں نے ’شہریت کو منسوخ کرنے کے فیصلے‘ کو ’انتہا پسند‘ اقدام قرار دیا۔
اگرچہ یاگو ریڈیک دہشت گردوں کی واچ لسٹ پر ہیں مگر ان کی ہالینڈ کی شہریت اب تک منسوخ نہیں کی گئی۔
یاگو ریڈیک نے سنہ 2014 میں دولت اسلامیہ میں شمولیت اختیار کی تھی۔